بعض حلقے لوگوں کی خوشیوں کے قاتل ہیں۔ انہیں ہر چیز میں
کچھ نہ کچھ منفی عنصر تلاش کرنا ہوتا ہے اپنی دکانداری کے لئے، اپنی جھوٹی
انا کی تسکین کے لئے۔ اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے۔جبکہ لوگ چھوٹی چھوٹی
خوشیوں کے متلاشی ہیں۔یہ خوشیاں ان کے لئے تقویت کا باعث ہیں۔ بھوک، بیماری،
غم روزگار اور بہت سے مسائل جہاں انسانوں کے لئے پریشانیوں کا باعث ہیں
وہاں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا انسانی صحت پر بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔کھیل،
تماشے اور میلے اسی لئے وجود میں آئے کہ انسان ان میں شرکت سے ایک فرحت
محسوس کرتاہے۔ دنیا بھرکے ہر گاؤں میں سا ل میں ایک آدھ میلہ ضرور ہوتا ہے۔
گاؤں بھر کے مکینوں کو اس میلے سے ایک جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔اس گاؤں کے
نوجوان جہاں بھی ہوں اور جیسے حال میں ہوں،میلے کے دن سب کام چھوڑ کر گاؤں
پہنچنا اپنا فرض جانتے ہیں ۔ گاؤں اور گاؤں کے میلے سے بچپن سے جاری
وابستگی انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ میلے میں بھرپور شرکت کریں۔
کرکٹ، فٹ بال، ہاکی اور بہت سی کھیلوں کا شہروں میں انعقاد میلے ہی کی ایک
وسیع اور جدیدشکل ہے۔حال ہی میں لاہور میں ہونے والا کرکٹ میچ یا کرکٹ میلہ
لوگوں کی کھیلوں اور میلوں سے جذباتی وابستگی کا ترجمان ہے۔پتہ نہیں کرکٹ
نے کب اسلام قبول کیامگر آج پاکستان میں کسی شخص کو چاہے وہ کوئی مولوی یا
عالم ہی کیوں نہ ہوکرکٹ کھیلنے یا دیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔بلکہ بہت سے
مذہبی حضرات اس کھیل میں ملوث بھی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح فٹ بال، ہاکی اور
بہت سے دوسرے کھیل حتی کہ تاش کا کھیل بھی مشرف با اسلام ہو چکے یا پھر
مسلمانوں نے اسے پوری طرح قبول کر لیا ہے مگر کچھ بد قسمت کھیل ایسے بھی
ہیں جنہیں ابھی تک کچھ مسلمان اور مذہبی حلقے قبول کرنے کو تیار ہی نہیں۔ان
کھیلوں کو غیر اسلامی قرار دے کر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو لوٹ لیا
جاتا ہے۔انہی کھیلوں میں ایک کھیل پتنگ بازی ہے۔
یکم جنوری کو شروع ہونے والا سال عیسوی ہے۔ اسے پہلے جولیس سیزر اور بعد
میں فادر گریگوری نے ترتیب دیا۔ جولیس سیزر اور فادر گریگوری دونوں کا تعلق
کسی طرح بھی اسلام سے نہیں مگر اسلام کے ٹھیکیداروں نے اس سال کو پوری طرح
قبول کر لیا ہے اوریہ کیلنڈر ہماری زندگی میں یوں رچ بس گیا ہے کہ ہم میں
سے بہت سوں کو اسلامی مہینے یاد ہی نہیں۔ ہم نئے سال کا جشن بھی یکم جنوری
کو اس طرح مناتے ہیں کہ مبارک باد کے ڈھیر میں دن دفن ہو جاتا ہے جب کہ یکم
محرم کب آئی اور کب گئی پتہ ہی نہیں چلتا۔ہندستانی مکتبہ فکرکے لحاظ سے ایک
سال چیت کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔اس سال کے دو مہینے ایک مخصوص رت بیان
کرتے ہیں۔یوں سال میں چھہ مختلف رتیں ہوتی ہیں۔سال کے ابتدائی دو مہینے چیت
اور وساکھ بسنت رت کہلاتی ہے۔مارچ کے مہینے میں جب سرسوں کے پیلے پھول اپنا
جوبن دکھاتے ہیں تو بر صغیر کے کسان بڑی دھوم دھام سے جشن مناتے ہیں۔یہ جشن
بسنت کہلاتا ہے اور اسی نسبت سے سرسوں کا پیلا رنگ بسنتی رنگ کہلاتا ہے۔
بسنت کے استقبال میں دیہاتوں اور قصبوں کی عورتیں بسنتی لباس پہنتی اور مرد
