وَلَا تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْا
الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اور حق کو باطل کیساتھ خلط ملط نہ کرو اورنہ جان بوجھ کر حق کوچھپاؤ(
حالانکہ تم سب جانتے ہو کہ تمہارے اندر کیا چھپاہے) اور ہم بھی اس سے بے
خبر نہیں۔ (سورۃ البقرۃ 2: 42)
حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ۔حق و باطل میں تفریق کرو، صحیح اور غلط میں
تمیز کرو، حق اور باطل، خیر اور شر ایک ساتھ جمع نہ کرو، حق اور باطل ایک
جگہ سٹور نہ کرو۔ جس دل میں بیک وقت حق بھی ہو اور باطل بھی اس کے ایمان پر
شک کیا جائے گا یا نہیں؟ اگر کسی کے پاس حق اور باطل ایک ساتھ جمع ہوتو کیا
کوئی اس کی مسلمانیت پر یقین کرے گا؟ یقیناًنہیں۔اگر تمہارے دل و دماغ اور
تمہارے وجود سے منسلک چیزوں میں حق و باطل ایک ساتھ اور ملا جلا ہے تو
تمہارے ایمان میں بھی شک ہو گا، تمہاری مسلمانیت پر بھی یقین نہیں کیا جائے
گا۔خود سے وابستہ سب چیزوں کو دیکھو، اپنے گھر، مکان، دکان، کمپیوٹر،
موبائل فون، میموری کارڈز وغیرہ میں بھی دیکھو کہیں حق و باطل ملا جلا ایک
ساتھ تو نہیں؟ اگر سب کچھ ملا جلا، آپس میں خلط ملط ہے تو یہ بالکل حق و
باطل ملانے کے مترادف ہے۔ اگر تم سے منسلک چیزوں میں سب کچھ ملا جلا ہے تو
کبھی تم پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ تم حق کو باطل سے الگ کرنے والے ہو۔
اگر تمہارے گھروں میں بیک وقت قرآن بھی ہے اور افسانوی ناول بھی، ڈئجسٹ اور
فرضی قصے کہانیاں بھی ہیں، اور تم پڑھنے کیلئے قرآن کی بجائے ناول و ڈئجسٹ
کو ترجیح دو، اوراپنے قریب کر کے رکھو اور قرآن کی طرف تمہاری نظر نہ جائے
تو سوچو کہ تم کہاں کھڑے ہو؟ کسے خود سے دور کر رہے ہو؟ بے قدری کس کی
ہورہی ہے؟ کسے خود سے دور کر کے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے؟ گویا تمہارے گھر
میں حق و باطل ملا جلا اور ایک ساتھ موجود ہے اور تمہارا جھکاؤ بھی باطل کی
طرف ہے، تمہاری ترجیح بھی باطل ہے، تمہارے قریب بھی باطل ہے اور پھر دعویٰ
بھی کرو مسلمانیت کا، قرآن وسنت پر یقین کا، توکیا یہ خدا کے غضب کو دعوت
دینا نہیں ہے؟
تمہارا دعویٰ ہو کہ تم دل سے پاک صاف اور حق و باطل میں تمیز کرنے والے ہو،
جبکہ تمہارے ہاتھ میں موبائل فون کے اندر سب کچھ ملا جلا ایک ساتھ موجود ہو
۔ تمہارے گھر، تمہارے کمپیوٹرز، میموری کارڈز وغیرہ میں بیک وقت تلاوت قرآن
بھی ہو، حمد و نعت بھی ہو، واعظ اور خطابات بھی ہوں، گانے اور مجرے بھی
ہوں، فلمیں اور ڈرامے اور ننگی فلموں کے کلپس بھی ہوں اور سب ملی جلی سی
ڈیز اور کیسٹس کے انبار لگے ہوں تو کیا یہ حق و باطل ایک ساتھ ملاجلا، خلط
