دنیا بھر میں ہرسال یکم اپریل کو ’’’اپریل فول‘‘‘کے نام
سے منایاجاتاہے،اپریل فول کا مطلب کیا ہے ؟اپریل فول کا مانع جھوٹ اوردھوکے
کے ذریعہ ایک دوسرے کوبیوقوف بنانااورجب وہ بے وقوف بن کرشرمندہ ہوجائے
تواپنی اس نام نہاداورجھوٹی کامیابی پرخوش ہونا،اسی کو ہی اپریل فول کہتے
ہیں،اوراس میں جانے انجانے میں ہم مسلمان بھی برابرکے شریک رہتے ہیں۔ سچائی
و حق گوئی کو ہر زمانے میں ہر قوم نے ہرمذ ہب نے تسلیم کیا ہے ، ہرزمان و
مکان اور ہر مکتبِ فکرمیں ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ایک بلند معیار تسلیم
کیا گیا ہے۔سچائی کے دامن کے تھامنے والے کو عوام الناس سچائی کا
علمبرداراور کذبِ بیانی سے کام لینے والے کو لوگ جھوٹ کا سوداگر گردانتے
آئے ہیں، غرض ہے کہ سچائی سے محبت اور جھوٹ سے نفرت انسانی فطرت میں ودیعت
کردی گئی ہے۔اب اگر دنیا کے کچھ لوگ وقتی طور پر ہی سہی مگر جھوٹ کی تحسین
کرتے ہیں تو یقیناً یہ ایک غیر فطری عمل ہے اور غیر فطری عمل کی پذیرائی
عقل و دانش میں نقص کی غماز ہے۔ اس آئینہ میں جب ہم اپریل کی یکم تاریخ
میں‘‘اپریل فول’’کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ایک
نامعلوم بنیاد کو کچھ سر پھروں نے جھوٹ بولنے کے جشن کے طور پر اپنا
رکھاہے۔دلجوئی،باہمی محبت،دوستانہ مذاق اور تفریحِ طبع کے ان گنت جائز اور
مستحسن طریقوں کے موجود رہتے ہوئے کیا یہ ضروری ہے کہ کسی خاص دن میں لوگ
عالمی طور پر معتوب چیز، جھوٹ کو اپنائیں؟
ہمارے دین کامل ہیں، اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ
ہے۔جھوٹ کا مطلب ہے ’’وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو‘‘ یعنی اصل میں وہ بات اس
طرح نہیں ہوتی۔جس طرح بولنے والا اسے بیان کرتا ہے۔اس طرح وہ دوسروں کو
فریب دیتا ہے۔جو اﷲ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔جھوٹ خواہ زبان سے
بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے۔مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے یا
بہلانے کیلئے ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔جھوٹ ام الخبائث (برائیوں
کی جڑ)ہے۔کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں ۔اﷲ تعالیٰ
نے قرآن مجید میں فرمایا ہیں ، ترجمہ: جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں
جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں․(سورۃ النحل
105):دوسری جگہ ارشاد ہے کہ : تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے
اجتناب کرو․(سورۃ الحج 30)
اس ہی طرح ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے :حضرت معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اﷲ
عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تباہی ہے اس
کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے
اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔
اپریل فول کیا ہے اس بارے میں ایک ریسرج ادارا،انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا:
نے اپریل فول کی ابتداء کے حوالے سے مختلف مؤ رخین کے متضاد آرا کا ذکر کیا
ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی واقعہ جس کو اپریل فول
کی بنیاد بتا یا گیا ہے اخلاقی دائرہ میں نہیں آتا،ان میں سے ہر ایک میں
تذلیل کا واضح پہلو موجود ہے۔ بطورِ نمونہ یہاں میں دو مثالوں کو ذکر کررہا
ہوں، ان میں سے پہلا جو انسائیکلو پیڈیاآف برٹانیکا کے صفحہ نمبر ۶۹۴/اور
جلد نمبر ۱/میں مذکور ہے وہ یہ کہ‘‘چونکہ ۵۲/مارچ سے موسم میں تبدیلی شروع
ہوجاتی ہے اس لئے کچھ لوگوں نے یہ مان لیا کہ یہ فطرت کا اپنے ماتحتوں کے
ساتھ یہ ایک قسم کا مذاق ہے اور نتیجتاً ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ
خدا(نعوذ باﷲ) ان لوگوں کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں،اسی وجہ سے ان لوگوں نے
آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ(جھوٹ بول کر)ایک اپریل کو مذاق کے رسم کو شروع
