1۔ قادیانی فرشتے:۔
(i)۔ ٹیچی ٹیچی:
’’( نشان (147ایک دفعہ مارچ 1905ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگرخانہ کے
مصارف میں بہت دقت ہوئی کیوں کہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اوراس کے مقابل
پر روپیہ کی آمدنی کم ،اس لیے دعا کی گئی۔ 5مارچ 1905ء کو میں نے دیکھ اکہ
ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور بہت سا روپیہ میرے
دامن میں ڈال دیا۔ میں نے اس کا نام پوچھا ،اس نے کہا:نام کچھ نہیں ،میں نے
کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا : میرا نام ہے : ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی ٹیچی
پنجابی زبان میں و قت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے
والا۔ تب میری آنکھ کھل گئی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے
ذریعے سے اور کیا براہ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں
جن کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی صفحہ 346،مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 346)
(ii)۔ خیراتی اور شیر علی:۔
’’من جملہ نشانات کے ،ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر
گیا ہے کہ میں گورداسپورہ میں تھا کہ مجھے خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی
پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداﷲ صاحب مرحوم
غزنوی بیٹھے ہیں ،جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔اتنے میں میرے دل میں
محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو
چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی
جگہ کی طرف رجوع کیا،یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے
اس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب انھوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے
کھسک کر پائنتی کی طرف چندانگلی کے فاصلے پر بیٹھے تب پھر میرے دل میں ڈالا
گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اٹھا دوں ۔ پھر میں ان کیطرف جھکا تو وہ اس جگہ
کو بھی چھوڑ کر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا
گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور زیادہ پائنتی کی طرف کیا جائے ۔ تب پھر وہ
چند انگلی پائنتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف
کھسکتا گیا اور وہ پائنتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر کا ر
چار پائی پر سے اترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی
وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ۔ ایک کا نام خیراتی تھا ، وہ بھی ان پر
زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔ اور انہی دنوں میں
شاید اس رات سے اول یا اس را ت کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک
شخص جومجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے ،مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام
شیرعلی ہے، اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکال لی ہیں اور صاف کی
ہیں۔
(تریاق القلوب صفحہ 224-225 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد15صفحہ 352-351)
(iii)۔ آئل:۔
جَآءَ نِیْ آئِلٌ وَاخْتَارَ وَاَدَارَ اِصْبَعَہُ وَاَشَارَ یَعْصِمُکَ
اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وََیَسْطُوْا بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ آئل جبرائیل ہے
فرشتہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ: آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا(یعنی چن لیا تجھ کو) اور
گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا
اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔ فرمایا آئل اصل میں ایالت سے
ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کوظالم سے بچاتا ہے ۔ یہاں جبرائیل نہیں
کہاآئل کہا اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے
بچاوے اس لیے فرشتہ کانام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں
طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یعصمک اﷲ من العداء وغیرہ۔
یہ بھی اس سے پہلے الہام سے ملتا ہے : اِنَّہُ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَک
َوَعَادٰیوہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس نے اس کی
عداوت کی ۔ چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا ہوگا یا زبان میں کم
مستعمل ہوتا ہوگا اس لیے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘
(بحوالہ تذکرہ صفحہ369طبع چہارم )
(iv)۔ درشنی:۔
’’ایک فرشتہ کو میں نے 20برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا ، صورت اس کی مثل
انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ
بہت ہی خوب صورت ہیں۔ اس نے کہا: ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ملفوظات مرزا قادیانی جلد چہارم صفحہ 69)
(v)حفیظ:۔
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’ بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب
میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمھارا کیا نام ہے۔ وہ
کہنے لگا ، میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 643طبع چہارم)
(vi)۔ مٹھن لال:۔
’’فرمایا : نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعاکی گئی ۔ صبح (کی
نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری
میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کرکے کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے
حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور
کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے چہرے کی
طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس
سے کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں ،نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی
شفاعت میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں
کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا،
کرسی پر بیٹھا ہو اکچھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں ۔ میں
نے جا کر کاغذ اس کو دیا ور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے
اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کر
دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے
پکڑو ابھی دستخط کیے گئے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے۔ انھوں نے کہا
کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہو
گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر
دستخط ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کر لیا کرتے
ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘
(تذکرہ طبع چہارم صفحہ 474-473 از مرزا قادیانی)
ٍ-2جوچاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے:۔
(الف)۔نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اولاد مبارکہ
میں تمام مؤرخین اور محدثین متفق ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے تین بیٹے
قاسم،عبداﷲ ،ابراہیم اور چاربیٹیاں : فاطمہ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم، رضوان
اﷲ علیہم اجمعین ہیں۔ فقط شیعہ حضرات اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کی فقط ایک ہی بیٹی ہے جو فاطمہ رضی اﷲ عنہاہے
اور باقی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پہلے خاوندسے شمار کرتے ہیں
لیکن ان کی یہ بات اس لیے غلط قرار پاتی ہے کہ قرآن مقدس میں نبی کریم علیہ
السلام کی بیٹیوں کے لیے لفظ بنات آیا ہے جو کہ بنت کی جمع ہے یعنی ایک سے
زیادہ بیٹیاں ‘جہاں تک پہلے خاوند کی بیٹیوں کا تعلق ہے تواس کے لیے ربائب
کا لفظ آیا ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ کریں سورۃ النساء آیت نمبر23۔
اب آتے ہیں مرزا قادیانی کی طرف کہ وہ اولاد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
بارے میں کیا کہتا ہے ملاحظہ ہو۔
-1 ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے
پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے۔‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ 286 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 299 ازمرزا قادیانی)
-2 ’’دیکھو ہمارے پیغمبر کے ہاں 12لڑکیاں ہوئیں۔ آپ نے کبھی نہیں کہاکہ
لڑکا کیوں نہ ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 372 طبع جدید از مرزا قادیانی)
ب۔ محترم قارئین! ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے
ہوتا ہے اور صفر ہجری سال کا دوسرامہینہ ہے لیکن مرزا قادیانی اس کے برعکس
لکھتاہے کہ:
’’اور جیساکہ وہ چوتھا لڑکا تھا اسی مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں
میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا
یعنی چارشنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 41 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 218از مرزا قادیانی)
محترم قارئین! اسلامی ہفتے کا آغاز جمعہ سے ہوتا ہے اسی مناسبت سے چہار
شنبہ ہفتہ کا پانچواں دن بنتا ہے، جس کی وضاحت اس چاٹ سے ہوتی ہے۔
-1شنبہ،-2 یک شنبہ-3 دوشنبہ-4سہ شنبہ-5 چہارشنبہ-6 پنج شنبہ-7جمعہ
جبکہ مرزاقادیانی چارشنبہ کوچوتھا دن شمار کررہاہے کیوں نہ کرے ۔اس کے
آقاؤں(عیسائیوں)کے کیلنڈرمیں ہفتے کے دنوں کاآغازشنبہ(ہفتہ)کی بجائے یک
شنبہ (اتوار) سے ہوتاہے۔اور عیسائی کیلنڈر کے مطابق ہی چارشنبہ ہفتے
کاچوتھادن بنتاہے۔
محترم قارئین !اب مرزاقادیانی کی زندگی کے کچھ ایسے واقعا ت کاذکرکرتاہوں
جنہیں قادیانی ذریت اپنے خودساختہ جعلی نبی کی سادگی سے تعبیرکرتے ہیں لیکن
کوئی بھی باشعور شخص ان واقعات سے مرزاقادیانی کی ذہنی اپروچ اوردماغی خلل
کا اندازہ لگاسکتا ہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کابیٹا مرزابشیر احمد
رقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ
السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضورجراب پہنتے
تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ
اوپرکی طرف ہوجاتی تھی اوربارہا ایک کاج کابٹن دوسرے کاج میں
لگاہوتاتھا۔اوربعض اوقات کوئی دوست حضورکے لیے گرگابی ہدیۃً لاتاتوآپ
بسااوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اوربایاں دائیں میں۔چنانچہ اسی
تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔اسی طرح کھناکھانے کایہ حال تھاکہ
خودفرمایاکرتے تھے کہ ہمیں تواس وقت پتہ لگتاہے کہ کیاکھارہے ہیں کہ جب
کھاتے کھاتے کوئی کنکروغیرہ کاریزہ دانت کے نیچے آجاتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ344روایت نمبر378طبع چہارم )
’’ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لیے گرگابی لے آیا۔آپ نے پہن لی مگراس کے الٹے
سیدھے پاؤں کاآپ کوپتہ نہیں لگتاتھا۔کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے
اورپھرتکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کاالٹا پاؤں پڑجاتاتوتنگ ہوکرفرماتے ان
کی کوئی چیزبھی اچھی نہیں ہے والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نے آپ کی سہولت
کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگادیے تھے مگرباوجوداس کے
آپ الٹاسیدھاپہن لیتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ60روایت نمبر83طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزابشیراحمد نے مرزاقادیانی کے حالات زندگی پرمشتمل اپنے
حقیقی ماموں ڈاکٹر میرمحمداسماعیل کاایک مضمون اپنی کتاب سیرت المہدی میں
روایت نمبر447کے تحت درج کیاہے۔اس مضمون کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے
مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ
’’خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمداسماعیل صاحب جوہمارے حقیقی ماموں ہیں
ان کاایک مضمون الحق دہلی مورخہ۱۹/۲۶جون۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ
السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہواتھایہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک
بہت عمدہ مضمون ہے اورمیرصاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اورتجربہ
پرمبنی ہے ۔ لہٰذادرج ذیل کیاجاتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ409روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !آپ بھی اس مضمون کے چنداقتباسات ملاحظہ فرمائیں قادیانی ذریت
کی عقلمندی کی داد دیں کہ انہوں کیسی شاندار شخصیت نبوت کے لیے پسندکی ہے
۔لہٰذااب اس مضمون کے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔
’’بارہادیکھاگیا کہ بٹن اپناکاج چھوڑکردوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ
صدری کے بٹن کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ417روایت نمبر447طبع چہارم)
’’بعض اوقات زیادہ سردی میں دوجرابیں اوپرتلے چڑھالیتے ۔مگربارہاجراب اسطرح
پہن لیتے کہ وہ پیر پرٹھیک نہ چڑھتی کبھی توسراآگے لٹکتارہتااورکبھی جراب
کی ایڑی کی جگہ پیرکی پشت پرآجاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری اُلٹی۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ418روایت نمبر 447طبع چہارم)
’’کپڑوں کی احتیاط کایہ عالم تھا کہ کوٹ‘صدری‘ٹوپی‘عمامہ رات کواتارکرتکیہ
کے نیچے ہی رکھ لیتے اوررات بھرتمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اورمیل سے
بچانے کوالگ جگہ کھونٹی پرٹانک دیتے ہیں۔وہ بسترپرسراورجسم کے نیچے ملے
جاتے اورصبح کوان کی ایسی حالت ہوجاتی کہ اگرکوئی فیشن کادلدادہ اورسلوٹ
کادشمن ان کودیکھ لے توسرپیٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی
تھیں یہ یاتورومال میں یااکثر ازاربند میں باندھ کررکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ419روایت نمبر 447طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزابشیراحمد ایک اور مقام پررقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
کے پاجاموں میں میں نے اکثرریشمی ازاربندپڑاہوادیکھا ہے اور ازاربندمیں
کنجیوں کا گچھا بندھاہوتاتھا۔ریشمی ازاربندکے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے
کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اورجلدی جلدی آتاہے توایسے ازاربندکے کھولنے میں بہت
آسانی ہوتی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ614روایت نمبر652طبع چہارم)
’’خاکسارعرض کرتاہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جوبڑے سائزکا
ململ کابناہواہوتاتھاباندھ لیاکرتے تھے اوررومال کادوسراکنارہ واسکٹ کے
ساتھ سلوالیتے تھے یاکاج میں بندھوالیتے تھے ۔اورچابیاں ازاربندسے باندھتے
تھے جوبوجھ سے بعض اوقات لٹک آتاتھا ۔اوروالدہ صاحبہ بیان فرتی ہیں کہ حضرت
مسیح موعودعموماًریشمی ازاربنداستعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کوپیشاب جلدی
جلدی آتاتھااس لیے ریشمی ازاربندرکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ
بھی پڑجاوے توکھولنے میں دقت نہ ہو۔سوتی ازاربندمیں آپ سے بعض دفعہ گرہ
پڑجاتی تھی توآپ کوبڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ49روایت نمبر65طبع چہارم)
’’بیان کیامجھ سے والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔کھانا کھاتے
ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑدیتے
تھے ۔کھانے کے بعدآپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ45روایت نمبر56طبع چہارم)
محترم قارئین !یہ توتھے مرزاقادیانی کے کھانے اورلباس پہننے کے انداز
واطوار اب اس کی زندگی کے مذیدنادر نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ
معراجدین عمرقادیانی رقمطرازہے کہ
’’آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈالدی۔ آپ جب
لیٹتے تووہ اینٹ چبھتی کئی دن ایساہوتارہا۔ایک دن کہنے لگے کہ میری پسلی
میں درد ہے۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ کوئی چیزچبھتی ہے۔وہ حیران ہوااورآپ کے جسد
مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگااس کاہاتھ اینٹ پرجالگا۔جھٹ جیب سے نکال لی ۔دیکھ
کرمسکرائے اور فرمایاکہ چندروزہوئے محمودنے میری جیب میں ڈالی تھی
اورکہاتھاکہ اسے نکالنانہیں میں اس سے کھیلوں گا۔‘‘
(مسیح موعودکے مختصرحالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ53طبع چہارم مرتبہ
معراجدین عمرقادیانی)
’’آپ کوشیرینی سے بہت پیارتھااورمرض بول بھی عرصہ سے آپ کولگی ہوئی تھی ۔
اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے۔اوراسیجیب میں
گڑکے ڈھیلے بھی رکھ لیاکرتے تھے۔‘‘
(مسیح موعودکے مختصرحالات ملحقہ براہین احمدیہ صفحہ 67 طبع چہارم مرتبہ
معراجدین عمرقادیانی)
مرزا قادیانی کاکلمہ:۔
مرزابشیراحمدرقمطرازہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح اوّل
فرمایاکرتے تھے کہ ہرنبی کاایک کلمہ ہوتاہے۔مرزاکاکلمہ یہ ہے
’’میں دین کودنیاپرمقدم رکھوں گا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ824روایت نمبر974طبع چہارم)
تیمم:۔
مرزابشیراحمداپنی کتاب سیرت المہدی میں لکھتا ہے کہ
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
کواگرتیمم کرناہوتاتوبسااوقات تکیہ یالحاف پرہی ہاتھ مارکرتیمم کرلیاکرتے
تھے ۔
خاکسارعرض کرتاہے کہ تکیہ یالحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے
کافی ہوتی ہے ۔لیکن اگرکوئی تکیہ یالحاف بالکل نیاہو اوراس میں کوئی گردنہ
ہوتوپزراس سے تیمم جائز ہوگا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ774‘775روایت نمبر878طبع چہارم)
نماز میں فارسی نظم:۔
’’ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد
مبارک میں مغرب کی نمازپیرسراج الحق صاحب نے پڑھائی ۔حضورعلیہ السلام بھی
اس نماز میں شامل تھے۔تیسری رکعت میں رکوع کے بعدانہوں نے بجائے مشہوردعاؤں
کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔جس کایہ مصرع ہے
’’اے خدا!اے چارۂ آزارِما‘‘
خاکسارعرض کرتاہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جوروحانیت
سے پرہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ644روایت نمبر707طبع چہارم)
قادیانی خشوع وخضوع:۔
محترم قارئین! قادیانی سلطان القلم سورہ المؤمنون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے
کس طرح بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔ملاحظہ کریں
’’یاد رکھنا چاہیے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع
میسر آتی ہے اوروجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے یہ اس
بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر
نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تواس سے یہ
نہیں سمجھا جاتا کہ اس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے، بلکہ تعلق کے لیے
علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق وشوق جس کو دوسرے لفظوں
میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اسی حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورت انزال
پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گرجاتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 192 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ
192)
’’جیسا کہ نطفہ کبھی حرام کاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا
ہے تواس سے بھی وہی لذت ، نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی
بیوی کے ساتھ ۔ایساہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالت
ذوق و شوق ، رنڈی بازوں سے مشابہ ہے۔ یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور ان
لوگوں کو جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یا دکرتے ہیں اس
نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث
لذت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف
حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق بھی ہو گیا
ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جوا س روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر
کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام
نہانی میں داخل ہو جائے اوراس کو اس فعل سے کمال لذت حاصل ہوتویہ لذت اس
بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے۔پس ایسا خشوع اور سوزوگداز
کی حالت گو وہ کیسی ہی لذت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لیے
لازمی علامت نہیں ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 193 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 193)
’’ اور پھرایک مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا
نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تواس نطفہ کا اندام
نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ
رونے کی صورت پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا
ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت
کمال خشوع کے وقت رونے سے ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اچھلتا ہے اور جیسی
انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا
ہے ۔ یہی صورت خشوع اور سوزوگداز اور گریہ زاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور
سوز وگداز محض خدائے واحد ولاشریک کے لیے ہوتا ہے، جس کے ساتھ کسی بدعت اور
شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ یہی وہ لذت سوزوگداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر
کبھی خشوع اور سوزوگداز اوراس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش
اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے۔ مگر وہ حرام کاری میں
جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ،حصہ پنجم صفحہ 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ
196)
-4لیلۃ القدر:۔
محترم قارئین ! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِO وَمَآ اَدْرٰکَ مَا
لَیْلَۃُ الْقَدْرِO لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ﴾
ترجمہ: ہم نے اس (قرآن مجید)کو شب قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ
شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
(سورۃ القدر آیت3-1)
محترم قارئین! شب قدر کے حوالہ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اور ان راتوں میں
نبی کریم علیہ السلام نے یہ دعا بہ کثرت پڑھنے کی ترغیب دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
یعنی اے اﷲ ! بے شک تو معافی کو پسند کرتا ہے، پس تو مجھے معاف کر دے۔
مرزا قادیانی اس اسلامی عقیدے کی نفی کرتے ہوئے لیلۃ القدر کا ایک نیا
مفہوم ایجاد کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ
جاتی ہے۔ اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس
ظلمت کو دور کر ے ۔ اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا
ہے۔ مگر درحقیقت یہ ایک رات نہیں ہے ،یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا
ہم رنگ ہے ۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 32مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 32)
قادیانی عقیدہ تثلیث:۔
مرزا قادیانی اپنے عقیدہ تثلیث کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح ابن
مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی
خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے
سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے ۔ نیچے کی طرف سے
مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خوار خلق اﷲ ہے جو داعی الی اﷲ کے نفس
پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سرسبزشاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد
وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں
باارادہ الٰہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر
ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت ندا اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں، اور
ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الٰہی محبت کے چمکنے والی
آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ،ایک تیسری چیز پیدا ہو
جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے ۔ سو اس درجہ کے انسان کی روحانی پیدائش اس
وقت سمجھی جاتی ہے جب کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ خاص سے اس میں اس طور کی
محبت پیدا کر دیتا ہے اور اس مقام اور اس مرتبہ کی محبت میں بطور استعارہ
یہ کہنا بجا نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے بھری ہوئی روح اس انسانی روح
کو جو بارادہ الٰہی اب محبت سے بھرگئی ہے ، ایک نیا تولد بخشتی ہے۔ اسی وجہ
سے اس محبت کی بھری ہوئی روح کو خدا تعالیٰ کی روح سے جو نافخ المحبت سے
استعارہ کے طور پر ابنیت کا علاقہ ہوتا ہے اور چوں کہ روح القدس ان دونوں
کے ملنے سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان
دونوں کے لیے بطور ابن ہے اور یہی پاک تثلیث ہے جو اس درجہ محبت کے لیے
ضروری ہے جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طو رپر سمجھ لیا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 14-13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 61‘62از مرزا
قادیانی)
قادیانی الہامی حمل:۔
محترم قارئین ! اگر مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی تحریروں کو ملاحظہ کریں
تو انسان اس شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی مرد تھایا عورت یا
پھر اس کا تعلق مخنثوں سے تھا۔ آئیے ذرا اس حوالے سے مرزا قادیانی اوراس کی
ذریت کی عجیب و غریب تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ مرزا قادیانی رقم
طراز ہے کہ
’’درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں
جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو ناقابل بیان ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 81)
مرزا قادیانی کا مرید خاص قاضی یا رمحمد قادیانی اپنی کتاب ’’اسلامی قربانی
ٹریکٹ نمبر34 پر اس تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے
کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اﷲ تعالیٰ
نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی
ہے۔‘‘
(اسلامی قربانی صفحہ 12از قاضی یار محمد قادیانی)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی ایک اورمقام پر رقم طراز ہے کہ:
’’اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرانام مریم رکھا ہے، پھر جیسا کہ
براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دوبرس تک صفت مریمیت میں ،میں نے پرورش پائی اور
پردہ میں نشوونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین
احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں
نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی
مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جوسب سے آخر
براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص 556میں درج ہے:
’’مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا ، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 50)
محترم قارئین ! جب مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو الہامی طور پر عورت کے روپ
میں پیش کیا تو بعض لوگوں نے مرزا قادیانی پر یہ اعتراض کیا کہ کیا تمھیں
حیض بھی آتا ہے تو ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی رقم
طراز ہے کہ :
’’اسی طرح میری کتاب اربعین نمبر4صفحہ 19میں بابوالٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ
الہام ہے ،یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی
اور ناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو
متواتر ہوں گے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے۔ ایسا بچہ جو
بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 143، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 581)
محترم قارئین!مذیدقابلِ غوربات یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے حمل کی مدت دس
ماہ بیان کی ہے جبکہ طبی نقطہ نظرسے دیکھاجائے توپتہ چلتا ہے کہ عورت کی
مدت حمل زیادہ سے زیادہ نوماہ ہوتی ہے جبکہ بھینس کی مدت حمل دس ماہ ہوتی
ہے اب قادیانیوں کواپنے خودساختہ نبی کی جنس کے بارے میں بھی غور کرنا
ہوگاکہ وہ مرد تھا یا کہ عورت ‘انسان تھا یاکہ حیوان؟
مذیدملاحظہ فرمائیے کہ مرزاقادیانی الہامی حمل کے ساتھ ساتھ کس طرح دردزِہ
کا تذکرہ کرتاہے چنانچہ مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ
’’خدانے مجھے پہلے مریم کاخطاب دیااورپھرنفخ روح کاالہام کیا۔پھر بعداس کے
یہ الہام ہواتھا۔فاجاء ھاالمخاض الٰی جزع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل
ھذاوکنت نسیامنسیّا۔یعنی پھرمریم کو جومراداس عاجزسے ہے دردزِہ تنہ کھجورکی
طرف لے آئی۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ51)
مرشداور مرید کا تعلق:۔
مرشد اورمریدکے درمیان تعلق کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’ایساہی قرآن کریم اورحدیث شریف سے معلوم ہوتاہے کہ مرشدکے ساتھ
مریدکاتعلق ایسا ہوناچاہیے‘جیساعورت کاتعلق مردسے ہو۔‘‘
کیاکوئی قادیانی بتاسکتاہے کہ قرآن مقدس میں کونسی آیت مبارکہ میں اس تعلق
کی تفصیل موجود ہے۔ نیزمرشداورمرید میں سے مرد کاکردار کون اداکرے
گااورعورت کاکون؟
دن میں سو مرتبہ پیشاب:۔
قارئین محترم!مرزاقادیانی ساری زندگی مختلف بیماریوں میں مبتلارہا۔انہی
بیماریوں میں سے ایک بیماری دن میں سو مرتبہ پیشاب کرنا بھی تھی جس کاتذکرہ
کرتے ہوئے مرزاقادیانی خودرقمطرازہے کہ