ملط کیا ہوا نہیں ہے؟ یہ تمہارے ظاہر اور باطن میں فرق ہوا یا نہیں؟ یہ
تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے یا نہیں؟ یہ منافقت ہے ، اندر کچھ اور باہر
کچھ، ظاہر اور پوشیدہ اور۔ کسے دھوکا دینا چاہتے ہو ؟ کیا اس رب کو جو
تمہارا ظاہر بھی جانتا ہے اور باطن بھی، جو تمہاری جلوت کو بھی جانتا ہے
اور خلوت کو بھی؟ جو تمہارے وجود سے منسلک ذرہ ذرہ چیز سے واقف ہے کہ اس
میں کیا کچھ ہے۔ تمہارا یہ عمل گواہی دیتا ہے کہ تمہارا یہ یقین ہے کہ باطل
اگر دل میں ہو تو اللہ کو نظر آتا ہے لیکن اگر موبائل فون،کمپیوٹرز، سی
ڈیز، کارڈز وغیرہ میں ہو تو معاذ اللہ اسے نظر نہیں پڑتا ہے ؟ تمہارا خدا
پر عقیدہ کمزور ہے، تمہارا ایمان متزلزل ہے، خدا پر تمہارے یقین میں فتور
ہے۔ ہر وقت تمہاری نظریں کرکٹ میچزاور فیس بک پر ٹکی ہو ، ہر وقت تمہاری
نظریں کھیل کود، موبائل گیمز، ڈرامے ، مجرے، فلمیں، ناچ راگ دیکھنے میں مست
ہو ، لہو لعب ، کھیل اور تماشے کے میدان لوگوں سے بھرے ہوں اور مسجدیں
ویران ہوں تو یہ ایمان کی کمزوری ہے یا نہیں؟
یَایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلِمِ کَافَّۃً
وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌo
اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! اس ایمان اور اسلام میں جس کے دعویدار ہوپورے
پورے داخل ہو جاؤ، تمہاری عافیت اسی میں ہے اور حق و باطل ایک ساتھ خلط ملط
کر کے شیطان کی پیروی نہ کرووہ تمہارا بہت بڑا دشمن ہے۔ (سورۃ البقرۃ 2 :
208)
جو آج دنیا میں حق و باطل میں تمیز نہیں کر رہے۔ جوآج دنیا میں حق کو باطل
سے الگ نہیں کر رہے انہیں آخرت میں یہ ندا ہو گی۔
وَامْتَازُو الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَo اَلْمَ اَعْھَدْ
اِلَیْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَیْطَانَ اِنَّہ‘
لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo وَّ اَِن عْبُدُوْنِیْ ہٰذَا صِرَاطٌ
المُّسُتَقِیْمٌo وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلاًّ کَثِیْرًا اَفَلَمْ
تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَo ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ کُنْتُمْ
تُوْعَدُوْنَo اِصْلَوْھَا الْیَوْمَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاہِہِمْ وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَ
تَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
’’ اے مجرموں، اے گناہگارو! آج تم الگ ہو جاؤ ( تم نے دنیا میں حق و باطل
سب ایک ساتھ جمع کیا ہوا تھاآج ان میں تفریق کا دن ہے ) ۔ اے آدم کی اولاد!
ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا ، شیطان کی اتباع نہ
کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری ہی عبادت کرنا، صرف میری
ہی اتباع کرنایہی سیدھا راستہ ہے (مگر تمہارے پاس میرے لیے صرف ایک کھوکھلا
سجدہ تھا اور باقی تمہارے سب طواف شیطان کے گرد تھے)اس ( مردود ) نے تم میں
سے بہت سی خلقت کو گمراہ کر دیا تو کیا تمہیں عقل نہیں تھی۔ ( آج جاؤ ) اس
جہنم کی طرف یہی وہ ٹھکانہ ہے جس کا تم سے وعدہ تھا۔ یہ بدلہ ہے تمہارے کفر
کا، تمہارے حق و باطل خلط ملط کرنے کا ، آج اس میں داخل ہو جاؤ۔ آج کے دن
ہم تمہاری صورتیں بگاڑ دیں گے، تمہارے چہرے مسخ کر دیں گے۔ آج تمہارے ہاتھ
ہم سے بیان کر دیں گے جو تم دنیا میں ہم سے چھپاتے تھے اور تمہارے پاؤں اس
کی گواہی دیں گے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے۔‘‘
جاہل اور کم ظرف ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہ ندا کافروں اور مشرکین
کیلئے ہے۔ کم فہم ملاں لوگوں کویہ دلاسہ دیتے ہیں یہ ندا ہمارے ایمان والوں
کے لیے نہیں ہے کافروں کیلئے ہے۔ ہم تو شفاعت والے ہیں، ہم تو رحمت اور
مغفرت والے ہیں۔ یہ محراب ومنبر والے کم نظر لوگوں کو ڈراتے نہیں صرف خوش
کرتے ہیں کہ یہ خوش ہو کر اپنی اپنی تیجوریوں کے منہ کھولیں اور ہم پر
نچھاور کریں ہم تو گناہوں اور بد عملیوں پر بھی انہیں جنت کی خوشخبری سناتے
ہیں کہ تم بخشے جاؤ گے اور بے فکر کرتے ہیں عمل سے۔یہ صرف یہ کہنے والے ہیں
کہ اللہ معاف کرنے والا ہے کوئی بات نہیں گناہ ہو جاتا ہے بندے سے۔ یہ صرف
نرم لہجہ ، نرم گفتار اور دھیمی بات سے لوگوں کو دلاسہ دیتے ہیں ہر باطل سے
الگ نہیں کرتے ، ہر فسق سے دور نہیں کرتے۔ حق ان پر واضح نہیں کرتے۔ یہ حق
وباطل میں تفریق کر کے لوگوں کو نہیں دکھاتے۔ اگر یہ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی
غلطیوں پر سخت لہجہ اپنائیں تو قوم سدھر نہ جائے۔ ان کے وجود میں وہ سختی
نہیں ہے جو رب کی بارگاہ میں ہے۔ ان کی نظر میں وہ باریکی نہیں ہے جو رب کی
عدالت میں ہے۔یہ خالی بھانڈے صرف پڑے نظر آتے ہیں اندر ان کے وجود میں کچھ
نہیں، ان کی نظر صرف ظاہر پر جاتی ہے باطن پر نہیں۔
گرفتم حضرتِ ملا ترش روست
نگاہش مغز را آشنا سد از پوست
اگر باایں مسلمانی کہ دارم
مرا از کعبہ می راند حق اوست
لوگو! سن لو، یہ ندا کافرو مشرک کیلئے نہیں ہے۔ یہ ہم جیسے ملے جلے دوغلے
معیار کے لوگوں کیلئے ہے جن کا نہ حق ظاہر ہے نہ اندر چھپا باطل۔ اگر یہ
ندا کافر و مشرک کیلئے ہوتی تو ہاتھ اور پاؤں کی گواہی کی کیا ضرورت تھی۔
جو ہے ہی ایک طرف کا، جو ہے ہی ایک سمت کا، جو سرے سے ہے ہی باطل پر ، جو
سرے سے سینہ تان کے کھڑا ہی حق کی مخالفت میں ہے اس پر گواہ لانے کی کیا
ضرورت پڑتی ہے؟ کیا فرعون کیلئے بھی گواہی کی ضرورت ہے ؟ کیا شداد و ہامان
کیلئے بھی گواہی کی ضرورت ہے؟ کیا ابو جہل ، ابو لہب کیلئے بھی گواہی کی
