اپنی نیکیاں بچائیں

اس قحط الرجال کے زمانے میں دینی محافل تو نہیں سجتے لیکن بعض لوگ سوشل میڈیا پر تبلغِ دین اور ترغیب و ترہیب کا کام نہایت ہی خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔

ایسے لوگوں نے دین کو بہت اچھا سمجھا بھی ہے اور دین کو سمجھانے کا انداز بھی اچھا اپنایا ہواہے۔

بہت اچھی اچھی تحاریر نگاہوں سے گزرتی ہیں جو ایمان کو تازہ کرتی رہتی ہیں اور دل میں محبتِ و خشیتِ الٰہی اور حب رسول اللہ ﷺ پیدا کرکے دین پر عمل کرنا آسان بناتی ہے۔

سوشل میڈیا پر اِن افراد کی تحاریر کو لائیک کے ذریعے سراہنے والے اور شیئر کرنے والے بھی بے شمار ہیں اور اس طرح یہ لوگ نیکیاں بهی خوب کماتے رہتے ہیں۔

لیکن شیطان جب دیکھتا ہے کہ کوئی بندہ نیکیاں بٹورتا جارہا ہے تو اس کی نیکیاں زائل کرنے کیلئے اس کے دل میں بار بار وسوسہ ڈالتا ہےکہ ’’ تم اب کوئی بڑی چیز ہو گئے ہو۔ اتنے لوگ تمہاری تحاریر پڑھنے والے اور لائیک و شیئر کرنے والے ہیں‘ تم ان لوگوں سے اعلٰی و ارفع ہو‘ تم ان سے زیادہ علم رکھتے ہو وغیرہ وغیرہ ‘‘۔

اس طرح آہستہ آہستہ شیطان انسان کو تکبر کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے بعض لوگوں کو سوشل میڈیا پر تکبر کی بیماری لگتے بھی دیکها گیاہے۔

سوشل میڈیا پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جہاں کسی نے ان حضرات کی کسی تحریر میں ان کے خلاف کوئی کمنٹ کیا‘ تو بہتر انداز میں سمجھنے یا سمجهانے کے بجائے تکبرانہ انداز اپناتے ہیں اور سمجهتے ہیں کہ اتنے سارے لوگوں نے کوئی تنقید نہیں کی اور یہ آئے ہیں مجھ پر تنقید کرنے، بڑے بنتے ہیں علامہ وغیرہ وغیرہ ۔

اور اس طرح کی تکبرانہ رویہ سے اپنی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔

لہذا شیطانی وسوسے سے پیدا ہونے والی تکبرانہ طرز عمل سے بچنے اوراپنی نیکیوں کو بچانے کیلئے ’’ تواضع و انکساری ‘‘ کا انداز جو اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے‘ اسے اپنایا جائے اور دل میں تکبر پیدا ہوتے ہی کہا جائے :

’’ انی من المسلمین‘‘
میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
بار بار کہا جائے کہ میں اِن ہی جیسا ہوں۔ میں اللہ کا ایک ادنا بندہ اور غلام ہوں۔

نبی کریم ﷺ اُکڑوں بیٹھ کر کھاتے اور فرماتے کہ ’’ میں بندہ (غلام ) ہوں‘ بندوں (غلاموں) کی طرح کھاتا ہوں اور بندوں (غلاموں) کی طرح بیٹھتا ہوں‘‘( السلسله الصحیحه‘ از علامہ البانی ۵۴۴)

حضرت عمر فاروق ؓ ایک مرتبہ ممبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’ لوگوں میں بچپن میں اپنی خالاؤں کی اونٹ چرایا کرتا تھا جس کے بدلے میں وہ مجھے مٹھی بھر کهجور یا کشمش دیا کرتی تھیں‘‘

لوگوں نے کہا: ’’ امیر المؤمنین آپ کو کیا ہو گیاہے؟ یہ بات کہنے کی کیا ضرورت تھی‘‘

فرمایا: ’’ عمر کو شیطان نے بہکانے کی کوشش کی‘ اس نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ اے عمر آج تو تم امیر المؤمنین ہو‘ یہ پوری دنیا تمہارے اشارے پر چلتی ہے۔ یہ سب تمہاری بات سننے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لہذا میں نے اپنے نفس کو اس کی اوقات یاد دلائی۔‘‘

یعنی شیطانی وسوسے اور تکبر سے بچنے کیلئے ہر انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہے۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انسان کو اس کی اوقات بتانے سے ہی قرآن کا نزول شروع کیا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ سورة العلق
’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ‘‘

اسی طرح سورہ انسان (دہر) میں فرمایا:

هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا ﴿١﴾ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٢﴾
’’ یقیناً گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ۔ بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا ‘‘

اس کے علاوہ بھی قرآن کی بے شمار آیتیں انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتی رہتی ہیں۔

لہذا جب انسان اپنی اوقات یاد رکھے گا تو وہ تکبر سے بچے گا اور اس میں ’’ تواضع و انکساری ‘‘ پیدا ہوگی جس کیلئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات کو سلف صالحین کی سمجھ کے مطابق سیکھے‘ سمجھے اور جس طرح انہوں نے عمل کیا ہے اسی طرح عمل میں لائے اورشیطانی وسوسے اور تکبر سے بچ کر اپنی نیکیاں زائل ہونے سے بچا ئے۔

ورنہ ہماری نیکیاں زائل کرنے کیلئے شیطان تو ہر لمحہ گھات لگائے بیٹھا ہی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں دین کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ شیطانی وسوسے اور تکبر سے بچنے کی توفیق دے اور ہماری نیکیوں کو زائل ہونے سےبچائے۔ آمین
Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 69676 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More