’’مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔پندرہ بیس مرتبہ روزپیشاب آتاہے
۔اوربعض وقت سوسودفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیاہے۔اوربوجہ اس کے کہ پیشاب
میں شکرہے‘کبھی کبھی خارش کاعارضہ بھی ہوجاتاہے اورکثرت پیشاب سے بہت ضعف
تک نوبت پہنچتی ہے۔ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس کے لیے
افیون مفیدہوتی ہے ۔پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کردی جائے
۔میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر
میں ذیابیطس کے لیے افیون کھانے کی عادت کرلوں تومیں ڈرتاہوں کہ لوگ
ٹھٹھاکرکے یہ نہ کہیں کہ پہلامسیح توشرابی تھااوردوسراافیونی۔‘‘
(نسیم دعوت صفحہ74‘75مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ434‘435)
س
تحریر:عبیداﷲ لطیف چک نمبر 36گ ب ستیانہ بنگلہ ضلع فیصل آباد پاکستان
Email # [email protected] cell#0322-6265209,0304-6265209
مرزا غلام احمدقادیانی کاعقیدہ وفقہی مسئلک‘ایک اشکال کاازالہ
بعض لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو اہلحدیث ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے
ہیں اوراس کی آڑمیں مسئلک اہلحدیث اور اکابراہلحدیث پرطعن وتشنیع کرتے ہوئے
عوام کومسلک اہلحدیث سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بات قابل
گرفت نہیں ہوسکتی کہ ارتدادسے قبل مرتد ہونے والے شخص کاعقیدہ و مسئلک
کیاتھا؟
اگرہم اس بات کوقابلِ گرفت ٹھہرائیں تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ طلٰیحہ اسدی
جس نے نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ہی اسلام قبول
کیاتھا وفات النبی ﷺ کے بعددعویٰ نبوت کرکے مرتد ہوگیا اور بعدازاں صدیق
اکبر ؓ کے دور خلافت کے آخر میں دوبارہ مسلمان ہوگیا تھا توکیا جب وہ مرتد
ہوا تو اس کے مرتد ہونے سے پہلے کے افکار ونظریات کوموردالزام ٹھہراسکیں گے
؟یقینًانہیں۔
لیکن یہاں پرتو گنگاہی الٹی بہہ رہی ہے کہ اصل حقائق کومسنح کرتے ہوئے
معروف حنفی عالم ابوالقاسم رفیق دلاوری اپنی کتاب رئیس قادیان میں رقمطراز
ہے کہ
’’ارتداد سے پہلے مرزا صاحب اور حکیم نورالدین صاحب دونوں اہلحدیث تھے اور
چونکہ اس وقت تک ان کے مذہبی رویہ میں اسلام کی کچھ نہ کچھ رمق باقی تھی اس
لیے یہ خود بھی اب تک اہلحدیث کہلاتے تھے۔‘‘
(رئیس قادیان صفحہ271،طبع چہارم 2007ء)
محترم قارئن !اﷲ رب العزت نے قرآن مقد س میں فرمایا ہے کہ
یٰاَ یُّہَاالَّذِےْنَ اَمَنُوْااِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ
فَتَبَیَّنُوْااَن تُصِیْبُوْاقَوْماً بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا
فَعَلْتُمْ نٰدِمِےْنَ٭
یعنی اے ایمان کا دعوی کرنے والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے
تو تم تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسانہ ہوکہ تمہاری لاعلمی کی وجہ سے کسی قوم
کوتکلیف پہنچے اور تمہیں نادم ہونا پڑے ۔
( سور ۃ الحجرات آیت نمبر6)
یعنی کسی بھی خبر اور معاملے کو بغیر تحقیق کے تسلیم نہیں کرنا چاہئے اسی
اصول کومد نظر رکھتے ہوئے اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد
قادیانی کا عقیدہ اور فقہی مسئلک کیا تھا ۔ مرزا قادیا نی اپنے فقہی مسئلک
کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’اگرحدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور سنت میں اورنہ قرآن میں مل سکے توفقہ
حنفی پرعمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خداکے ارادہ پردلالت کرتی ہے۔‘‘
(ریوبوبر مباحثہ چکڑالوی وبٹالوی صفحہ7مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ212)
مرزا بشیراحمد اپنے باپ مرزا قادیانی کا مؤقف واضح کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’خاکسارعرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو
عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کوخصوصیت کے ساتھ علم ومعرفت
میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ334روایت نمبر360طبع چہارم)
مذید اسی رویت میں مرزابشیراحمدلکھتا ہے کہ
’’مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اورالگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب
وہ آپ سے ملاتو باتو ں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہاکہ میں حنفی ہوں اور
تقلیدکو اچھا سمجھتاہوں وغیرذالک آپ نے اس سے فر مایاکہ ہم کوئی حنفیوں کے
خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے کااظہار کرتے ہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ334روایت نمبر360طبع چہارم)
مرزا غلام احمد قادیانی امام ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کے بارے میں اپنا موقف
بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’بعض آئمہ نے احادیث کی طرف توجہ کم کی ہے جیسا کہ امام اعظم کوفی رضی اﷲ
عنہ جن کو اصحاب الّر ائے میں سے خیال کیا گیا اور ان کے مجتہدات کو بواسطہ
وقت معانی احادیث صحیحہ کے بر خلاف سمجھا گیا ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ
امام صاحب موصوف اپنیقوت اجتہادی اور اپنے علم روایت اور فہم وفراست میں
آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی
بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی
قوت مدر کہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت
کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے
تھے اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں ان کے لیے وہ درجہ علیھامسلم تھا جس تک
پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ530‘531’ندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ385)
محترم قارئین !مرزاقادیانی وہابیوں کے خلاف اپنامذہب بیان کرتے ہوئے
لکھتاہے کہ
’’ہمارامذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلیدایک اباحت ہے کیونکہ
ہرایک شخص مجتہد نہیں ہے ذراساعلم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں
ہوجاتا۔ کیاوہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری
سے آزادہوجائے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہراورپاک لوگوں کے کسی پرنہیں
کھولے جاتے۔ہمارے ہاں جوآتاہے اسے پہلے ایک حنفیت کارنگ چڑھاناپڑتاہے۔میرے
خیال میں یہ چاروں مذہب اﷲ تعالیٰ کافضل اوراسلام کے واسطے ایک چاردیواری
ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیداکیے جونہایت
متقی اورصاحبِ تزکیہ تھے۔آج کل کے لوگ جوبگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ
اماموں کی متابعت چھوڑدی گئی ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ534طبع چہارم)
محترم قارئین!یہ توتھے مرزاقادیانی کے حنفی مذہب اورفقہ حنفی کے حق میں
دلائل اوراب مرزاقادیانی کا اہلحدیث اوروہابیوں کے بارے میں بھی مؤقف
ملاحظہ کرلیں۔
مرزاقادیانی کااہلحدیثوں(وہابیوں)کے بارے میں مؤقف:۔
وہی مرزاقادیانی جونہ صرف تقلیدشخصی کاقائل رہابلکہ اپنے آپ کو حنفی کہلانے
کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتارہاکہ وہ حنفیوں کے خلاف نہیں ہے اور یہ بھی اعلان
کرتارہاکہ’’ جوشخص قادیانی ہوناچاہتاہے اس پرپہلے حنفیت کارنگ
چڑھاناپڑتاہے۔‘‘وہی مرزاقادیانی اہلحدیث کے بارے میں لکھتاہے کہ
’’جب تک وہابی آنحضرت ﷺکی عظمت نہیں سمجھتاوہ بھی خداسے دورہے انہوں نے بھی
دین کوخراب کردیاہے۔جب کسی نبی یاولی کاذکرآجائے توچلااٹھتے ہیں کہ ان کوہم
پرکیافضیلت ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ160طبع چہارم)
’’وہابیوں میں تیزی اورچالاکی ہوتی ہے خاکساری اورانکساری توان کے نصیب میں
نہیں ہوتی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ161طبع چہارم)
’’میرادل ان لوگوں سے کبھی راضی نہیں ہوااورمجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی
کہ مجھے وہابی کہاجائے اورمیرانام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ515طبع چہارم)
’’ مشرک بھی سچی محبت آنحضرتﷺسے نہیں رکھ سکتا اورایساہی وہابی بھی نہیں
کرسکتا یہ مسلمانوں کے آریہ ہیں ان میں روحانیت نہیں ہے خداتعالیٰ اوراس کے
سچے رسول سے محبت نہیں ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3حاشیہ صفحہ161طبع چہارم)
مذید مرزاقادیانی اپنی کتاب کشتی نوح میں رقمطرازہے کہ
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودی اگرچہ بہت فرقے تھے مگرجوحق
پرسمجھے جاتے تھے وہ دوفرقے ہوگئے تھے (۱)ایک وہ جوتوریت کے پابندتھے اسی
سے اجتہاد کے طورپرمسائل استنباط کرتے تھے (۲)دوسرافرقہ جوتوریت پراحادیث
کو قاضی سمجھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پس اس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
پیداہوئے اوران کے مخاطب خاص طورپر اہلحدیث ہی تھے جوتوریت سے زیادہ حدیثوں
کی عزت کرتے تھے اورنبیوں کے نوشتوں میں خبردی گئی تھی کہ جب یہودکئی فرقوں
میں منقسم ہوجائیں اورخداکی کتابکوچھوڑکراس کے برخلاف حدیثوں پرعمل کریں گے
تب ان کوایک حکم عدل دیاجائے گا جو مسیح کہلائے گا اوراس کووہ قبول نہ کریں
گے آخرسخت عذاب ان پرنازل ہوگااوروہ طاعون کاعذاب ہوگا۔‘‘
(کشتی نوح حاشیہ صفحہ50‘51مندرجہ روحانی خزائن جلد 19حاشیہ صفحہ53‘54)
’’جس طرح یہودیوں کے علماء نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)پرفتویٰ
تکفیرکالگایااور ایک شریر فاضل یہودی نے وہ استفتاء طیارکیااوردوسرے فاضلوں
نے اس پرفتویٰ دیایہاں تک کہ بیت المقدس کے صدہاعالم فاضل جواکثراہلحدیث
تھے۔انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگادیں یہی معاملہ مجھ سے
ہوااورپھرجیساکہ اس تکفیرکے بعدجوحضرت عیسیٰ کی نسبت کی گئی تھی ان کوبہت
ستایاگیاسخت سخت گالیاں دی گئی تھیں ہجواوربدگوئی میں کتابیں لکھی گئی تھیں
یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویااٹھارہ سوبرس کے بعدوہی عیسیٰ پھرپیداہوگیا
اوروہی یہودی پھرپیداہوگئے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ50مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ53‘54)