ضرورت ہے؟ کیا یزید جیسے کمینے شخص کیلئے بھی گواہی کی ضرورت ہے کہ وہ حق
پر تھا یا باطل پر؟ کسی ظاہری مجرم کیلئے گواہ کی ضروت نہیں ہوتی، گواہ
ہمیشہ اس پر لایا جاتا ہے جو جھوٹ بول رہا ہو، جو اندر چھپی بات ظاہر نہ کر
رہا ہو، اور کہہ رہا ہو میں حق پر ہوں، میں تو تیرا کلمہ پڑھتا تھا، نمازیں
پڑھتا تھا ، روزے رکھتاتھا۔ تیرے رسول ﷺ کی اتباع کرتا تھا۔ اس پر اللہ
کریم اس کے ہاتھوں سے فرمائے گا بیان کر اس کا جھوٹ کہ اس نے کتنی اتباع کی
میرے رسول ﷺ کی، کتنے میرے حکم مانے، کتنی میرے قرآن کی پیروی کی۔ اور پھر
اس کے قدموں سے فرمایا جائے گا تو بھی ذرا گواہی دے نا اس پر، یہ کرتا کیا
تھا دنیا میں اور ہمیں دیکھا کیا رہا ہے۔ یہ ہمیں دھوکا دینا چاہتا ہے، یہ
سمجھتا ہے کہ ہم بے خبر تھے، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہمارا ظاہر کیا تھا اور
باطن کیا تھا۔وہاں تو آنکھیں بول اٹھیں گی کہ اے رب کریم! تو نے مجھے اسے
راہ حق دیکھنے کیلئے دیا اور یہ مجھ سے کیا کیا دیکھا کرتے تھے، اس نے مجھے
مسجد کا راہ دیکھنے کی بجائے فیس بک پر ٹکائے رکھا، کھیل تماشا کے میدان،
ناچ راگ اور فلم بینی میں مشغول رکھا اور تیرے ذکر و فرمانبداری کی طرف
نہیں گیا۔ وہاں تو زبان بول اٹھے گی کہ رب کریم! تو نے مجھے اسے حق بولنے
کیلئے دیااور مجھ سے اس نے گالیاں بکیں، جھوٹ بولے، لوگوں کو دغا دئیے۔
وہاں تو کان بھی بول اٹھیں گے کہ اے رب کریم! تونے مجھے اسے حق سن کر عمل
کرنے کیلئے دیا، اس نے مجھ سے موسیقی گانے سنے، کھیل تماشا کے میدان سے
کمنٹری سنی، بد گفتار ڈرامے سن کر دل بہلایا تیری یاد سے نہیں۔ اس کی
بارگاہ میں تو جسم کا ہر ہر گوشہ ہر ہر بال گواہی دے گا۔ اے حق و باطل کو
خلط ملط کرنے والو! تم بچ نہیں پاؤ گے قہار کے قہر سے ، جبار کے جبر
سے،عادل کے عدل سے،منتقم کے انتقام لینے سے،ضار کے ضرر سے، سخت کی سختی سے،
باریک بین کی باریک بینی سے۔
اگر تم خدا پر یقین رکھتے ہو اور اس کو حاظر و ناظر مانتے ہو تو تمہارا
ظاہر اور باطن پاک صاف اور ایک جیسا ہونا چاہیے۔ حق و باطل کے مقابلہ میں
تمہاری پوزیشن، تمہاری سمت واضح ہونی چاہیے۔ یا حق رکھو یا باطل، یا حق کا
ساتھ دو یا باطل کا۔ اگرتمہارا یقین، تمہارا جھکاؤ حق کی طرف ہے تو باطل
چھوڑ دواور اس سے دور رہو بلکہ اس سے اعلان جنگ کرو اور خدا کی کائنات سے
اس کا وجود مٹا دو، اور اگر تمہارا جھکاؤ باطل کی طرف ہے تو حق اورمسلمانیت
کا دعویٰ چھوڑ دو تاکہ دنیا پر واضح تو ہو کہ اصل حق والے کتنے ہیں اور
باطل والے کتنے اور ملے جلے حق و باطل والے منافق کتنے؟ اگر تمہارا جھکاؤ
دونوں طرف ہے تم ایک ساتھ حق بھی رکھنا چاہتے ہو اور باطل بھی تو پھر تم
کسی طرف کے نہیں ہو۔ نہ حق والے تم پر یقین کریں گے نہ باطل والے۔ نہ حق
والے تمہیں گلے سے لگائیں گے نہ باطل والے، تم نہ اِدھر کے رہو گے نہ اُدھر
کے۔ دونوں تم سے کترائیں گے کہ یہ ملا جلا ، دوغلے وجود والا کسی وقت بھی
ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تم دنیا میں کسی دو مخالف گروہوں کے
درمیان رہ کر آزما کے دیکھ لو کہ کون تم پر یقین کرتا ہے دونوں تمہیں دوغلا
منافق کہیں گے کہ اس میں کوئی ایک حتمی فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے، یہ کسی
ایک طرف نہیں ہو رہا۔ دونوں گروہ تم سے محتاط رہیں گے کہ یہ ہمارے راز
اِدھر اُدھر منتقل کر سکتا ہے اور دونوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دوراہے پر کیوں کھڑے ہو یہ منافقوں کا کام ہے؟ دوراہے پر دیکھنا چھوڑ دو
اور اپنی سمت واضح کرو، اپنا ایک رخ متعین کرو، دو کشتیوں کے سوار کا انجام
ہمیشہ ڈوبنا ہوتا ہے۔ دہرے روایے اپنا کر قرآن و سنت کا مذاق مت بناؤ، دہرے
معیار رکھ کر اسلام کو بدنام مت کرو۔دہرے معیار رکھنا منافقت ہے اور منافق
کی سزا کافر و مشرک سے بھی بد تر ہے اگر یقین نہ ہو تو قرآن کھولو اور تلاش
کرو منافق سے متعلق آیات اور رب کا برستاقہر اور غضب، بلکہ تمہیں ایک پوری
سورت مل جائے گی منافقوں کی۔ چند آیات پڑھ کر ہی تمہاری ہوش ٹھکانے لگ جائے
گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا ہے کہ منافق اور دوغلے
معیار والے اسلام کے حقیقی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک اور بدترین دشمن ہیں
اسلام کے اور میرا ان سے اعلان جنگ ہے، میں ان پر ذلت و ناداری مسلط رکھوں
گا، میں انہیں ذلیل اور رسواء کروں گا زمانے میں بھی اور آخرت میں بھی۔
ذرا آنکھیں کھول کے چار سو دنیا میں نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ قدرت کس قوم پر
غضب ناک ہے؟ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ذلیل و رسواء کیوں ہو رہے ہیں؟ خواری و
ناداری کس قوم پر مسلط ہے؟ اس لئے کہ ہم دوغلے معیار والے ہیں، ہم بیک وقت
شیطان کو بھی رکھنا چاہتے ہیں اور رحمان کو بھی۔ ہمارے اس دہرے معیار کی
وجہ سے قدرت ہم سے خوش نہیں ہے، ہمارے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے خدا ہم
سے راضی نہیں ہے بلکہ غضب ناک ہو رہا ہے ہمارے گندے اور دوغلے وجود دیکھ
کر۔ہم ظاہری دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہر باطل کے خلاف ہیں مگر ہمارے اندر سب
باطل چھپا ہے۔ہم حق و باطل میں تفریق کر کے ایک سمت نہیں ہو رہے ، ہم ایک
راستہ اختیار نہیں کر رہے ۔ ہم دوہراے پر کھڑے ہیں کبھی حق کی راہ دیکھتے
ہیں تو کبھی باطل کی، کبھی حق کے کنوں میں نہا لیتے ہیں اور کبھی باطل کے
کنوں میں چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ ہم کوئی ایک فیصلہ نہیں کر پا رہے اس لئے
کمزورہیں ناکام و نامراد ہیں۔ناداری و کم بختی ہم پر طاری ہے، ذلت و رسوائی
ہم پر مسلط ہے۔
ذرا اہل کفر یہود و نصاریٰ کو دیکھیں، ایک طرف ہیں؟ اس کی سمت واضح ہے؟ ان
کا رخ متعین ہے؟ وہ ظاہری بھی حق کے مخالف اور باطنی بھی، ان کے ظاہرو باطن
