میں نے اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے نظر اٹھائی تو
عجیب منظر دیکھا، میں پریشان ہوگیا، کہ آخر یہ نوبت کیسے آگئی؟ کام والی
ماسی سرجھکائے کھڑی ہے اور خاتونِ اول نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ یہ
ہاتھ سرپرستی کے زمرے میں نہیں تھا، کہ ماسی عمر میں خاتونِ اول سے بڑی ہے۔
بہرحال اُن کی سرگرمی پوری ہوئی، تو ماسی کے چلے جانے کے بعد میں نے اپنے
تجسّس کا اظہار کیا، اور وجہ اس عملی سرپرستی کی پوچھی۔ معلوم ہوا کہ کام
والی کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اس کا خاوند چاول چھولے کی ریڑھی
لگاتا ہے، یہ گھروں میں کام کرتی ہے، یوں گھر کا گزر بسر ہوتاہے، محنت اور
بچت سے وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر کے رخصت کر چکے ہیں۔ بیٹیوں کے بعد
بیٹے کی عمر تقریباً بارہ سال ہے، وہ ایک جنرل سٹور پر کام کرتا ہے، جسے
دکاندار چھ ہزار روپے ماہانہ دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں بچے نے ضد کی کہ اسے دکان
پر پیدل جاتے ہوئے دقت ہوتی ہے، چنانچہ اسے سائیکل خرید کر دی جائے۔ ماں نے
کافی سمجھایا بجھایا، مگر بچے کی ضد کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا پڑا، اسے
نئی سائیکل خرید کے دے دی گئی۔ چند ہی روز بعد بچے نے دکان پر جانے سے
انکار کر دیا۔ ماں کی منت سماجت اور دکان دار کا تنخواہ میں اضافہ وغیرہ کا
حربہ بھی کام نہ آیا۔ بچے کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ حجام کا کام سیکھنا
چاہتا ہے۔
ایک روز ماں زیادہ جذباتی ہوگئی، اس نے کہا کہ میں سائیکل فروخت کردوں گی،
بارہ سالہ بیٹے نے کہا، ایسا سوچا تو میں سائیکل کے پُرزے کر دوں گا۔ بات
بڑھی، ماں کو غصہ آیا، بچے پر اس کا زور تو نہ چلا ، اس نے دیوار میں ٹکریں
ماریں، شاید بچے کو خیال آجائے، شاید اس سے ماں کے دل کا غبار نکل جائے۔
مگر دونوں طرف کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی، نہ بچے کا دل نرم ہوا، اور نہ
ماں کو سکون ملا، بلکہ وہ بچے کی بے حسی کی وجہ سے اور بھی دلگرفتہ ہوگئی۔
ہمارے گھر کام کرنے آئی تو اس نے خاتون اول کو اپنے سرمیں لگی چوٹیں
دکھائیں، جگہ جگہ ابھار بنے تھے، وہ درد سے کراہ رہی تھی، اسے چکر بھی آرہے
تھے۔ گھر جا کر معلوم ہوا کہ بچے کا ایک کزن ملتان میں کسی دکان پر کام
کرتا ہے، اس نے ہی اپنے کزن کو غلط بیانی کر کے ورغلایا ہوا ہے، وہاں زیادہ
تنخواہ اور کھانے پینے کی کہانی بھی ساتھ ہے، حقیقت میں ایسا نہیں، مگر بچہ
مکمل طور پر جھانسے میں آ چکا ہے۔ گزشتہ روز ماسی نے خاتونِ اول کو اطلاع
دی کہ آج میں نے اپنے بیٹے کو بہت زیادہ مارا ہے، اس کی خالہ درمیان میں
آئی تو اس کے بھی لگ گئیں، واضح رہے کہ اسی خالہ کا بیٹا ہے جس نے ملتا ن
کا چکر چلا یا ہوا ہے۔ اسی قسم کی مارکا دور دو روز سے چل رہا ہے۔
ماں تو اپنا غصہ نکال رہی ہے، مگر نتیجہ کیا ہوگا؟ اب خالہ اور بھانجا آپس
میں مل بیٹھیں گے، کیونکہ دونوں اب فطری اتحادی ہیں، دونوں متاثرین ہیں،
اور یہ بھی کہ تیسرے فریق (یعنی بچے کے کزن) کا تعلق بھی اسی پارٹی سے ہے۔
اب اس مار سے تنگ آکر لڑکاگھر سے بھاگ جائے گا، پہلے تو یقینا وہ اپنے کزن
کے پاس ہی جائے گا، جس کے ساتھ معاہدہ طے پا رہا ہے، وہاں اسے وہ سہولتیں
دستیاب نہیں ہونگی، جن کے خواب دکھائے گئے ہیں، خوابوں کی تعبیر نہ پا کر
وہ مایوس ہونے لگے گا۔ اپنی ماں کا گھر تو وہ پہلے ہی چھوڑ چکا ہوگا، اب
اپنے کزن کا گھر بھی چھوڑے گا، اس کے بعد کی منزل کا اسے خود علم نہیں کہ
کہاں جانا ہے۔ بھٹکتے بھٹکتے بالآخر کسی نہ کسی محنت مزدوری پر لگ سکتا ہے،
یا نوعمری میں مناسب فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے گمراہی کے گڑھے میں گرسکتا ہے۔
کسی گینگ کا ساتھی بن کر جرائم کی دنیا میں بھی اتر سکتا ہے۔ وہ نشے کا
عادی بھی ہو سکتا ہے، کہ آوارہ گردی کا انجام جرم اور نشہ ہی ہوتا ہے۔ ان
تمام اقدامات کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان دلدل میں دھنستا جاتا ہے،
مگر کبھی اپنے گھر کی طرف کم ہی لوٹتاہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حکومتی
اعلانات اس قسم کے بچوں تک شاید نہیں پہنچتے۔ اگر کوئی تعلیمی پالیسی
سنجیدگی سے نافذ ہو جائے تو ایسے بچوں کا مستقبل سُدھر سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ
اس بچے کو محفوظ رکھے، اس کے بعد کیا ہوا، (یا کیا ہوگا) یہ کسی آنے والے
کالم میں ۔
|