سرگودھا کی عدالت میں 20مریدوں کو قتل کرنے والے پیروں کا
کیس زیر سماعت ہے۔ قاتوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیر و مرشد کے لہنے پر کچھ
بھی کر سکتے ہیں۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مقتولین کو زندہ بھی کر سکتے ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک اور مضحکہ خیز ڈرامہ ہے۔ جس کے کردار پاکستان ہی نہیں
بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ
دیش میں ان کا راج ہے۔ یہ جعلی پیروں کے دھندے ہیں۔ جن کے اشارے پر ان کے
مرید کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا کے عجیب قاتل ہیں جو کسی کا قتل
یا کسی پر تشدد بخوشی اور فریق ثانی کی رضا و رغبت سے کرتے ہیں۔ قتل سنگین
جرم ہے۔ کیا کسی کی مرضی سے کوئی جرم کرنے کی کھلی چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ کسی
کو بے آبرو کرنا بھی سنگین جرم ہے لیکن مغربی معاشرے میں اگر رضا اور مرضی
سے سرزد ہو تو اسے جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ طریقہ انسانیت پر
طمانچہ ہے۔
سرگودھا میں عدالت کے سامنے پیر نے کہا کہ وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔ اس
کی ہتھکڑیاں کھول دی جائیں تو وہ ایک ٹھوکر مار کر بیس افراد کو زندہ کر
سکتا ہے۔ قاتل کا کہنا ہے کہ مرنے والے اس کے بیٹے تھے ۔ جو بڑے پیر کے لئے
قربان کر دیئے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب جنت میں پہنچ چکے ہیں۔ جب چاہوں گا
انہیں واپس بلا لوں گا۔ ایک قاتل نے کہا کہ اسے غصہ آیا اور وہ آگ اور دجا
ل بن گیا۔ ایک پیر نے کہا کہ اس کی قتل کے سازش کرنے والوں کو مارا گیا۔
اگر کسی نے کسی کے قتل کی سازش کی تو یہ پیر اپنا قانون کیسے نافذ کر سکتے
ہیں۔ یہ ملک کے قانون کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے کہ کوئی قانون کو اپنے ہاتھ
میں لے کر درجنوں افراد کو شک پر قتل کر دے۔ قاتل پیر پولیس کو بھی دھمکیاں
دے رہا ہے کہ اگر اس کے ساتھ سختی کی تو اچھا نہ ہو گا۔ یہ مثال صرف
سرگودھا کے نواحی چک 95شمالی میں دربار علی محمد گجر کی ہی نہیں بلکہ ملک
میں ہر جگہ درباروں پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ قتل بھی ہوتے ہیں لیکن خاموش
رہتے ہیں۔ پیر کے ڈر سے کوئی زبان نہیں کھولتا۔ کئی پیر لوگوں کو برہنہ
کرتے ہیں۔ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی عزتیں نیلام کرتے ہیں اور بچ جاتے
ہیں۔ کوئی مدعی بننا گوارا نہیں کرتا۔ کیوں کہ پیر اسے نقصان پہنچائے گا۔
پیر کو خدا کا درجہ دینے والوں کا انجام بھی یہی ہو سکتا ہے۔ کوئی انسان
جتنا بھی پہنچا ہوا ہو ، وہ خدا نہیں بن سکتا۔ خدائی کا دعویٰ فرعون اور
نمرود نے کیا۔ شیطان نے یہ دعویٰ کیا۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے شیطان کے
پیروکار ہیں۔ پیر لوگوں پر تشدد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ گناہوں کو دھو
رہے ہیں۔ کوئی پیر کہتا ہے کہ ڈنڈے جنات کو لگ رہے ہیں۔ انسان کو نہیں۔ جن
نکالنے کا یہ دھوکہ بھی عجیب ہے۔ سرگودھا میں بھی مریدوں کو برہنہ کر کے
مارا گیا۔ انہیں شراب پلا کر ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کیا گیا۔ مرنے والوں
کے ورثا بھی خاموش ہیں۔ وہ بھی مدعی بننے سے ڈر رہے ہیں۔
پاکستان ، بھارت، کشمیر اور دیگر خطوں میں زیادہ تر لوگ اندھی تقلید پر
یقین رکھتے ہیں۔ یہاں پیروں کا راج ہے۔ پیر اگر دماغی توازن کھو بیٹھا ہے
اور لوگوں کی مار پیٹ کرتا ہے یا انہیں گالیاں دیتا ہے تو اسے بڑا اور
پہنچا ہوا پیر کہا جا تا ہے۔ جو جس قدر بہکی باتیں کرے اسے اسی طور پر عزت
و احترام دیا جا تا ہے۔ یہاں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں لوگوں نے اپنے جنت