کیا۔دوسرا واقعہ جو’اپریل فول’کے حوالہ سے مؤ رخین نے ذکر کیا ہے وہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے اور اسکے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ اسی دن حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کوشرپسندرومیوں اوریہودیوں کے ذریعہ استہزااورمذاق
کانشانہ بنا یاگیا تھا، موجودہ بائبل میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے (لوقا:صفحہ
۵۶-۳۶،باب۲۲)۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو
یہودیوں نے ایک عدالت سے دوسری عدالت اور دوسری عدالت سے تیسری عدالت کا
چکر کٹوایاتھا۔لاریوس انسا ئیکلو پیڈیا کے مطابق اس تذلیل آمیز عمل کا
مقصدحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بے چارگی کو اجا گر کرنا اور انکو ذہنی اذیت
سے دوچار کرنا تھا۔ان دونوں واقعات کو پڑھنے کے بعد آپ خود ہی اس بات کا
اندازہ کرلیں کہ اپریل کی یکم تاریخ کو اپریل فول کے نام پر اور اس کو
منانے کے درپردہ کس طرح کے نازیبا اور ہتک آمیز مقاصد کارفرما ہیں۔کیا ایک
صیحح العقیدہ مسلمان اﷲ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے (نعوذ باﷲ) مذاق کا تصور
بھی کرسکتا ہے؟یقینا اسکا جواب نفی میں ہے،پھر کیوں دوسروں کے ساتھ بطورِ
خاص آج کے مسلم نوجوان اس عقیدہ شکن شیطانی عمل کا حصہ بنتے ہیں؟در اصل
تہذیبی اور ثقافتی جنگ کے اس دور میں مسلمانوں کے اپنے اقدار اور روایات سے
دوری نے باطل تہذیب و ثقافت کو ان پر حاوی کردیا ہے اور دوسروں کے نقش قدم
پر چلنے کی للک نے انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ غلط اور صحیح میں
تمیز کر سکیں۔
اپریل فول کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے ، اسپین میں مسلمانوں کی
زوال کے بعد مسلمانوں پر بہت ہی زیادہ ظلم کیا گیا ،مسلمانوں کو تنگ کرنے
کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کیئے گئے ،ان تمام حربوں میں ناکامی کے بعد
عیسائی حکمرانوں نے ایک چال چلی کہ بچے کچے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو
افریقا بیھج دیا جائے گا وہ اسپین چھوڑ دیں، مسلمان اس جھانسے میں آگئے اور
انھوں نے اپنا تمام مال و اسباب اور علمی ذرخیرہ جمع کیا اور عیسائیوں کی
جانب سے فراہم کردہ بحری جہازوں میں سوار ہوگئے، ان مسلمانوں کو علم نہیں
تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ان کو صرف یہ پتہ تھا کہ ظلم کے ماحول
سے ہم دور چلے جائیں گے اگر چہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو تیار نہ تھے
لیکن ان کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ ان کی جان بچ جائے گی، بندرگاہ
پرحکومت کے اہلکاروں اور جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کہا اور ان کو رخصت
کیا بیچ سمندر میں پہنچ کرایک منصوبہ کے تحت ان جہازوں کو غرق کیا گیا اس
کے باعث سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ ساتھ وہ قیمتی و علمی ذخیرہ
بھی برباد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا، یہ واقعہ یکم
اپریل کو پیش آیا تھا اور یہ گیارویں صدی عیسوی کے اوائل کا واقع ہے۔اسلام
اور مسلمانوں کا یہ امتیازی صفت ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے بھیجے
گئے ہر نبی اور رسول کو عزت و تکریم کے اعلیٰ معیار پر رکھتے ہیں پھر کیسے
کوئی مسلمان‘اپریل فول’منا کر حضرت عیسی علیہ السلام کے تذلیل کا حصہ بن
سکتا ہے(العیاذ باﷲ)؟یا اسپین کے بیگناہ مسلمانوں کی موت پر خوشی منا سکتا
ہے ؟‘‘اپریل فول’’کے حوالہ سے مندرجہ بالا توضیح کے بعدہمارے لئے یہ فیصلہ
کرنا آسان ہوگیاکہ اس غیر اخلاقی رسم کو اپنانا اور ترجیحی طور منانا تو
دور کی بات بلکہ اس کے لئے ہمارے مہذب سماج کی ڈکشنری میں بھی کوئی جگہ ہی
نہیں بنتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ اس حوالے سے سمجھ نے کوتوفیق عطاء کریں (آمین) |