حنفی اوراہلحدیث کے اختلافی مسائل میں مرزاقایانی کامؤقف:۔
احناف اور اہل حدیث میں جوبنیادی اختلافی مسائل (آمین بالجھر‘رفع ا لیدین
وغیرہ) ہیں ان میں بھی مرزاقادیانی نے عملی طورپراپنے آپ کوحنفی ہی
ظاہرکیاہے۔
مرزاقادیانی کے بیٹے مرزابشیراحمدنے اپنی کتاب سیرت المہدی میں پنڈت دیوی
رام ولد متھراداس کاایک ایسا حلفیہ بیان درج کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ
مرزاقادیانی حنفی المذہب تھا چنانچہ وہ حلفیہ بیان ملاحظہ کریں:
٭ ’’میں 21جنوری1875ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیاتھا میں وہاں چارسال
رہا میں مرزا غلام احمد کے پاس اکثر جایا کرتاتھا اور میزان طب آپ سے پڑھا
کرتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ عرصہ کے بعد میرناصر نواب صاحب جوکہ محکمہ نہرمیں ملازم
تھے ان کا ہیڈ کوارٹر بھی خاص قادیاں میں تھا اور وہابی مذہب کے تھے مرزا
صاحب اہل سنت والجماعت (حنفی) کے تھے کبھی کبھی دونوں کواکٹھے نماز پڑھنے
کا موقعہ ملتا تواکثر اپنے اپنیمذہب کے متعلق بحث ومباحثہ کیاکرتے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ688روایت نمبر759)
اس حلفیہ بیان میں مذیدلکھاہے کہ
’’میرناصر نواب کے ساتھ میرے روبرو رفع الیدین ۔آمین بالجھر،ہاتھ باندھنے
کے متعلق ،تکبیر پڑھنے کے متعلق بحث ہوتی کہ آیا یہ امورجائز ہیں
یاناجائز۔ان ایام میں آپ کے دوست کشن سنگھ کنگھی گھاڑا۔شرم پت اورملاوامل
تھے۔اوریہ لوگ مرزاصاحب کے پاس کبھی کبھی آتے تھے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ693روایت نمبر759)
٭ ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلد
تھا اور رفع الیدین اورآمین بالجھر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی
ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا عرصہ کے بعد ایک دفعہ
جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر
فرمایا میاں عبداﷲ اب تواس سنت پربہت عمل ہوچکا ہے اور اشارہ رفع الیدین کی
طرف تھا۔میاں عبداﷲ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک
کردیا بلکہ آمین بالجھر کہنا بھی چھوڑ دیااور میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے
ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کوکبھی رفع الیدین کرتے یا آمین بالجھر کہتے نہیں
سنا اور نہ کبھی بسم اﷲ بالجھرپڑھتے سنا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ147روایت نمبر154طبع چہارم)
٭ ’’ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ
میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی
نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کوکانوں تک پہنچاتے تھے
یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ744‘745روایت نمبر823طبع چہارم)
٭ ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کوکبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھامصافحہ کیاکرتے
تھے اور حضرت صاحبکے مصافحہ کرنے کاطریقہ ایسا تھا جوعام طور پر رائج ہے
اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ718روایت نمبر772 طبع چہارم)
٭ ’’خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیاکہ میرے
والد میاں میاں حبیب اﷲ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت
مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کاموقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی
ہونے سے قبل وہابی تھا میں نے اپناپاؤں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
پاؤں کیساتھ ملانا چاہا مگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا
تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سرکا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور
آئندہ کیلئے اس طریق سے باز آگیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول صفحہ313روایت نمبر344طبع چہارم)
اس روایت کے آخر میں مرزا بشیر احمد رقمطراز ہے کہ
’’مگر اس (پاؤں سے پاؤں ملانے )پراہلحدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر
مبالغہ سے کام لیاہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی ۔اب گویا ایک
اہلحدیث کی نماز ہوہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے
کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرلے
حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا
موجب ہوتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ314روایت نمبر344 طبع چہارم)
٭ ’’ ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے
اور شادی بیاہ وغیرہ کی جورسوم رائج ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو
اہلحدیث کی طرح کلی طور پر ردنہیں کردیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے
جومشرکا نہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی تو جیہہ فوائد کی
نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس اس فائدہ یا ضرورت کیلئے یہ رسم
ایجاد ہوئی ہے مثلاً نیوتہ (جسے پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں)امداد باہمی
کے لیے شروع ہوا ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ744روایت نمبر822 طبع چہارم)
٭ ’’مولوی شیرعلی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔یہ
بھی فرماتے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ جوشخص سورۃ الفاتحہ نہیں
پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اﷲ ایسے گزرے
ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں
کوضائع شدہ نہیں سمجھتا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل334‘335روایت نمبر361طبع چہارم)
٭ ’’حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے
دریافت کیایہ جوحدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کوہاتھ لگائے
تو وضوٹوٹ جاتاہے یہ کیامسئلہ ہے ؟آپ نے فرمایا کہ شرم گاہ تو جسم ہی کا
ایک ٹکڑا ہے اس لیے یہ حدیث قوی معلوم نہیں ہوتی ۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ320روایت نمبر352طبع چہارم)
مرزا قادیانی خود رقمطراز ہے کہ
٭ ’’اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا ہے خواہ کوئی کرے یانہ کرے احادیث
میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے
بھی یہی نتیجہ نکلتاہے کیونکہ ایک تو رفع الیدین کرتے ہیں اور ایک نہیں
کرتے معلوم ہوتاہے کہ رسول اﷲﷺ نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعدازاں ترک
کردیا۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ193طبع چہارم)
٭ ’’اکیلا ایک وترکہیں سے ثابت نہیں ہوتا وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ193طبع چہارم)
٭ ’’اکیلا وتر ہم نے کہیں نہیں دیکھا وترتین ہیں خواہ دورکعت پڑھ کرسلام
پھیر کرتیسری رکعت پڑھ لوخواہ تینوں ایک ہی سلام سے آخر میں التحیات بیٹھ
کر پڑھ لو ایک وتر تو ٹھیک نہیں ۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ213طبع چہارم)
بریلوی ‘ اہلحدیث اختلافی مسائل میں مرزا قادیانی کا مؤقف :۔
1۔ حیات النبی واولیائے کرام:۔
حیات النبی ﷺ کے بارے میں مرزا قادیانی بریلوی مسئلک کی تائید کرتے ہوئے
رقمطراز ہے کہ
٭ ’’نجات یافتہ کون ہے ؟وہ جویقین رکھتاہے جوخداسچ ہے اورمحمدﷺ اس میں اور
تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اورآسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی
اورکتاب ہے اورکسی کے لیے خدانے نہ چاہاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگریہ برگزیدہ
نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ13مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ14)
٭ ’’(فوت شدہ انبیاء کرام)بیداری میں پاک دل لوگوں سے کبھی کبھی زمین پرآ
کرملاقات بھی کرلیتے ہیں ہمارے نبیﷺکااکثراولیاء سے عین بیداری کی حالت میں
ملاقات کرناکتابوں میں بھراپڑاہے اورمؤلف رسالہ ھٰذا (مرزاقادیانی)بھی کئی
دفعہ اس شرف سے مشرف ہو چکاہے۔ والحمدﷲ ذالک۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ126مندرجہ روحانی خزائن جلد3حاشیہ صفحہ226)
٭ ’’اصل بات یہ ہے کہ مقدس اورراستبازلوگ مرنے کے بعدزندہ ہوجایاکرتے ہیں
اوراکثرصاف باطن اورپرمحبت لوگوں کوعالمِ کشف میں جو بعینہ عالم بیداری ہے
نظرآ جایا کرتے ہیں چنانچہ اس بارہ میں خودیہ عاجز صاحب ِ تجربہ ہے
بارہاعالم بیداری میں بعض مقدس لوگ نظرآتے ہیں اور بعض مراتب کشف کے ایسے
ہیں کہ میں کسی طورکہہ نہیں سکتاکہ ان میں کوئی حصہ غنودگی یاخواب یاغفلت
کاہے بلکہ پورے طورپربیداری ہوتی ہے اور بیداری میں گذشتہ لوگوں سے ملاقات
ہوتی ہے اورباتیں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ254مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ354)
٭ ’’میں کئی بارلکھ چکاہوں اورپھربھی لکھتاہوں کہ اہل کشف کے نزدیک یہ بات
ثابت شدہ ہے کہ مقدس اورراستباز لوگ مرنے کے بعدپھر زندہ ہوجایاکرتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ255مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ355)
٭ ’’چنانچہ خداتعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ موت کے بعدمیں پھر تجھے حیات
بخشوں گااورفرمایاکہ جولوگ خداتعالیٰ کے مقرب ہیں وہ مرنے کے بعد پھرزندہ
ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘
(فتح اسلام حاشیہ صفحہ16مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ16)
٭ انہی تحریروں میں بیان کیے گئے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے مرزابشیر
احمداپنی کتاب سیرت المہدی کی ایک روایت میں لکھتاہے کہ
’’ہوشیارپورسے پانچ چھ میل کے فاصلہ پرایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ
سا لگاہواتھا وہاں پہنچ کر حضور(مرزاقادیانی)تھوڑی دیرکے لیے بہلی سے
اترآئے اورفرمایا یہ عمدہ سایہ دارجگہ ہے یہاں تھوڑی دیرٹھہرجاتے ہیں اس کے
