تحریر:مکل دوبے،scroll.in
ترجمانی:امتیازشمیم ندوی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
جس ملک کی دوتہائی آبادی گوشت خورہو،اس ملک کوسبزی خوریاشاکاہاری
کہنایاایساکہنے پر اصرارکرنا کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے؛لیکن افسوس کی بات ہے
کہ ہم اِن دنوں اسی قسم کی مضحکہ خیزیوں سے دوچارہیں۔ہندوستان دنیاکاواحد
ایسا ملک ہے،جہاں کسی اہم کھانے کی دعوت،شادی یاپارٹی کے بعداس قسم کے جملے
سننے کوملتے ہیں کہ ’’یارپارٹی بہت اچھی تھی، نان ویج کا انتظام
کیاگیاتھا‘‘یااس قسم کاسوال بھی آپ اسی ملک میں سن سکتے ہیں کہ’’آپ ویج ہیں
یا نان ویج؟‘‘،یہاں لفظِ ’’نان ویج‘‘(non-veg)اسم اور صفت( Noun and
Adjective) دونوں حیثیتوں سے استعمال ہوتا ہے، پہلی صورت میں اس کا استعمال
(کسی جانور کے)گوشت، مچھلی اور مرغ وغیرہ کے گوشت کے لئے ہو تاہے،یعنی ہر
جاندار شئی (جو اپنامستقل وجود رکھتی ہے)خواہ وہ کچھ بھی ہووہ’’ویج‘‘میں
شمار نہیں ہوگی، جبکہ اتفاق سے انگلینڈ میں لفظ ’’ویج‘‘کا استعمال ’’ویجیٹرین‘‘(سبزی
خور)کے معنی میں نہیں ؛بلکہ’’ویجیٹیبلس‘‘کے مخفف کے طور پریعنی ترکاری اور
سبزی کے معنی میں ہوتا ہے اور عام طور سے گوشت، آلو اور دو قسم کی سبزی و
ترکاری والے کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔1970 کی دہائی کے آخری سالوں میں
میری انگلستانی گرل فرینڈ تب بہت ہنستی تھی، جب وہ ہندوستانیوں کو اپنے آپ
کو ویجیٹیبلس (سبزیاں) کہتے ہوئی سنتی تھی’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ
خود ایک بینگن کی طرح دِکھتی تھی‘‘۔
اگست 2006 کے Hindu-CNN-IBN State of the Nation Survey میں یوگیندر یادو
اور سنجے کمار نے ہندوستان میں کھانے پینے کے طور طریقوں اور یہاں کی غذائی
اشیا پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ’’سروے کے نتائج یہ بتلاتے ہیں کہ صرف30
فی صد ہندوستانی سبزی خور ہیں،اعدادوشمار کے مطابق 21فی صد تعداد ایسے
خاندانوں کی ہے ،جن کے تمام ممبران سبزی خور ہیں‘‘۔یہ تو موجودہ صورتحال
ہے،جبکہ تاریخ دانوں نے تو یہ لکھا ہے کہ قدیم ہندوستان کے لوگ، جن کا آغاز
برہمنوں سے ہوتا ہے، مویشی (کا گوشت کھانے) کے ساتھ ساتھ (دیگر) مختلف
قسموں کے گوشت بھی کھاتے تھے،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو ایک سبزی خور ملک
کہنا، جب کہ دو تہائی سے زیادہ ہندوستانی گوشت کھاتے ہیں، حماقت اور بے
وقوفی ہے؛ لیکن اس کے باوجودیہاں سبزی خوری کوایک عام رائج دستورسمجھا جاتا
ہے، اس کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور مذہب و ذات پات کو بنیاد بنا کر اس
کودوسروں پرتھوپنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔
قابلِ ملامت و مذمت جرم:
انگریزی میں لفظِ"Non"ایک سابقہ ہے، جس کا استعمال کسی بھی چیزکی نفی یا
عدمِ وجود کو بتلانے کے لیے ہوتا ہے، مثال کے طور پر "Non-combatant" (غیر
جنگجو)اور "Nonsense"(بکواس) اور ان جیسے دوسرے الفاظ ، اس کا استعمال کسی
منفی وصف یا کسی قاعدہ کلیہ یا مسلمہ دستور سے انحراف کو بتانے کے لیے بھی
ہو سکتاہے، جیساکہ "Non-attractive"(غیرپر کشش)میں ہوا ہے۔اسی سے معلوم
ہواکہ کسی ہندو ملک میں ایک"Non-Hindu"منحرف یا باغی سمجھاجائے گا، ہمارے
ملک میں چوں کہ سبزی خوری کو غلطی سے ایک کلیہ اور مسلمہ دستور (norm)تصور
کیا جاتا ہے؛ اس لیے جو لوگ گوشت کھاتے ہیں انھیں "nonvegitarian"کہا جاتا
ہے،گویاغیرمحسوس طورپر اس لفظ میں ایک منفی مفہوم ٹھونس دیاگیاہے، وہ یہ کہ
گوشت کھانے کو ایک قابل مذمت و ملامت عمل کی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سے انکارنہیں کہ سبزی خوری بھی پوری دنیا میں عام اور رائج ہے اوراس کو
ایک غیر نقصان دہ طرزِعمل سمجھاجاتاہے،جبکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ
تقریباً پوری دنیا کے انسان جانوروں، پرندوں کاگوشت اور مچھلیاں کھاتے ہیں،
بحیثیت بنی نوعِ انسان ہم سب(ویدک اساطیرسے قطعِ نظرکرتے ہوئے)ہمہ خور(
Omnivorous)ہیں، یعنی گوشت اور سبزی دونوں چیزیں کھاتے ہیں۔دنیابھرمیں واحد
ہمارا ملک ہندوستان ہے،جہاں "non-vegitarian" جیسالفظ سننے کو ملتا ہے،
ورنہ جو ہندوستانی بیرون ملک جاتے ہیں ،انھیں اس وقت خالی گھورتی ہوئی
نگاہوں کا سامنا کرناپڑتا ہے، جب وہ اس لفظ کو بولتے ہیں۔ کہیں بھی، کوئی
بھی ایسامعقول اورباشعور شخص نہیں ملتا،جویہ کہتاہوکہ وہ گوشت نہیں
کھاتا۔احمدآباد کی ایک گوشت خور فیملی کو ،جو جینیوں کی زیر ملکیت ایک
ہاؤسنگ سو سائٹی میں مقیم ہے، حال ہی میں پے درپے چالیس ایسے خطوط موصول
ہوئے ہیں ،جن میں اس کی بیٹی کو اس کی ’’مجرمانہ‘‘غذائی عادات کی بنا پر
بطور سزا کے ریپ کی دھمکی دی گئی ہے۔ کیا آپ برمنگھم میں مقیم کسی ایسے
پجاری کا تصور کر سکتے ہیں، جس کو اس کی غذائی عادات کی وجہ سے موت کی
دھمکی مل رہی ہو’’آپ کدو کھاتے ہو پنڈت جی،مرناہے کیا؟‘‘۔ |