کھیل کھلیانوں میں رقص کرتے اور پتنگیں اڑاتے ۔ چند سال پہلے تک یہ قدیم
روایت ہمارے کلچر کا حصہ تھی مگر ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے دشمنوں نے بغیر
سوچے سمجھے بسنت کی مخالفت کی اور ہم سے ہماری یہ خوشی چھین لی۔
حضرت نظام الدین اولیاکی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔انہوں نے اپنے بھانجے
خواجہ تقی الدین کو اپنا بیٹا بنا کر پالا اور اس سے بہت محبت کرتے تھے۔
خواجہ تقی بیمار ہو ئے اور فوت ہوگئے۔ حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے پیارے
بھانجے کی وفات کا اس قدر افسوس ہوا کہ انہوں نے خود کو ایک کمرے تک محدود
کر لیا اور بالکل چپ سادھ لی۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی کہ حضرت نظام الدین
اولیا اپنی چپ ختم کر لیں اور کمرے سے باہر آجائیں مگر کوئی تدبیر کارگر نہ
ہوئی۔ ایک دن امیر خسرو ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ بہت سی عورتیں بسنتی
لباس پہنے ناچتی گاتی جا رہی تھیں۔ امیر خسرو نے ان عورتوں سے پوچھا کہ
انہوں نے یہ لباس کیوں پہنا ہے اور کہاں جا رہی ہیں۔جواب ملا۔ اپنے بھگوان
کو خوش کرنے کے لئے بسنت منا رہی ہیں اور یہ لباس پہنا ہے۔ امیر خسرو نے
بھی بسنتی لباس پہنا، پیلے پھول سجائے اور پیلی چنری پہنے ،ـ سکل بن پھول
رہی سرسوں ، گاتے حضرت نظام الدین اولیا کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت نظام الدین
اولیا نے جب امیر خسرو کو اس حال میں دیکھا تو مسکرا دئیے۔ اس واقعے کی یاد
میں ہر سال حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر بسنت منائی جاتی ہے اور بہت
بڑی تعداد میں مسلمان اس میں شریک ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ حضرت نظام الدین
اولیا کو بسنت کا تہوار بہت پسند تھا۔
بلاشبہ ویلنٹائن ڈے کی آمد مغرب سے ہوئی۔ اس دن لوگ اپنے پیاروں کو گلاب کے
پھول اور تحفے دیتے ہیں ۔ موجودہ گلوبل دنیا میں اس طرح کے تہوارکسی ایک
جگہ، کسی ایک طبقے یا کسی خاص گروہ کے لئے مخصوص اور محدود نہیں رہ
سکتے۔محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ ہر شخص اس کا اظہار چاہتا ہے۔ مگر ہمیں لوگوں
کو بتانا چاہیے کہ اس کا اظہار یقیناً ہمیں اپنی قدروں، اپنے ماحول اور
اپنے کلچر کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ مغرب میں محبت کا مرکز اور محور ایک گرل
فرینڈ ہوتی ہے۔ اسلئے گلاب اور تحفے اسی کا حق ٹھہرتے ہیں۔ہمارے معاشر ے
میں کسی گرل فرینڈ کا تصور ہی نہیں۔ یہاں محبت کا محوربیوی ہوتی ہے، ماں
باپ ہوتے ہیں، بہن بھائی ہوتے ہیں اور اولاد ہوتی ہے۔ جو گلابوں اور تحفوں
کے اصلی حقدار ہیں۔کہتے ہیں کہ ہمیشہ دریا کے بہاؤ کے ساتھ چلو۔ ہم مخالف
چل کر اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہیں ۔ بہتر ہے ہم ویلنٹائن ڈے کو اپنی
قدروں، اپنے ماحول اور اپنے کلچر کے مطابق ڈھال لیں۔ لوگوں کی خوشیاں
چھیننے کی بجائے ان کی خوشی کے مزید سامان کریں۔ مگر اس کے لئے مذہبی اور
حکومتی حلقوں میں ایک مثبت سوچ کی ضرورت ہے ۔ گرل فرینڈ کے تصور کو یہاں
پنپنے سے روکنے کے لئے لوگوں کو گلاب اور تحفے ہی نہیں آسانیاں اور خوشیاں
بھی اپنے پیاروں میں با نٹنے کی کھلی اجازت دینا ہو گی۔ |