بعد حضور قبرکی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا اور شیخ
حامدعلی اور فتح خاں بہلی کے پاس رہے آپ مقبرہ پرپہنچ کراس کادروازہ کھول
کراندرگئے اورقبر کے سرہانے کھڑے ہوکردعاکے لیے ہاتھ اٹھائے اورتھوڑی دیر
تک دعافرماتے رہے پھرواپس آئے اورمجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا’’جب میں نے
دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے توجس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبرسے نکل کردوزانو
ہوکرمیرے سامنے بیٹھ گئے اوراگرآپ ساتھ نہ ہوتے تومیں ا ن سے باتیں بھی
کرلیتاان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اوررنگ سانولا ہے ۔‘‘ پھرکہادیکھو اگر
یہاں کوئی مجاورہے تواس سے ان کے حالات پوچھیں چنانچہ حضور نے مجاور سے
دریافت کیا اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات
کوقریبًا ایک سوسال گزرگیا ہے ہاں اپنے باپ دادا سے سناہے کہ یہ اس علاقہ
کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کابہت اثر تھا حضور(مرزاقادیانی)نے
پوچھا ان کاحلیہ کیاتھا؟ وہ کہنے لگا کہ سناہے سانولا رنگ تھا اورموٹی موٹی
آنکھیں تھیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ64‘65روایت نمبر88طبع چہارم)
بذریعہ کشف آنحضرتﷺسے احکامات پوچھنا:۔
٭ آنجہانی مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرتﷺسے احکام پوچھتے ہیں اوران میں سے جب کسی کو
کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تووہ آنحضرت ﷺکی زیارت سے مشرف
ہوجاتاہے پھرجبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اورآنحضرت جبرائیل سے وہ
مسئلہ جس کی ولی کوحاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کوبتادیتے ہیں یعنی ظلی
طورپر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہوجاتا ہے ‘پھرشیخ ابنِ عربی نے
فرمایاہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت ﷺسے احادیث کی تصیح کرالیتے ہیں بہتیری
حدیثیں ایسی ہیں جومحدثین کے نزدیک صحیح ہیں اوروہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں
اوربہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرتﷺکے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہوجاتی
ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ77‘78مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ177‘178)
٭ ایک اورمقام پر مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امرخداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر
کیاجاتا ہے مثلاًکسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق توگوعلمائے ظواہر
اورمحدثین اس کوموضوع یامجروح ٹھہراویں مگرمیں اس کے مقابل اور معارض کی
حدیث کوموضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پرظاہر کردی ہے جیسے
لَامَہْدِیْ اِلَّا عِےْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگرمجھ
پرخداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوریہ میرا مذہب میراہی
ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یااہلِ الہام
لوگ محدثین کی تنقیدحدیث کے محتاج اورپابندنہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ45طبع چہارم)
صلی اﷲ علیک یارسول اﷲ پڑھنااوریارسول اﷲ مدد کہنا :۔
محترم قارئین !مرزاقادیانی اوراس کی ذریت حنفی بریلوی اورحنفی دیوبندی میں
سے حیاتی گروہ کی طرح’’ صلی اﷲ علیک یارسول اﷲ پڑھنااوریارسول اﷲ مدد کہنا
‘‘جائزسمجھتاہیچنانچہ اسی بات کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیراحمد ابنِ
مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’خواجہ عبدالرحمان صاحب ساکن کشمیرنے بذریعہ تحریرمجھ سے بیان کیاکہ میرے
والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکرکیاکہ جب میں شروع شروع میں احمدی ہواتو قصبہ
شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہاکہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ
الصلوۃوالسلام سے ’’صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ وسلمک اللّٰہ یارسول
اللّٰہ‘‘ کے پڑھنے کے متعلق استفسارکروں یعنی آیایہ پڑھناجائز ہے یانہیں
سومیں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا ۔حضورنے
جواب تحریرفرمایاکہ یہ پڑھنا جائزہے۔
خاکسارعرض کرتاہے کہ اس استفسارکی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت
ﷺوفات پاچکے ہیں توکیا اس صورت میں بھی آپ کوایک زندہ شخص کی طرح مخاطب
کرکے دعادیناجائزہے۔سواگریہ روایت درست ہے توحضرت مسیح موعود کافتویٰ یہ ہے
کہ ایساکرناجائز ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپ ﷺکی
روحانیت زندہ ہے اورآپ اپنی امت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں اس لیے آپﷺکے لیے
خطاب کے رنگ میں دعا کرناجائز ہے ۔بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو
اپنے ایک شعرمیں آنحضرتﷺسے مخاطب ہوکرآپ سے مدداورنصرت بھی چاہی ہے چنانچہ
فرماتے ہیں:۔
’’اے سےّدالوریٰ!مددے وقتِ نصرت است‘‘
یعنی اے رسول اﷲﷺ!آپ کی امت پرایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے ۔ میری مددکوتشریف
لائیے کہ یہ نصرت کاوقت ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ553‘554روایت نمبر579طبع چہارم)
غوثیت اورقطبیت:۔
مرزاغلام احمدقادیانی متنبی رقمطرازہے کہ
’’میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں یہی وہ راہ ہے جس پر چل کرغوثیت اور قطبیت
ملتی ہے اوراﷲ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام ہوتے ہیں جولوگ مجھے قبول کرتے ہیں
ان کی دین ودنیا بھی اچھی ہوگی ۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ54طبع چہارم)
الشیخ جیلانی ؒکے بارے میں بریلوی عقائد اورمرزاقادیانی:۔
مرزاقادیانی الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاﷲ علیہ کے بارے میں بریلوی عقائد
کی متابعت میں اہلحدیثوں پر طنزکرتے ہوئے لکھتاہے کہ
’’(اہلحدیث)اولیاء کی کرامات سے منکرہوبیٹھے مگردجال کی کرامات کا کلمہ پڑھ
رہے ہیں اگرایک شخص انہیں کہے کہ سےّدعبدالقادرجیلانی قدس سرّہ نے بارہ برس
کے بعدکشتی غرق ہوئی زندہ آدمیوں سے بھری نکالی تھی اورایک دفعہ ملک الموت
کی ٹانگ توڑدی تھی اس غصہ سے کہ وہ بلااجازت آپ کے کسی مریدکی روح نکال
کرلے گیا تھاتوان کراماتوں کوہرگزقبول نہیں کریں گے بلکہ ایسی مناجاتوں
کوپڑھنے والوں کو مشرک بنائیں گے ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ230مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ215‘216)
مولودخوانی اورمرزاقادیانی:۔
مولودخوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’آنحضرت(ﷺ)کاتذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اوراولیاء
کی یادسے رحمت نازل ہوتی ہے اورخودخدانے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔آنحضرتﷺکی بعثت‘پیدائش اوروفات کاذکرہوتوموجب ثواب ہے۔۔۔۔بعض
ملاں اس میں غلو کرکے کہتے ہیں کہ مولودخوانی حرام ہے۔ اگر حرام ہے توپھرکس
کی پیروی کروگے ؟ کیونکہ جس کاذکرزیادہ ہواس سے محبت بڑھتی اورپیداہوتی
ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ160‘159طبع چہارم)
محترم قارئین!آپ نے مرزاقادیانی کے عقائداورنظریات ملاحظہ کرلیے اب اہل
حدیث کے بارے میں اس کاایک اور قول بھی ملاحظہ کریں ۔اسکی کتاب ملفوظاتمیں
لکھاہے کہ
’’یایحیٰ خذِالکتاب بقوۃوالخیر کلہ فی القرآن
اس میں ہم کو حضرت یحیٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحی کویہودکی ان
اقوام سے مقابلہ کرناپڑاتھا جوکتاب اﷲ توریت کوچھوڑے بیٹھے تھے اور حدیثوں
کے بہت گرویدہ ہورہے تھے اور ہربات میں احادیث کوپیش کرتے تھے ایساہی اس
زمانہ میں ہمارامقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہواکہ ہم قرآن پیش کرتے ہیں اوروہ
حدیث پیش کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ203طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزاقادیانی کے عقائد ونظریات پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اگر
مرزا قادیانی حنفی تھاتو اس نے بعض مسائل میں فقہ حنفی سے اختلاف کیوں کیا؟
اس اعتراض کا جواب قادیانیوں کی کتاب فقہ احمدیہ میں کچھ اس طرح موجودہے کہ
’’فقہ احمدیہ میں عام مدوّن فقہ حنفی سے بعض امورمیں اختلاف کیاگیاہے یہ
اختلاف فقہ حنفی کے اصولوں سے باہرنہیں۔پس جس طرح حضرت امام ابو حنیفہ سے
آپ کے شاگردوں مثلًا حضرت امام ابویوسف یاحضرت امام محمد کا اختلاف فقہ
حنفی کے دائرہ سے ان کو باہر نہیں لے جاتا اور ان کے اس اختلاف کوفقہ حنفی
کی مخالفت نہیں سمجھاجاتا اسی طرح فقہ احمدیہ کابعض امور میں اختلاف فقہ
حنفی کے مخالف قرار نہیں دیاجاسکتا خصوصًاجبکہ یہ اختلاف انہی اصولوں
پرمبنی ہے جنہیں فقہاء حنفی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ فقہ احمدیہ کے وہی مأخذ
ہیں جوفقہ حنفی کے ہیں۔‘‘
(فقہ احمدیہ مشتمل بَراحکامِ شخصیہ صفحہ15شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ)
محترم قارئین !مرزاقایانی کے حنفی المذہب ہونے کے بارے میں احناف کی اپنی
گھر کی گواہیاں ملاحظہ فرمایں۔
٭ بریلویوں کی مشہورومعروف شخصیت مولوی فیض احمدفیض مفتی اعظم گولڑہ شریف
اپنی کتا ب مہرمنیر میں رقمطراز ہے کہ
’’تحریک قادیانیت کے بانی کانام مرزاغلام احمدتھا وہ برٹش انڈیامیں صوبہ
پنجاب کے ضلع گورداسپور کے موضع قادیاں میں1839ء میں پیداہوئے ان کے
والدکانام غلام مرتضیٰ تھاجو سمرقندی مغل گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان
کاپیشہ طبابت اور زمیندارہ تھا مرزاغلام احمدعلوم مروجہ عربی فارسی اورطب
کی تحصیل سے فارغ ہوکر 1864ء میں ڈپٹی کمشنرسیالکوٹ کے دفتر میں بطور اہل
مدقریبًاچارسال ملازمت کرتے رہے بعدہ ملازمت چھوڑکراپنے والد محترم کاہاتھ
بٹاناشروع کردیا ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا اورمناظرات
وغیرہ میں حصہ لیتے رہے جہاں تک معلوم ہوسکاہے ان کے آباؤاجداد حنفی المذہب