میں حق و باطل ملا جلا ایک ساتھ نہیں ہے۔ ان کی سمت واضح ہے کہ ہم نے حق سے
لڑنا ہے اور باطل کو فروغ دینا ہے اس لئے ایک راہ پر چل کے کامیاب ہیں اور
ہر لحاظ سے ہم سے آگے ہیں اور زیادہ مضبوط ہیں۔اس سے عبرت لو نادانو۔ اس سے
سبق لو دوغلے معیار والے منافقو۔ ہمیں بھی اگر کامیاب ہونا ہے تو اپنی ایک
سمت واضح کرنا ہو گی۔اپنا ایک رخ متعین کرنا ہو گا۔ ہر باطل کو اپنی ذات سے
الگ کرنا ہو گا، ہر فسق و فجور سے دور رہنا ہو گا۔ہم اپنے قول و فعل کے
تضاد کو ختم کر کے ،اپنے ظاہر و باطن کی تفریق مٹا کر ، اپنی ایک سمت واضح
کر کے یقین اور عزم کے ساتھ راہ حق پر چل کر تو دیکھیں قدرت کس طرح ہم پر
مہربان ہوتی ہیں۔ آج بھی آگ گلزار بن سکتی ہے، آج بھی فرشتے ہماری نصرت کو
اتر سکتے ہیں ہم اپنے سینوں میں ان جیسا ایمان اور یقین پیدا کر کے تو
دیکھیں۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزاء مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
کسی ایک طرف کے ہو کر جیو اور ایک طرف کے ہو کر مرو۔ دونوں اطراف رکھ کر
زمانہ کبھی تمہارے حال پر ترس نہیں کھائے گا،دونوں سمت دیکھ کر قدرت کبھی
تم پر مہربان نہیں ہو گی۔ دنیا میں ذلت و رسوائی، خواری و ناداری آپ کے
سامنے ہے اور جو مار آخرت میں پڑنی ہے اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر
سکتا۔ اللہ کریم نے قرآن میں واشگاف الفا ظ میں نوٹس دے دیا ہے ۔
فَلا تَمُوتُنَّ اِلَّا وُ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo
مر کر میرے پاس نہ آنا مگر ایک طرف کے ہو کے، اپنی ایک سمت واضح کر کے ورنہ
بہت مار کھاؤ گے۔ دوغلی شکلیں لے کر ، دہرے معیار اپنا کر، دہرے روایے رکھ
کر مت آنا میرے پاس ، میں تمہاری دوغلی شکلیں بگاڑ دوں گا، میں تمہارے
دوغلے وجودوں سے جہنم کا آلاؤ بھڑکاؤں گا۔مرنا تو صرف مسلمان ہی مرنا،
معصوم صورت اور شیطان سیرت بن کر نہیں۔
آج کسی ویڈیو سنٹر یا موبائل شاپ کے قریب سے گذریں تو اس پر باطل والے
شیطانی بتوں کے طرح طرح کے پوسٹر لٹکے ہوتے ہیں لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے،
ایمان سے خالی، قہار کے قہر سے بے خوف لوگ آتے ہیں اور یہاں سے اپنی اپنی
کے شیطانی بت خرید کر لے جاتے ہیں۔ اور اندر بیٹھا ہوتا ہے ایک دکھاوے کا
مسلمان، ایمان سے خالی ، خدا کے غضب سے بے خوف مسلمان۔ کہتا ہے الحمد للہ
میں مسلمان ہوں، میں حق باطل میں فرق کرنے والا ہوں، میں اللہ سے ڈرنے والا
ہوں، یہ توبس روزی کا ایک ذریعہ ہے ۔آگ لگا دے ایسی روزی اور روزی خانے کو
جو رسول اللہ ﷺ کی امت کو گمراہ کرے اور گمراہی و ضلالت کے ذرائع فروخت
کرنے کو روزی کا ذریعہ کہے۔ جو لوگوں کو خدا سے بے نیاز و غافل کرے اور
لوگوں میں فحاشی پھیلائے، عریانی پھیلائے اور پھر کہے مسلمان ہوں، میرے
اندر سب کچھ ہے ایمان بھی ہے اور خدا کا خوف بھی۔ سب جھوٹ، اس کا ظاہر تو
نہیں بتا رہا کہ وہ خدا سے ڈرنے والا ہے، وہ حق و باطل میں فرق کرنے والا
