ساس کچھ دنوں سے کافی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ بیٹےکے
پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ پوچھتا۔ ایک دن بہو نے پوچھا امی آپ کیوں پریشان
اور دکھی ہو رہی ہیں۔ ایک دن تو بیٹیوں کو بیاہنا ہی ہوتا ہے۔ انہیں پرائے
گھر بھیجنا ہی پڑتا ہے۔ جیسا کہ آپ اور میں بھی تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر
پرائے گھر میں آئیں تھی اور اب یہی ہمارا گھر ہے۔ ۔ ۔
نہیں بیٹا میں اپنی بیٹی کے پرائے گھر میں جانے کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں۔
میں تو اس لیے پریشان ہوں کہ اس کے سسرال والوں نے جو منہ پھاڑ کر لاکھوں
کا جہیز مانگ لیا ہے وہ کہاں سے پورا ہو گا۔ لوگ تو بالکل بھی خدا کا خوف
نہیں کرتے۔ بھلا بیٹیوں سے بڑھ کر بھی کوئی قیمتی شے ہوتی ہے۔ لیکن لوگوں
کو تو بس چیزوں سے محبت ہے انسانوں کی تو کوئی قدر ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔
ماں جی یاد ہے جب آپ نے اپنے بیٹے کی شادی کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!! میری ماں
بھی اُس وقت ایسے ہی دکھی اور پریشان ہوئی تھی۔ میرا باپ تو اب بھی میرے
جہیز کا قرض چکا رہا ہے۔ |