گزشتہ دنوں ورلڈ ٹی بی ڈے پر جرمنی کے معروف میگزین نے ٹی
بی کے مریضوں میں اضافہ ہونے پر مفصل رپورٹ شائع کی جس میں کئی وجوہات اور
اسباب بیان کئے گئے کہ ٹی بی کے اضافے یا پھیلاؤ میں غربت ،مائیگرینٹس ،ماحول
، مختلف جراثیم اور سماجی معاملات و مشکلات کا تذکرہ کیا گیا رپورٹ میں
بتایا گیا کہ خاص طور پر بڑے شہروں میں غربت اور مائیگریشن کے سبب اس
بیماری میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی بی کو جرمنی میں کئی برس قبل فراموش کر دیا
گیا تھا کہ اس کا علاج موجود ہے اور اگر اکا دکا اس بیماری میں مبتلا ہے تو
دوا علاج سے صحت یاب ہو جائے گا،اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں بہت کم
افراد ٹی بی میں مبتلا ہیں لیکن گزشتہ برسوں سے اس بیماری میں مزید اضافہ
ہوا ہے اب تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ یہ بیماری تقریباً ختم ہو چکی ہے
لیکن وقت اور حالات کے ساتھ اس نے پھر سر ابھارا ہے اور اسباب غربت ،بے
روزگاری ، بے گھری ،منشیات کی لت اور دیگر سماجی مسائل بتائے گئے۔دنیا بھر
میں ایڈز ،کینسر اور ملیریا کے علاوہ ٹی بی بھی انسانوں کی قاتل کہلائی
جاتی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے جرمنی میں ٹی بی کے پھیلاؤ یا اضافے میں
مہاجرین کی آمد ، غربت ، بے گھری کے علاوہ منشیات کا زیادہ استعمال اور
سماجی مسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا
ہے جرمنی میں ہر نئے آنے والے پناہ گزین کا جدید طریقے سے مکمل طور پر طبی
ٹیسٹ لیا جاتا ہے ۔چوبیس مارچ کو ورلڈ ٹی بی ڈے کے موقع پر رابرٹ کوخ
انسٹیٹیوٹ کے ترجمان نے بتایا کہ آج سے ایک سو پینتیس برس قبل چوبیس مارچ
اٹھارہ سو بیاسی میں ٹی بی کو دریافت کیا گیا اور ہر سال یہ دن منایا جاتا
ہے ،دوسری طرف ماہر سائنسدانوں اور معالجین کا کہنا ہے ہمارے لئے تعجب کی
بات نہیں کہ اگر کوئی فرد ٹی بی میں مبتلا ہے بلکہ اسے مثبت انداز سے اس
لئے دیکھا جاتا ہے کہ فوری علاج کیا جائے تاکہ یہ بیماری مزید نہ پھیل سکے
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ پناہ گزینوں کی آمد سے اس بیماری میں اضافہ ہوا
ہے دیکھا جائے تو جیلوں میں بھی کئی افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں
اور ان کی ہفتہ وار جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔برلن میں ٹی بی کے مریضوں کیلئے
خصوصی ایمبولینس اور وارڈ قائم کئے گئے ہیں جہاں ہر جمعرات کو مختلف شعبوں
سے تعلق رکھنے والے ماہرین مشاورت کے بعد کلینک ،پریکٹس ، مریضوں اور دوا
علاج پر تفصیلاً بات چیت کرتے ہیں مثلاً کم آمدنی والے کو زیادہ سے زیادہ
مراعات دی جائیں تاکہ وہ جلد صحت یاب ہو سکے ،ہوسپیٹل کے چیف فزیشن ڈاکٹر
ولف کا کہنا ہے یہ بیماری اکثر سماجی مشکلات سے شروع ہوتی ہے اور ایک دوسرے
سے روابط ہونے پر انفیکشن ہونے سے پھیل جاتی ہے ،ہر ڈاکٹر ٹی بی کی بیماری
کا پتہ نہیں لگا سکتا کیونکہ محض طویل اور بدستور کھانسی ،وزن میں کمی یا
رات کو سوتے ہوئے پسینے سے کوئی ڈاکٹر اخذ نہیں کر سکتا کہ مریض ٹی بی میں
مبتلا ہے جب تک پھیپھڑوں کا ایکسرے نہ کیا جائے، اس بات کو نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا کہ ٹی بی دیگر جسمانی اعضاء کو بھی متاثر کر سکتی ہے جس سے
تشخیص میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ برلن کے خصوصی وارڈ میں اب تک
انیس سے نوے برس تک کے افراد سالانہ آتے ہیں کاغذی کارروائی اور مکمل چیک
اپ کے بعد انہیں مختلف وارڈز میں منتقل کیا جاتا ہے ،ڈاکٹر نوبرٹ فرینک کا
کہنا ہے کئی مریض اس بات کا یقین ہی نہیں کرتے کہ انہیں ٹی بی ہے انہیں
اپیل کی جاتی ہے کہ ہم ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اگر آپ
علاج نہیں کروائیں گے تو مجبوراً آپ کو جیل کے ہوسپیٹل منتقل کرنا پڑے گا
تاہم ایسی نوبت اسلئے نہیں آتی کہ انہیں تمام ٹیسٹ اور رپورٹ دکھائی جاتی
ہیں جس سے وہ مطمئن ہو جاتے اور بخوشی علاج کرواتے ہیں ۔ رپورٹ میں یہ بھی
بتایا گیا کہ نصف سے زائد مریضوں کا تعلق غیر ممالک سے ہے کیونکہ پناہ
گزینوں کی زندگی مسائل سے بھری ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر تفصیلاً بات چیت
کیلئے مترجم کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ مریض کو مکمل طبی رپورٹ سے آگاہ کیا
جائے اور یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہو تا ہے۔دوسری طرف وہ عمر رسیدہ افراد جو
دوسری جنگ عظیم میں شریک ہوئے اور غربت یا بے روزگاری کے سبب اس بیماری میں
مبتلا ہوئے موجودہ دور میں مدافعتی کمزوری سے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے
ہیں ان کا علاج جاری رہتا ہے ۔عام طور پر ٹی بی قابل علاج ہے اور کئی افراد
صحت یاب ہو چکے ہیں کیونکہ تھیراپی کی مدت چھ ماہ ہوتی ہے چار اینٹی بایوٹک
بہ یک وقت لینی پڑتی ہیں تاکہ جراثیم کا مقابلہ کر سکے اس چھ ماہ کی
تھیراپی کا خرچ تقریباً بارہ سو یورو ہوتا ہے جو ہر خاص و عام برداشت کر
سکتا ہے۔لیکن کئی ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی ٹی بی کا مکمل علاج نہ ہونے
سے روزانہ ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ |