بے چینی

عام طور پر انسان گھبراہٹ ،بے چینی یا نروس ہونے کے سبب اپنے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ کیا افتاد آن پڑی ہے اب کیا کروں کہاں جاؤں کس سے مدد مانگوں وغیرہ جیسے خیالات دماغ میں ہتھوڑے کی ضربیں لگاتے ہیں اور کمزور دل افراد پسینے میں شرابور ہو جاتے ہیں کئی لوگ تمباکو نوشی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں تو کچھ خوف اور غصے میں آکر دیگر انسانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جو اچھا عمل نہیں کہلاتا۔اصل میں نروس ہونا یا بے چینی کوئی بیماری نہیں بلکہ اچانک رونما ہونے والے واقعات ،حادثات کے علاوہ امتحانی مراکز یا انٹرویوز دیتے ہوئے اکثر لوگ بے چین یا نروس ہو جاتے ہیں جو ایک عام سی بات ہے کیونکہ اندرونی کشید گی بے چینی میں مبتلا کرتی ہے جس سے انسان نروس ہوجاتا ہے کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟اعصابی دباؤ ،مسلسل اندرونی جلن ،ایک کے بعد ایک سیگریٹ پینا،ماتھے پر شکنیں ،غصے کی لہریں ،امتحان کی تیاری،ٹیسٹ، علیحدگی،شفٹنگ ، بچوں کے مسائل اور دیگر بے شمار دنیاوی مسائل انسان کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں ،لیکن انسان کو سوچنا چاہئے کہ دنیا ہے اور دنیا میں سب کچھ چلتا ہے یا چلایا جاتا ہے مثلاًامتحان میں کامیاب بھی ہو گیا،ٹیسٹ بھی پاس کر لیا،علیحدگی بھی نہیں ہوئی،شفٹنگ بھی ہو گئی،بچوں کے مسائل بھی رفتہ رفتہ حل ہو گئے،دنیا داری بھی قائم رہی اور زندگی اپنی ڈگر پر رواں ہو گئی لیکن اس سے قبل یا دوران مسائل ان کو حل کرنے کیلئے جو پاپڑ بیلے گئے کیا کیا جتن کئے گئے وہ کوئی اور نہیں جانتا وہی جانتا ہے جو ان حالات کا شکار تھا۔دوسری بات توازن کی ہے جسے ہر کوئی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان طویل عرصے تک بے چینی میں مبتلا ہے نروس ہے،دوسروں کی باتوں پر توجہ نہیں دے سکتا اہم معاملات کو ہینڈل نہیں کر سکتا جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے شکوک و شبہات میں مبتلا ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ کشیدگی اور پریشانی ہے جو اسے بے چین کئے ہوئے ہے،کشیدگی اور آرام میں توازن لازمی ہے لیکن کیسے؟کئی افراد مسائل کو حل کرنے کی بجائے دور بھاگتے ہیں یعنی آج کا کام کل پر چھوڑ دینے کی عادت ہوتی ہے آج بجلی یا فون کے بل کی ادائیگی کی آخری تاریخ ہے لیکن اسے ایک مسئلہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا لیکن دوسرے یا تیسرے دن یہی مسئلہ بے چینی میں بھی مبتلا کرتا ہے اور انسان ایک خود کار مشین کی طرح بے چینی محسوس کرتا ہے کہ کچھ ہے لیکن کیا ہے؟دماغ میں ہلچل مچی رہتی ہے یاد آنے پر کہ اب فون یا بجلی کاٹ دی جائے گی تو بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے یہ سب سے بڑی غلطی ہے اور نتائج یہ کہ نیند نہیں آتی،سوچتا ہے تو پسینہ آتا ہے،سموکنگ جاری رہتی ہے مکمل طور پر اعصابی کھچاؤ اور تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے جسے ہائپر ایکٹیوٹی کہا جاتا ہے کسی بات کو سیریس نہ لینا اور کھیل سمجھ کر نظر انداز کرنا یا روٹین سے نہ چلنا توجہ نہ دینا بے چینی میں ڈھال دیتا ہے۔ بے چینی کی اہم وجوہات انسان کا چیلنج ہیں کیونکہ کئی بار انسان ان دیکھے دشمن اور کئی بار آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعات سے جنگ لڑتا ہے یا کوشش کی صورت میں بے چین ہو جاتا ہے نتائج برامد ہونے تک بے چینی محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ کروں گا ایسا ہوا تو ایسا کروں گا یعنی بے مقصد جنگ جاری رہتی ہے،جیت کا فیصلہ وقت ہی کرتا ہے۔جرمنی کے روزے نیک کلینک کے میڈیکل ڈائریکٹر چیف فزیشن ڈاکٹر الرچ کا کہنا ہے بنیادی طور پر خطرات کی شناخت ہی ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہم سب خطرات میں رہ یا گھر کر ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہیں اور آنے والے خطرات کو چھٹی حس کے توسط سے سمجھ جانے کی صورت میں ان سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں جو ایک پازیٹو عمل ہوتا ہے لیکن کمزور دل افراد اکثر بغلوں میں پسینہ چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بھی ایک نارمل بات ہے،غلط حکمت عملی سے اکثر لوگ شدید نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ پریشانی اور کشیدگی میں برداشت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور منفی سوچ سے دیگر افراد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ماہرین نے چند تجاویز پیش کی ہیں کہ مثلاً سب سے پہلے انسان کو سوچنا چاہئے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ میں ان حالات میں کس مقام پر ہوں میری کیا پوزیشن ہے کیا میں ان معاملات میں دخل اندازی کا حق رکھتا ہوں ان باتوں کا جواب اسکا ذہن اور شعور خود دے گا۔دوسری بات باریک بینی سے یہ بھی سوچا جائے کیا یہ سب کچھ میری مرضی سے ہو رہا ہے یا میں مجبور ہو کر حالات اور دوسرے لوگوں کے دباؤ میں آکر اپنا کردار ادا کر رہا ہوں۔ضروری اور غیر ضروری پوائنٹس کی فہرست بنانا لازمی ہے تاکہ موازنہ کیا جائے کیا تخلیقی ہے اور کیا تخریبی۔فل کونفیڈینس اور وِل پاور سے مثبت عوامل کو بڑھایا جائے اور اس صورت میں آپ کسی کی مدد کے محتاج نہیں ہونگے۔ٹائم فریم سیٹ،اعتدال پسندی،منصوبہ بندی،حقیقت پسندی،اور تخلیقی مقاصد آپ کی سوچ میں بے چینی نہیں بلکہ مثبت روشنی پیدا کریں گے اور آپ انہیں پھیلا سکتے ہیں جس سے ہر انسان کا بھلا ہو سکتا ہے۔

 

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226016 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.