ہم کس کس ’’فول‘‘ کوروئیں گے؟

یکم اپریل کو تقریباًپوری دنیامیں ’’اپریل فول‘‘ یا فول ڈے منایاجاتاہے اس دن لوگ ایک دوسرے کومذاق کے ذریعے بیوقوف بناتے ہیں چھوٹا بڑا جھوٹ بولتے ہیں ہنسی مذاق کرتے ہیں اوردوسرے کے بیوقوف بننے سے حض اٹھاتے ہیں یہ دن کیوں منایاجاتاہے متعددروایتوں اورقصے کہانیوں کے باوجوداسکی کوئی واضح اورمستند تاریخی حقیقت موجودنہیں مگریہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ اپریل فول مغربی ذہن کی اختراع ہے اور مست لوگوں نے اسے اپنالیاہے جیساکہ ہم سب کومعلوم ہے کہ ہمارے ہاں مغرب کی نقالی کارواج عام ہے اورہم مغربی نقالی کوجدیدیت کانام دیتے ہیں لہٰذا یہاں بھی اپریل فول منانے کی روایت بن چکی ہے چھوٹے بڑے جوان ، بوڑھے بزرگ مرد وخواتین ایک دوسرے کوجھوٹ کے ذریعے بے وقوف بناکرخوش ہوتے ہیں اگرچہ ایسے لاتعدادواقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ اسی جھوٹ نے ہنستی بستی زندگیاں اجھاڑیں اورہنستے بستے لوگوں کوغم واندوہ کی تصویرمیں تبدیل کیااس فضول،قبیح اوراحمقانہ رسم کے خلاف ملک کادانشورطبقہ بول بول کرہلکان ہوچکاہے کالم نگار اخبارات کے لاکھوں صفحات کالے کرچکے ہیں یکم اپریل کواخبارات کے اکثرصفحات اسکے خلاف مضامین سے بھرے ہوتے ہیں علماء اپریل فول جیسی رسم کومذہب سے متصادم قراردیتے ہیں ہمارے مذہب میں بھی جھوٹ کی ممانعت ہے پیارے آقاﷺ نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایاہے مگرہم ایک لمحے کی جھوٹی خوشی حاصل کرنے کیلئے نااپنے دینِ برحق کی پرواکرتے ہیں نااپنے پیارے نبی ﷺ کے فرمان کواہمیت دیتے ہیں اورناہی کوئی نصیحت خاطرمیں لاتے ہیں ہمارے ہاں لوگوں کی ایک قلیل تعداددھڑلے سے اپریل فول منانے کااہتمام کرتی ہے مگریہ بھی مقام شکرہے کہ عوام کی اکثریت اپریل فول منانے کوبراسمجھتی ہے یہ اکثریت اقلیت کوسمجھانے کی کوشش بھی کرتی رہتی ہے مگرلگتایہی ہے کہ یہ رسم اب ہمارے رگوں میں سرایت کرچکاہے اپریل فول کے اس قبیح رسم سے قطع نظرہمارامجموعی قومی مزاج اپریل فول کابن چکاہے وطن عزیزکے صاحبانِ ا ختیارواقتدار مجموعی طورپہ سارا سال اپریل فول منانے میں مصروف ومشغول رہتے ہیں ذراواضح الفاظ میں ہماری سیاسی قیادت(بشمول حکومت واپوزیشن) ساراسال جھوٹ بول بول کراپریل ’’فول ‘‘مناتی رہتی ہے دفاترمیں بیٹھے سرکاری اہلکارسائل کوجھوٹ بول کرٹرخاتے رہتے ہیں پانچ منٹ کاکام پانچ مہینے تک لٹکاتے رہنے میں ان کاکوئی ثانی نہیں ہماری حکومتیں ایک عرصے سے جھوٹی ترقی کے خواب دکھادکھاکراپریل فول منانے میں مصروف ہیں ہماری سیاسی اورمذہبی قیادت کولوگوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹنے کی فکرنہیں مگردہشت گردوں کی ریلیف کیلئے فوجی عدالتوں کے ہاتھ باندھے جارہے ہیں 500ارب روپے کرپشن میں ملوث لوگوں کی 28تولے سونے سے تاج پوشی ہورہی ہے قبضہ مافیاکے حوالے سے سوال پر صحافیوں کودھمکایاجارہاہے ملک میں ان گنت فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں مگرپختون کلچرل ڈے پر یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے باوجود حملہ کرایاجاتاہے دہشت گرد، بدمعاش اورغنڈے دندناتے پھررہے ہیں مگرشریف شہریوں کی تحفظ کے ذمے دارادارے بے بس ہیں پتھرباندھے گئے ہیں اورکتے کھلے چھوڑدئے گئے ہیں یہ سب فول نہیں تواورکیاہے؟ ہمارے ہاں حکومتیں عوام کوصحت کی سہولیات بہم پہنچانے کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں صحت کی سہولیات عوام کی دہلیزپرپہنچانے کے نعرے سننے کوملتے ہیں صحت کارڈجاری ہوتے ہیں جس کے بل بوتے اربوں روپے آپس میں بانٹے جاتے ہیں اندھابانٹے ریوڑیاں والی صورتحال ہے مگرکسی حادثے کے بعدہسپتالوں میں بنیادی طبی امدادپہنچانے کے لوازمات بھی موجودنہیں ہوتے مرہم پٹی کاسامان تک دستیاب نہیں ہوتامریض ایڑھیاں رگڑرگڑکراس جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں وزراء ہسپتالوں میں کیمروں کے سامنے منہ دکھائی کی رسم اداکرتے ہیں ہسپتالوں سے بچے اغواہوتے ہیں مگرجب انہی ناگفتہ بہہ حالات کے خلاف زخمیوں کے لواحقین احتجاج کرتے ہیں تووزرااسے مخالفین کی سازش سے تعبیرکرتے ہیں یہ ’’فول ‘‘نہیں توکیاہے؟رائٹ ٹوانفارمیشن قانون کوبنانے میں دوسال کاعرصہ لگتاہے قوم اورعوامی نمائندوں کاقیمتی وقت صرف ہوتاہے قانون کے پاس ہونے پربغلیں بجائی جاتی ہیں قوم کوخوشخبریاں دی جاتی ہیں اس کارنامے کے کریڈٹ لئے جاتے ہیں حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے کے خوبصورت نعرے لگتے ہیں مگرجب ایک صحافی اسی قانون کے تحت سرکاری فنڈزکاحساب مانگتاہے تواسے 3.MPOکی تلوارکے وارسے تین مہینے کیلئے نظربندکیاجاتاہے اب اسے مارچ فول کانام دیں اپریل فول یامئی فول کامگر یہ بھی’’ فول‘‘ ہی ہے ہماری حکومتیں قوم کے بچوں کوزیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے دعوے کرتی ہیں تعلیمی نظام کوجدیددنیاکے برابرلانے کے وعدے ہوتے ہیں تعلیمی بجٹ میں اضافے کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں درسگاہوں کوجدیدزمانے سے ہم آہنگ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں مگرسرکاری سکولوں میں جانوروں کے باڑے بنے ہوئے ہیں سرکاری سکولوں کی چھتیں بارشوں میں ٹپکتی رہتی ہیں برستی بارش میں بچے چھتری پکڑکرامتحان دینے پہ مجبورہیں 90%سکولوں میں پینے کاپانی ،بجلی ،لائٹ ،پنکھااورٹوائلٹ تک دستیاب نہیں مگروزرائے تعلیم کے دعوؤں میں ذرابرابرکمی واقع نہیں ہوتی اوروہ اسی کروفرکے ساتھ جھوٹ بول کرعوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کرفول مناتے رہتے ہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آئے روزبڑھتی رہتی ہیں20 روپے کلو والاٹماٹراچانک اوربلاوجہ 200روپے اور100 روپے کلو والی مرغی350کی ہوجاتی ہے زندگی بچانے والی دوائیاں مناسب نرخ میں دستیاب نہیں قیمتوں کے حوالے سے دوا سازکمپنیاں اوردیگرملٹی نیشنل ادارے من مانیوں میں مصروف ہیں15روپے پتے والی گولیاں80روپے کی ہوجاتی ہیں بین الاقوامی ساہوکارصبح اٹھ کرکسی نہ کسی چیزکی قیمت بڑھادیتے ہیں مگرہماری حکومتیں ہمیں مہنگائی میں کمی کامژدہ جاں فزاسناکرفول مناتی رہتی ہیں احتساب کے نعرے لگتے ہیں لوٹی گئی دولت کی واپسی کے دعوے ہوتے ہیں احتساب ادارے بناکرعوام سے دادطلب کی جاتی ہے مگراسی احتسا ب ادارے کی انگلیاں کسی دکھتی رگ تک پہنچتی ہیں تویہ انگلیاں ہی کاٹ دی جاتی ہیں اوردوسال تک نیااحتساب ڈی جی لگانے سے آنکھیں بندرکھی جاتی ہیں اسکے باوجودشفاف احتساب کے نعروں میں کمی واقع نہیں ہوتی کیایہ ’’فول ‘‘نہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پر’’فول‘‘ کاسامناہے ہماری پیٹھ پر سال کے365دن فولزکے کوڑے برستے رہتے ہیں ہم کس کس’’ فول ‘‘کوروئیں گے؟

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 58010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.