مسلمان تھے اورمرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں انہی کے قدم بہ قدم چلتے
رہے۔‘‘
(مِہرمنیرصفحہ165ایڈیشن 2011)
یہ توتھامرزاقادیانی کاعقیدہ وفقہی مسئلک اب اسی ضمن میں مختصرتذکرہ حکیم
نورالدین کاجوکہ قادیانیوں کاخلیفہ اوّل اورمرزاقادیانی کادستِ راست بھی
تھا‘اس کے بارے میں مشہور حنفی عالم ابوالقاسم رفیق دلاوری اپنی کتاب رئیس
قادیاں میں رقمطرازہے کہ
’’حکیم نورالدین جومرزاصاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشین اوّل منتخب ہوئے
تھے قصبہ بھیرہ ضلع شاہپور(سرگودھا)کے رہنے والے تھے علوم عربیہ کی تحصیل
ریاست رامپور میں کی تھی وہاں سے فراغت پاکر لکھنؤگئے اورحکیم علی حسن کے
پاس رہ کر طب کی تکمیل کی کچھ عرصہ مکہ معظمہ میں مولانا رحمۃاﷲ علیہ
مہاجرمکی کی خدمت میں اورمدینہ منورہ میں مولاناشاہ عبدالغنی صاحب نقشبندی
مجددی رحمۃاﷲ علیہ کے پاس رہے۔
لیکن ایسے اکابر کی صحبت اٹھانے کے باوجود طبیعت آزادی کی طرف مائل تھی اس
لیے حنفیت پر قائم نہ رہے پہلے اہل حدیث بنے لیکن اس سے بھی جلد سیر ہوگئے۔
ان دنوں ہندوستان کی فضا نیچریت کے ہنگاموں سے گونج رہی تھی چاہاکہ اس گلشن
آزادی کی بھی ذراسیرکردیکھیں سرسیّداحمدخاں کی کتابوں اوررسالوں کامطالعہ
شروعکیایہ مسئلک پسندآگیااوراسی کی صف میں جلوہ گری شروع کردی ۔۔۔۔۔۔ جن
دنوں مرزالام احمدقادیانی سے حکیم نورالدین کی ملاقات ہوئی ان ایام میں
حکیم صاحب پکے نیچری تھے۔‘‘
(رئیسِ قادیاں صفحہ144‘145ازابوالقاسم رفیق دلاوری )
س
تحریر:عبیداﷲ لطیف چک نمبر 36گ ب ستیانہ بنگلہ ضلع فیصل آباد پاکستان
Email # [email protected] cell#0322-6265209,0304-6265209
پہلا فتویٰ تکفیر او ر مرزا قادیانی کا عبرت ناک انجام
محترم قارئین !مرزا قادیانی نے 1991ء میں ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ شائع
کیا جس میں اس نے اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا توا س سے اہل اسلام
میں ایک عام شور برپا ہو گیا۔ اس شور کو مٹانے اور اس دعویٰ کی توضیح کے
لیے اس نے ایک رسالہ ’’توضیح مرام ‘‘ مشتہر کیا تواس نے شور کی آگ کو اور
بھی تیز کر دیا اور خوب بڑھکایا کیوں کہ فتح اسلام میں تواس نے مسیح موعود
ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، توضیح مرام میں اپنے نبی ہونے کا بھی دعویٰ
کردیااور علاوہ برآں بہت سے ایسے عقائد کا اظہاربھی کیا جونہ صرف اسلامی
عقائدکے مکمل طورپر مخالف تھے بلکہ وہ عقائد نیچریہ ، فلاسفہ ، ہنود او ر
یہود و نصاریٰ کے عقائدکے عین مطابق و موافق بھی تھے۔
اس رسالہ کی اشاعت سے مرزا قادیانی کے خلاف نفرت بڑھی تواس کے ازالے کے لیے
اس نے ایک اور رسالہ ’’ازالہ اوہام‘‘ شائع کیاجس سے مرزا قادیانی کے مزید
کفریہ عقائد کھل کر سامنے آ گئے کیونکہ اس رسالہ میں مرزا قادیانی نے نہ
صرف معجزات انبیاء کا واضح انکار کیا بلکہ ملائکہ اور لیلۃ القدر کی بھی
عجیب و غریب تعریف بیان کی ۔ ایسے ہی کفریہ عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے سب
سے پہلے جماعت اہل حدیث کے سرخیل مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃاﷲ علیہ نے
ایک استفتاء تیار کیا جو انھوں نے اپنے استاد محترم سید نذیر حسین محدث
دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں پیش کیا توانھوں نے اس استفتاء کا تفصیلی
جواب دیتے ہوئے مرزاقادیانی اوراس کی ذریت کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج
قرار دیا۔ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی فتویٰ پر برصغیر
میں تمام مکاتب فکر کے دو سو سے زائد علما ء کے تائید ی دستخط کروا کر
مشتہر کیا ۔ یہی وہ فتویٰ تکفیر ہے جو سب سے پہلے مرزا قادیانی کے خلاف
شائع ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’نذیر حسین دہلوی نے تکفیر کی بنا ڈالی ، محمد حسین بٹالوی نے کفار مکہ کی
طرح یہ خدمت اپنے ذمہ لے کر تمام مشاہیر اور غیر مشاہیر سے کفر کے فتوے اس
پر لکھوائے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 73، مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ75)
مرزا قادیانی مزید وضاحت کے ساتھ تحفہ گولڑویہ میں رقم طراز ہے کہ
’’مولوی محمدحسین جو اول المکفرین بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی
شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 129مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 215)
ایک اور مقام پرمرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ:
’’شیخ محمد حسین صاحب رسالہ اشاعۃ السنۃ جو بانی مبانی تکفیر ہے اور جس کی
گردن پر نذیر حسین دہلوی کے بعد تمام مکفروں کے گناہ کا بوجھ ہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 80)
مرزاقادیانی مذیدرقم طراز ہے کہ
’’غرض بانی استفتاء بٹالوی صاحب اور اول المکفرین میاں نذیر حسین صاحب ہیں
اور باقی سب ان کے پیرو۔‘‘
(دافع الوساوس صفحہ 31مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 31)
الغرض ان تمام دلائل سے یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے کہ مرزا قادیانی
اور اس کی ذریت کے خلاف سب سے پہلے فتویٰ کفر شائع کرنے اور اس کی بیخ کنی
کرنے کی سعادت جماعت اہل حدیث کو حاصل ہوئی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک
نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف علمائے دیوبند اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی
رحمۃ اﷲعلیھم نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود یہ مانے بغیر
چارہ نہیں کہ مرزا قادیانی کے خلاف تحریک ختم نبوت کا آغاز کرنے والے بھی
اہل حدیث ہی تھے اور جن کے ساتھ مباہلے میں مرزا قادیانی عبرتناک انجام سے
دوچار ہوا وہ بھی اہل حدیث ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا محمد حسین
بٹالوی، بشیر شہسوانی، سعداﷲ لدھیانوی، عبدالحق غزنوی، قاضی سلیمان منصور
پوری اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین نے اس کے باطل دعووں
کی بنیا دپر اسے ہر جگہ رگیدا توتنگ آ کر مرزا قادیانی نے 15اپریل 1907ء کو
ایک اشتہار بعنوان ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ شائع کیا جس میں
مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب ، السلام علیکم علی من اتبع الہدیٰ! مدت سے آپ
کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے
آپ اپنے اس پرچہ میں مردود وکذاب اور دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں
اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال
ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے
بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے
پھیلانے کے لیے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کرکے دنیا کو میری
طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ سے
یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ایسا ہی
کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے
ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ مفسد
اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد
دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام وہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی
بہتر ہوتاہے، تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری
نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو
میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے
نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے
ہاتھوں سے ہے ، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں
ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ۔ یہ کسی الہام یا وحی
کی بنیاد پر پیشگو ئی نہیں محض دعا کے طور پر کرتا ہوں کہ اے میرے مالک
بصیر و قدیر جو علیم وخبیر ہے، جو میرے دل کے حالا ت سے واقف ہے ۔ اگر یہ
دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ء ہے اورمیں تیری نظر میں
مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے
مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی
زندگی میں مجھے ہلاک کر دے اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش
کر دے۔(آمین)
مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثنا ء اﷲ تہمتوں میں جو مجھ پر
لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری
زندگی میں ہی ان کو نابود کر ۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ
وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو
اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو
فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے ۔ آمین یارب العالمین۔
میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا ہوں اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا
ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی،وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی
بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انھوں
نے تہمتوں اور بدزبانیوں میں آیت ﴿لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾
پربھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیاا ور دور دور ملکوں
تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور
کذاب اورمفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے
طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں
کہ مولوی ثناء اﷲ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا
ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور میرے
بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت
کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا
فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق
کی زندگی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے
برابر ہو مبتلا کر،اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر آمین ثم آمین!
﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ
خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ﴾
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 705طبع چہارم)
محترم قارئین! یہ تو تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا وہ اشتہار جس کے نتیجے
میں مرزا غلام احمد قادیانی چند ماہ بعد ہی 26مئی 1908ء بروز منگل ہیضہ کے
موذی مرض میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہوا۔ مرزا کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے
اس کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ جلد اوّل روایت
نمبر12 میں رقم طراز ہے:
’’حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت
مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی
دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں
بھی سو گئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک
یا دودفعہ رفع حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ
ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ،میں اٹھی توآپ کو اتنا ضعف تھا
کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ
گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا : تم اب سو جاؤ ، میں نے کہا :
نہیں، میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا
کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے۔ اس لیے میں نے چار پائی کے پاس ہی انتظام کر
دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے۔ اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں ہاتھ
پاؤں دباتی رہی ۔ مگر ضعف بہت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور
پھر آپ کو ایک قے آئی اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت
دگرگوں ہو گئی۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر12صفحہ 11-10 از مرزا بشیر احمد)
ذرا غور کیجیے! کس طرح مرزا قادیانی اپنے آخری فیصلے والے اشتہار کے نتیجے
میں ہی ہیضہ کی بیماری کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔ جب کہ مولانا ثناء اﷲ
امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے اوران کی وفات 1948ء
کو سرگودھا میں ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی ذریت اس بات کو ماننے کے
لیے تیار نہ تھی کہ مرزا اپنی دعا کے نتیجے میں ہی مرا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ
قادیانی جماعت کے جوشیلے خطیب اور قلم کار مرزا غلام احمد قادیانی کے مرید
خاص منشی قاسم علی نے اخبار الحق میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ
کو مباحثہ کا چیلنج دیا جس کا جواب مولانا امرتسری رحمۃ اﷲعلیہ نے اخبار
اہل حدیث یکم مارچ 1912ء کے شمارہ میں قبول کرکے دیا۔ مباحثہ کی بنیاد ی
شرائط درج ذیل تھیں:
-1 مباحثہ تحریری ہوگا۔
-2 ایک منصف محمدی اور دوسرا مرزائی ، تیسرا غیر مسلم ، مسلم الطرفین
سرپینچ۔
-3 دونوں منصفوں میں اختلاف ہو تو سرپینچ جس منصف کے ساتھ متفق ہوں گے وہ
فیصلہ ناطق ہوگا۔
-4 کل تحریر یں پانچ ہوں گی ، تین مدعی کی اور دو مدعا علیہ کی۔
-5 مولانا ثناء اﷲ امرتسری مدعی اور منشی قاسم علی قادیانی مدعا علیہ ہوں
گے۔
-6 مدعی کے حق میں فیصلہ ہو تو مدعا علیہ مبلغ تین سو روپیہ بطور انعام یا
تاوان مدعی کو دے گا ۔ مدعا علیہ غالب ہو تواس کو مدعی کچھ نہیں دے گا۔ غرض
رقم ایک طرف سے ہوگی۔
مباحثہ کی تاریخ 15اپریل1912ء مقرر ہوئی۔ مباحثہ میں مسلمانوں کی طرف سے
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اﷲعلیہ منصف نامزدہوئے اور قادیانیوں کی
طرف سے منصف منشی فرزند علی صاحب ہیڈ کلرک قلعہ میگزین فیروزپور مقرر ہوئے
اور سرپینچ کے لیے سردار بچن سنگھ صاحب بی اے گورنمنٹ پلیڈ ر لدھیانہ مقرر
ہوئے۔
15اپریل 1912ء کومبلغ تین سوروپیہ مولانامحمدحسن صاحب رئیس لدھیانہ کے
سپردکیاگیا کیونکہ انہیں امین کے طورپرنامزد کیاگیاتھا۔17اپریل 1912ء کو
3بجے دوپہر مباحثہ شروع ہوا۔ 21اپریل 1912کو مباحثہ کے سرپینچ سردار بچن
سنگھ نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے حق میں فیصلہ دیا اور قادیانیوں سے مبلغ
تین سو روپیہ لے کر مولانا ثناء اﷲ امرتسری کو دے دیا۔ مولانا امرتسری رحمۃ
اﷲ علیہ نے اس تین سو کی رقم سے ’’فاتح قادیان‘‘ نامی رسالہ شائع کرکے
تقسیم کیا جس میں مباحثہ کی مکمل روئیداد بیان کی۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے مباہلے کے چیلنج تو اکثر علما کو دیے ،لیکن
مباہلہ صرف ایک عالم دین مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃاﷲ علیہ (جو کہ اہل حدیث
تھے )سے 1893ء میں امرتسر میں ہوا ۔مرزاقادیانی عوام النّاس کواس مباہلے
میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے اشتہار بعنوان ’’اعلان عام :۔اس مباہلہ کی اہلِ
اسلام کواطلاع جو دہم ذیقعدروزشنبہ کوبمقام امرتسرعیدگاہ متصل مسجدخاں
بہادرحاجی محمدشاہ صاحب مرحوم ہوگا‘‘ میں رقمطرازہے کہ
’’اے برادران اہل اسلام کل دہم10ذیقعدروزشنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں
عبدالحق غزنوی اوربعض دیگرعلماء جیساکہ انہوں نے وعدہ کیاہے اس عاجز سے اس
بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عجزکوکافراوردجّال اور بیدین اوردشمن
اﷲ جلّشانہ ‘اوررسول اﷲﷺکاسمجھتے ہیں۔اس عاجز کی کتابوں کومجموعہ کفریات
خیال کرتے ہیں۔اوراس طرف یہ عاجزنہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتاہے بلکہ اپنے
وجودکو اﷲاوررسول کی راہ میں فداکیے بیٹھاہے لہٰذاان لوگوں کی درخواست پریہ
مباہلہ تاریخ مذکورہ بالامیں قرارپایاہے۔ مگرمیں چاہتاہوں کہ مباہلہ کی
بددعاکرنے کے وقت بعض اورمسلمان بھی حاضرہوجائیں کیونکہ میں یہ دعاکروں
گاکہ جس قدرمیری تالیفات ہیں ‘ان میں سے کوئی بھی خدااور رسولﷺکے فرمودہ کے
مخالف نہیں ہیں اورنہ میں کافرہوں۔اوراگرمیری کتابیں خدا اوررسولﷺکے فرمودہ
سے مخالف اورکفرسے بھری ہوئی ہیں توخداتعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پرنازل
کرے جوابتدائے دنیاسے آج تک کسی کافربے ایمان پرنہ کی ہو ۔ اورآپ لوگ آمین
کہیں۔کیونکہ اگرمیں کافرہوں اورنعوذباﷲدین اسلام سے مرتداوربے ایمان
تونہایت برے ایمان سے میرامرناہی بہترہے اور میں ایسی زندگی سے بہزاردل
بیزار ہوں۔اوراگرایسانہیں توخداتعالیٰ کی طرف سے سچافیصلہ کردیگا۔وہ میرے
دل کوبھی دیکھ رہاہے اورمیرے مخالفوں کے دل کوبھی بڑے ثواب کی بات ہوگی
اگرآپ صاحبان کل دہم ذیقعدکودوبجے کے وقت عیدگاہ میں مباہلہ پرآمین کہنے کے
لیے تشریف لائیں۔والسلام۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ349ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
اسی مباہلہ کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیراحمدابن مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی 10ذیقعدہ 1310ھ مطابق 27مئی 1893ء
کومولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں مباہلہ
فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی
میعادمقررنہیں کی گئی تھی اورنہ ہی فریق مخالف کے لیے بددعاکی تھی بلکہ صرف
یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں توخداتعالیٰ وہ لعنت میرے
پرنازل کرے جوابتدائے دنیاسے آج تک کسی کافربے ایمان پرنہ کی ہو۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ380‘381روایت نمبر420طبع چہارم)
محترم قارئین!مرزاقادیانی نے 2اکتوبر1907ء کوایک اصول وضع کرتے ہوئے بیان
جاری کیاکہ
’’مباہلہ کرنے والوں میں سے جوجھوٹا ہوتاہے وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک
ہواکرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ
کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ327‘328ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
اس اصول کو وضع کرنے کے چند ماہ بعد 26مئی1908ء کوالہٰی فیصلہ کے تحت ہیضہ
کے مرض سے اپنے مباہل مولاناعبدالحق رحمۃاﷲعلیہ کی زندگی میں ہی ذلت ناک
موت کا شکارہوا ۔اور مولانا عبدالحق غزنوی رحمۃ اﷲ علیہ مرزا قادیانی کی
عبرتناک موت کے بعد تقریباًنوسال زندہ رہے اور 23رجب 1335ھ بمطابق16
مئی1917ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
محترم قارئین!صوفی عبدالحق غزنوی ؒؒؒؒؒؒرحمۃ اﷲ علیہ کاایک اورمباہلہ حافظ
محمدیوسف کے ساتھ ہوا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزاقایانی ایک اشتہار میں
رقمطراز ہے کہ
’’پھرتکفیرکافتویٰ تیارہونے کے بعداس طرف سے بھی مباہلہ کااشتہاردیاگیا
جوکتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اورابھی تک کوئی شخص مباہلہ
کے لیے مقابلہ پرنہیں آیا مگرمجھ کو اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ
ہمارے ایک معززدوست حافظ محمدیوسف صاحب نے ایمانی جوانمردی اورشجاعت کے
ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب
اتفاقاًایک مجلس میں بیان کررہے تھے کہ مرزاصاحب یعنی اس عاجزسے کوئی آمادہ
مناظرہ یامباہلہ نہیں ہوتا اوراسی سلسلہ گفتگومیں حافظ صاحب نے یہ بھی
فرمایا کہ عبدالحق نے جومباہلہ کے لیے اشتہاردیاتھااب اگر وہ اپنے تئیں
سچاجانتاہے تومیرے مقابلہ پرآوے میں اس سے مباہلہ کے لیے تیارہوں تب
عبدالحق جواسی جگہ کہیں موجودتھاحافظ صاحب کے غیرت دلانے والے لفظوں سے
طوعاًوکرہاًمستعدمباہلہ ہوگیا اورحافظ صاحب کاہاتھ آکرپکڑلیاکہ میں تم سے
اسی وقت مباہلہ کرتاہوں مگرمباہلہ فقط اس بارہ میں کروں گاکہ میرایقین ہے
کہ مرزاغلام احمدومولوی حکیم نورالدین اورمولوی محمداحسن یہ تینوں مرتدین
اورکذابین اوردجالین ہیں حافظ صاحب نے فی الفوربلاتامل منظورکیاکہ میں اس
بارہ میں مباہلہ کروں گاکیونکہ میرایقین ہے کہ تینوں مسلمان ہیں تب اسی بات
پرحافظ صاحب نے عبدالحق سے مباہلہ کیا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ازمرزاقادیانی جلد1صفحہ324‘325طبع چہارم)
محترم قارئین !اس مباہلہ کا الہٰی فیصلہ کچھ یوں ہواکہ یہی حافظ محمدیوسف
صاحب وقوع مباہلہ کے کچھ عرصہ بعد قادیانیت کوترک کرکے نہ صرف مسلمان ہو
گئے بلکہ مرزاقادیانی اور اس کی ذریت کو علمی میدان میں ناکوں چنے چبواتے
رہے ۔یہی وجہ تھی کہ مرزاقادیانی کو حافظ یوسف صاحب کے خلاف اشتہارات
اورکئی تحریریں شائع کرناپڑیں جن میں سے ایک اشتہار ضمیمہ تحفہ گولڑویہ
مندرجہ روحانی خزائن جلد17صفحہ37پرموجودہے۔ |