ہے۔بنا شیطان کا ایجنٹ بیٹھا ہے، شیطانوں کی مورتیں بیچ کر لوگوں کو خدا سے
غافل وبے نیار اور گمراہ کر رہا ہے ، بیچ جہنم رہا ہے، راستہ دوزخ کا دکھا
رہا ہے اور کہتا ہے میں مسلمان ہوں شرم آنی چاہیے خود کو مسلمان کہتے ہوئے۔
کون یقین کرے گا تیری اس ایمانیت و مسلمانیت پر؟ اور لعنت تیری ایسی روزی
پر جو تو حرام کماتا ہے وہ دوزخ کا ایندھن ہے۔ تو دوزخ کے ایندھن سے پیٹ
پال رہا ہے اپنا اور اپنے بچوں کا بھی۔ کسی بڑے سے بڑے ملاں اور مفتی سے
کہو کہ اس بات کا رد کر دے کہ یہ روزی حرام اور جہنم کا ایندھن نہیں ہے۔
امت کے رہبر پیر و مفتی حضرات پتہ نہیں کہاں سو رہے ہیں یہ سرکش عفریت
معاشرہ کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اور اس کے خلاف ان کی طرف سے کوئی فتویٰ،
کوئی روک تھام کی تدبیر نظر ہی نہیں آتی۔اس شیطانی عمل و فعل کے آغاز سے لے
کر اب اس کے خلاف ان کا کوئی مجموعی کردار و وار ہی دیکھائی نہیں دیتا، اس
کے خلاف کی گئی کوئی مزاحمت ہی نظر نہیں آتی بلکہ بڑے بڑے اعلیٰ نسب سید
گھرانے اس قبیح فعل میں ملوث اور اس کے پروڈیوسر ہیں۔ اِدھر ان کی زبانیں
نہیں کھلتیں آپس میں لڑنا ہو تو بڑی گرج ہے ان کے لہجہ میں،بڑی گرمی ہے ان
کے جسم میں، بڑا رعب اور دبدبہ ہے ان کی للکار میں۔ ایک دوسرے پر فتوؤں کی
بارش کرتے ہیں اور اس ناسور کے خلاف کوئی فتویٰ دینے کو تیار نہیں کہ یہ
کاروبار حرام ہے اور امت کو گمراہ کر رہا ہے، امت کو جہنم کا راستہ دیکھا
رہا ہے۔ بلکہ اس قبیح شیطان کے معاونتی کاروبار کی حمایت میں یہ تو دعائیں
دیتے ہیں اس شعبہ سے وابستہ اپنے عقیدت مندوں کو ۔ عقیدت مند آئے، پوچھا
کیا کاروبار کرتے ہو؟۔ ’’جی حضور! ویڈیو سنٹر ہے، موبائل شاپ ہے گانے،
فلمیں، ڈرامے ، مجرے ، فحاش و عریاں کردار بھر بھر دیتے ہیں لوگوں کو ۔‘‘
اچھا تو کنتی آمدن ہو جاتی ہے؟۔ ’’جی حضور ! اتنی۔ تو پیر جی نے ہاتھ
اٹھائے اور دعا کر دی کہ یا اللہ اوربہتر کر اور ترقی دے کہ اور بھی کھل کر
شیطان کی معاونت کریں۔ کہیں ایسا ہوتا ہے کہ عقیدت مند آئے کہا حضور
کاروبار کیلئے دعا فرما دیجئے تو حضور نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کر دی اور
پوچھنا تک گوارا نہیں کیا کہ کیا کاروبار ہے، بس دعا دے کے رخصت کر دیا۔
مطلب کیا ہوا کہ اور زیادہ لوگ آئیں تجھ سے جہنم کا ٹکٹ لینے، گمراہی
وضلالت کے سازوسامان خریدنے ، خدا سے غفلت و بے نیازی کے اسباب اکٹھے
کرنے۔جیسا شیطانی فعل ہو، جیسا بھی شیطانی کاروبار ہو یہ بس اور برکت اور
عاقبت خیر، آخرت میں اچھے انجام کی دعائیں دیتے ہیں۔ اس قبیح شیطانی
کاروبار سے امت کی خیر ہو یا نہ ہو انہیں اس سے غرض نہیں۔ یہ کردار ہے اس
معاشرتی ناسور کے خلاف ہمارے پیروں اور رہبروں کا تو امت نے گمراہ ہونا یا
نہیں؟؟؟
فرنگی صیدبست از کعبہ و دیر
صدا از خانقاہاں رفت ، لا غیر
حکایت پیش ملاز باز گفتم
دعا فرمود یا رب عاقبت خیر! |