گائے کی ٹکر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پولیس نے گائے کو پکڑا، موٹر سائکل رکشہ پر باندھ
کر تھانے لے گئے، الزام اس گائے پر یہ تھا کہ اس نے سرکاری گاڑی کو ٹکر مار
کر زخمی کردیا تھا۔ سرکاری گاڑی میں موجود افسر نے تھانہ میں بیان دیا اور
پولیس نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اب گائے تھانے کے احاطے میں بندھی تھی اور
تھانے والوں کا کہنا تھا کہ گائے کا مالک آئے گا، سرکاری گاڑی کو ہونے والا
نقصان پورا ہوگا تو ہی گائے کو رہائی نصیب ہوگی۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ
مویشی سڑکوں گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں، مگر ایسا واقعہ بہت کم ہی پیش آتا
ہے، جس میں مویشی گاڑیوں کو ٹکریں اور لاتیں وغیرہ مارتے پھریں، بس جہاں
مویشیوں کا ریوڑ جارہا ہوتا ہے، وہاں گاڑیوں اور دیگر سواریوں والوں کو
احتیاطاً ایک طرف ہو کر رکنا پڑتا ہے، تاکہ وہ کسی نقصان سے بچ جائیں۔ جس
گاڑی کو گائے نے ٹکر ماری ہے، نہ جانے کس قسم کے افسر اس میں سوار تھے،
گائے ایک سیدھا سادا جانور ہے، نہ یہ سازشی ذہن رکھتی ہے اور نہ ہی شرارت
کے ضمن میں کوئی حرکت کرتی ہے، اگر اس بھولے اور درویش قسم کے جانور نے بھی
کسی گاڑی کو ٹکر دے ماری ہے تو ضرور دال میں کالا ہوگا، ممکن ہے افسر صاحب
نے گائے کو بھی نائب قاصد جان کر کوئی حکم جاری کیا ہو؟ خیر یہ تو گائے تھی،
اگر یہی افسری دفتر سے باہر سڑکوں پر بھی شرو ع ہوگئی تو نتائج خطرنا ک بھی
نکل سکتے ہیں، خاص طور پر کسی کُتے وغیرہ پر حکم چلانے کی کوشش نقصان دہ
ثابت ہو سکتی ہے۔
گائے تھانے تو پہنچ گئی، مگر یہ معلوم نہیں کہ اس پر پرچہ بھی کاٹا گیا یا
نہیں؟ اگر پرچہ کاٹا گیا تو گائے کا نام پتہ کیا لکھا گیا؟ دیگر کوائف میں
اندراج کن کا ہوا؟ اور اگر پرچہ درج نہیں ہوا، گائے کو ویسے ہی تھانہ میں
باندھ کر رکھا گیا تو یہ معاملہ مزید خطرنا ک ہے، کہ ایک بے زبان اور معصوم
جانور کو حبسِ بے جا میں رکھا گیا، جو اپنی صفائی میں کچھ بھی بیان نہیں دے
سکتی، نہ معافی مانگ سکتی ہے، نہ منت سماجت کر سکتی ہے اور نہ ہی احتجاج کی
صورت نکال سکتی ہے کہ شور شرابہ کرکے تھانہ سرپر اٹھا لے، یا پاؤں سے مٹی
اڑا کر ہنگامہ مچا دے۔ جہاں تک بات ہے اس کے مالک کی تو یقینا وہ پولیس کے
سامنے بے بس ہوگا، پولیس کو دے لے کر ہی اس کی جان خلاصی ہو سکتی ہے، ورنہ
گائے نے جو جرم کیا ہے وہ قابلِ معافی نہیں، اس کا خمیازہ مالک کو ہی
بھگتنا ہوگا۔ سرکاری گاڑی ورکشاپ جائے گی، اس کی مرہم پٹی کا تخمینہ لگایا
جائے گا، اس پر اٹھنے والے اخراجات گائے کے مالک سے وصول کئے جائیں گے۔
مالک کی آسانی کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے صر ف تخمینے کے مطابق طے شدہ
رقم وصول کر لی جائے اور ورکشاپوں کے چکر خود لگانے کا ذمہ اٹھا لیا جائے۔
ظاہر ہے سرکاری گاڑی کی مرمت تو سرکاری کھاتے میں ہی ہوگی، مگر گائے کے
مالک سے ہرجانہ وصول کر لیا جائے گا۔
اگر گائے کے مالک کی کسی قانونی ماہر سے بات ہو جائے تو بات بن سکتی ہے۔
یہی معاملہ پولیس کے لئے الٹا پڑ سکتا ہے پولیس کو لینے کے دینے پڑ سکتے
ہیں۔ کسی بے گناہ کو حبسِ بے جا میں رکھنا غیر قانونی کام ہے۔ اگر قانون کے
رکھوالے ہی غیر قانونی کام کرنے پر اتر آئیں گے تو عوام کا کیا حال ہوگا؟
بعض لوگ تھانہ کچہری کے ماہر ہوتے ہیں، وہ پولیس کو چکر میں ڈال سکتے ہیں،
مگر یہ خیال رہے کہ گائے کے مالک کا خرچہ ہر حال میں ہونا ہی ہے، پہلی صورت
تو یہ ہے کہ وہ پولیس کو کم سے کم پر لا کر اُن کی مٹھی گرم کرے۔ دوسری
صورت کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی ہے، کہ وہاں بھی خرچے کے بغیر کام
نہیں ہوگا۔ سوم ؛کسی اور ماہر سے بات ہوگی تو کسی نہ کسی مد میں خرچہ وہ
بھی نکلوا لے گا۔ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ کے مصداق گائے کے
مالک کی ہڈیوں سے کچھ نہ کچھ جُوس نچوڑا ہی جائے گا۔ گائے کے مالک کے لئے
یہ مسئلہ بھی بنے گا، کہ گائے تھانے میں ہے، وہ چارہ کھائے گی، (اگر فاقہ
بھی کرے تو بھی) تھانے والے مالک سے چارے کی مد میں رقم وصول کریں گے۔
فیصلہ اب گائے کے مالک نے کرنا ہے کہ گائے کو (اور خود کو بھی) کس طریقے سے
پولیس کے چنگل سے چھڑوانا ہے۔ |
|