رئیس الجامعہ کی بصیرت!

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے تین کیمپس ہیں، اولڈ کیمپس (اسے عباسیہ کیمپس بھی کہا جاتا ہے) ، ریلوے روڈ کیمپس اور بغداد الجدید کیمپس۔ اولڈ کیمپس ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یونیورسٹی کا اولین کیمپس ہے، یہی ’جامعہ عباسیہ‘ تھی اور اسی کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔ دوسرا ریلوے روڈ پر مختصر سا کیمپس ہے، جہاں اِکا دُکا ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں اور بہت وسیع وعریض اور میلوں رقبے پر پھیلا نیا کیمپس بغداد الجدید ہے، جہاں یونیورسٹی پوری آب وتاب کے ساتھ تشنگانِ علم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں اولڈ کیمپس کی تکونی (بیرونی) دیوار برقی قمقموں سے جگمگا رہی تھی، صدر دروازے پر بھی چراغاں تھا۔ تیز روشنی میں آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ اگلے روزدن کے وقت وہاں سے گزر ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پوری دیوار پر تعمیر میں بنے چوکھٹوں میں رنگ برنگی تصاویر لگی ہیں، ان تصاویر میں سبزہ ہے، پھولوں سے بھرے گملے ہیں، درختوں کے جھرمٹ میں عمارات ہیں، وسیع لان ہیں، بلندوبالا درخت ہیں۔ چند تصویریں ہیں،مگر ایک کی کئی کئی کاپیاں ہیں، یوں جانئے کہ پندرہ تصویروں کو درجنوں مرتبہ لگایا گیا ہے، فلیکس کو لکڑی کے گولے سے دیوار کے ساتھ کیل لگا کر مضبوطی سے چسپاں کردیا گیا ہے۔ یکدم تو خوش کن ماحول بنتا ہے، دیکھنے والوں کی آسانی کے لئے ہر تصویر میں ’’وائس چانسلرز ہاؤس‘‘ یا ’’وائس چانسلرز آفس‘‘ وغیرہ بھی لکھ دیا گیا ہے ۔

بہاول پور شہر خوبصورتی اور تاریخی پس منظر میں پنجاب کا شاید دوسرا خوبصورت شہر ہے۔ یہاں سے قومی اسمبلی کے ممبر انجینئر ہیں، وفاقی حکومت نے انہیں تعلیم کی وزارت دے رکھی ہے، شہر کے دو ایم پی ایز میں سے ایک ڈاکٹر ہیں، دوسرے وکیل ہیں اور صوبائی حکومت نے انہیں ایک وزارت بھی عنایت کر رکھی ہے۔ یہاں لاہور ہائی کورٹ کا بینچ ہے، یہاں چیمبر آف کامرس ہے، میڈیکل کالج ہے، بے شمار تاریخی نوعیت کے تعلیمی ادارے ہیں۔ اولڈ کیمپس کے گیٹ سے پچاس فٹ پر ڈویژن کا سب سے بڑا کالج ہے، یہاں سے نصف کلومیٹرپر خواتین یونیورسٹی ہے، اسی گیٹ سے تیس میٹر دور بہاول پور پریس کلب ہے۔اس شہر میں علم و ادب کی کہکشاں ہے، نامور اور ایوارڈ یافتہ لوگ یہاں رہتے ہیں، ’’سول سوسائٹی‘‘ کا کلچر بھی موجود ہے۔ کالم نگار اور دانشور بھی رہتے ہیں، انجمن تاجران ہے، اور بھی زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ مگر کسی کی نگاہ ان دیواروں پر نہیں پڑی، کہ جس ادارے نے تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے ملک کی مستقبل میں باگ ڈور نونہالانِ وطن کے حوالے کرنی ہے، جس ادارے کا فرض یہ ہے کہ وہ تھینک ٹینک بنائے اور قوم کی ہر شعبہ میں رہنمائی کرے، کیونکہ عملی میدان تو باہر ہے۔ پروفیسر، انجینئر، صحافی، تاجر اور بھی بے شمار لوگ عملی طور پر تو میدان میں ہیں، مگر وہ اس ادارہ سے ڈگری لے کر ہی معتبر قرار پاتے اور مقاماتِ بلند حاصل کرتے ہیں۔ بہاول پور میں صفائی مثالی ہے، سڑکیں دو رویہ اور سر سبز ہیں، درمیانی جگہ پر پھولوں کی کیاریاں جاذبِ نظر ہیں۔

دیوار پر لگی بیسیوں تصویروں کو دیکھ کر انسان یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ آخر یونیورسٹی انتظامیہ کوکیا سوجھی کہ اس نے پوری دیوار پر رئیس الجامعہ کے دولت خانے اور دفتر کی بیرونی تصاویر لگا دیں۔ یہ کس زرخیز ذہن کا تروتازہ تخیل تھا، جس میں رنگ بھر کر دیواروں کو بارونق بنا دیا گیا؟ ان تصاویر کا مقصد کیا ہے؟ اگر دیواروں کو خوبصورت بنانا ہی مقصد تھا تو یہاں یونیورسٹی کے شعبہ جات کی تصاویر لگ سکتی تھیں، بغداد الجدید کیمپس میں عالیشان لائبریری بھی ہے، زبردست آڈیٹوریم بھی ہے، خوبصورت مسجد بھی ہے، تمام شعبہ جات کی خوبصورت اور دلکش عمارتیں ہیں۔ یہ کیمپس شہر سے کافی باہر ہے، یہاں کے عام لوگوں کے لئے یہ چیزیں نئی ہوتیں، پرکشش ہوتیں، حیران کن ہوتیں، لوگ ان سے آشنائی حاصل کرتے، خوش ہوتے کہ ہمارے ہاں بھی عظیم الشان اور قابل ِ فخر مادرِ علمی موجود ہے۔ گھر اور دفتر کی تصویریں تو آگئیں، مگر گھر والے کی تصویر کہیں نہیں آئی۔لوگوں کو معلوم ہوتا کہ ان سبزہ زاروں میں شان وشوکت سے کونسی شخصیت مقیم ہے؟ ستم تو یہ ہے کہ شہر کا شہر بے حسی کا بُت بنے، مادرِ علمی کی دیواروں پر بے مقصد تصویریں دیکھ رہا ہے، جامعہ اسلامیہ کے یہ ’وائسرائے‘ اس خوبصورت اور تاریخی شہر کے تعلیم یافتہ اور مہذب باسیوں کو ’’فول‘‘ بنا نے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا جامعات کو عملی رہنمائی کی بجائے اپنی اس طرح کی اداؤں پر غور نہیں کرنا چاہیے؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.