اور بہشتی دروازے تک تعمیر کر رکھے ہیں۔ اپنی اپنی درگاہیں اور زیارت گاہیں
تعمیر کی گئی ہیں۔ جہاں حاضری دینے والوں کو بگڑی سنوارنے، حاجتیں پوری
کرنے اور مال و اولاد سے نوازنے کے دھوکے دیئے جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آج کے
تعلیم یافتہ دور میں اور تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی نے انسان کو ترقی کے
بجائے کس طرح زوال کی جانب دھکیل دیا ہے۔ جو سائنس صرف دلیل اور تجربے اور
عمل پر یقین رکھی ہے اسی کے دور میں پڑھے لکھے لوگ بھی دقیانوسی باتیں کرتے
ہیں۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی بھی ھاجت روا نہیں۔ کوئی بگڑی کو
سنوار نہیں سکتا۔ کوئی اولاد نہیں دے سکتا۔ البتہ آج ماں کے شکم میں بچی ہے
یا بچہ، اس ک کا پہلے ہی پتہ لگانا آسان ہو چکا ہے۔ لیکن ایک اندازے کے
مطابق پیسے کی لالچی ڈاکٹر اور طبی عملہ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور
کلنکوں میں ابارشن سے سیکڑوں بچیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا
نہیں۔ یہ اس دور کا زمانہ جاہلیت ہے۔ جہاں انسان من مانی کر رہا ہے۔ یہ پیر
کون ہیں۔ کیوں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ لوگ کیوں ان سے دھوکے کھاتے ہیں
اور اپنی مرضی سے لٹ جاتے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ
کسی پیر نے اس کو اولاد یا مال و دولت سے نوازا ہے۔ کیوں کہ یہ سب اس کے بس
کی بات نہیں۔ زندگی اور موت صرف اﷲ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ عزت اور زلت بھی
اسی زات کے ہاتھ میں ہے۔ جو پیر بن کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں وہ اصل میں
خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ جو بھی پیروں کے دعوے کو سچا قرار دے یا ان کی
کسی بھی طرح سے معاونت کرے، وہ ان کے خدائی دعوے میں برابر کا شریک ہے۔
بھارت میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جب مندروں پر دیوی دیوتاؤں کے لئے
چڑھایا ہوا نذرانہ ، لوٹ لیا گیا۔ مندروں کے پجاری ارب پتی بن چکے ہیں۔ اسی
طرح زیارتوں کے گدی نشین بھی ارب پتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی
عوام کو بے وقوف بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تا کہ نذر نیاز سے ان کے وارے
نیارے ہوں۔ یہ کاہل اور کام چور لوگ ہیں۔ یا جعلی سازی میں ہنر مند جو عوام
کو لوٹنے میں ڈگریاں رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مذہب اور فرقے بنا رکھے ہیں۔
سب کا مقصد لوٹ مار ہے۔ لوگوں کی عزتوں اور مال پر ہاتھ کی صفائی دکھاتے
ہوئے یہ باعزت بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کے حجروں اور زیارت گاہوں
میں تسکین پانے کا ٖڈرامہ کرتے ہیں وہ ایک منٹ آنکھیں بند کریں اور غور
کریں کہ ان کے اس پیر نے انہیں کیا دیا۔ یا اس پیر کی شمولیت سے ان کی دعوت
میں کیا برکت ہوئی۔
سرگودھا میں جو ہوا، وہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی لوگ قتل ہوئے۔ پیر
نے جنات نکالنے کے بہانے لوگوں کی عزتیں تار تار کیں۔ انہیں سونے چاندی سے
محروم کیا۔ مال و دولت وہ لے اڑے۔ ضعیف الاعتقادی کیا ہے۔ یہ سب جہالت ہے۔
جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں بڑھ رہی ہیں۔ لوگ پڑھے لکھے ضرور ہیں لیکن
وہ ڈگری یافتہ ہیں۔ یہ گدی نشین کیا ہیں۔ لوگوں کیسے دھوکہ دیتے ہیں۔ حکومت
کیوں خاموش ہے۔ لوگ کیوں پیری مریدی کے چکروں مین پھنستے ہیں۔ کوئی انسان
رزاق نہیں۔ کوئی حاجت روا نہیں۔ کوئی مشکل کشا نہیں۔ لوگ پیروں ، گدی
نشینوں، زیارتوں، درگاہوں، درباروں کے چکروں میں پھنسیں گے تو یوں ہی بے
موت مارے جائیں گے۔
|