لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

ھر روز اسکی اللہ سے یہ فریاد کرنا کہ میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو اور نیک جو راہ ھو چلانا مجھ کو۔ دراصل اس بچے کا اس عظیم رب کائنات کے آگے اس عزم کا اظھار کرنا ہوتا کہ عملی زندگی کے نشیب و فراز میں زمانے کی تکلیفوں کے باوجود اس کو اللہ کے بتائی ہوئی نیکی کی راہ پر چلنے کی توفیق ہو جس سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ اگر اللہ اسے کسی بھی اعلیٰ مرتبے پر فائز بھی کردے تو اسکا ہر قدم انسانیت کی فلاح اور مدد کے لیے ہو ناکہ کے اس کے کسی بھی فعل سے غریب پاکستانی قوم کو تکلیف ہو۔

یہ بھی بڑی تکلیف دہ بات ہے۔ جہاں ہر پاکستانی نے اپنے اسکول کے دنوں میں لاکھوں بار اس دعا کو پڑھا ہوگا، اس میں آج کے ڈاکٹرز، انجنیرز، سیاستدان غرض یہ ہر پاکستانی اس دعا سے واقف ہے۔ کیا ہم اس دعا کو بھول بیٹھے ہیں، کیا یہ صرف اسکول میں ہمیں طوطے کی طرح رٹنے کے لیے پڑھائی جاتی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ مجھ سمیت پاکستان کا کوئی بھی انسان اس دعا کی روح کو اس طرح اپنی زندگی پر لاگو کر پایا ہے۔ جو ہونا چاہیے تھا۔

جہاں یہ دعا ہر انسان کو ایک راہ دیکھاتی ہے۔ وہاں ان خاص لوگوں پر جن کو اللہ کوئی اعلیٰ منصب یا عہدہ عطا کردیتا ہے۔ بڑی بھاری ذمہ داری عائد کردیتی ہے۔ کیونکہ ان کا اٹھایا ہوا ایک بھی غلط قدم پورے معاشرے کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ جس سے قوم کا ایک ایک مظلوم انسان جو زمانے کی مشکلوں کا شکار ہوتا ہے، مزید اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں اور وہ ادارے جو عوام کی فلاح و بہبود کا تعین کرتے ہیں وہاں اس دعا کو روزانہ پڑھنا لازمی قرار دے دیا جائے۔ تاکہ اگر ہمارے وہ حکمران جن زندگیوں کو شمع کی مانند ہونا چاہیے جس کی روشنی سے پورا پاکستان منور ہوجائے۔ اپنی غلط حکمت علمی سے عوام کو مشکل میں ڈال نہ سکیں اور یہ دعا کم ازکم انکو روز یہ یاد دلاتی رہے کہ انکی زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرہ ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
Honey Ahmad
About the Author: Honey Ahmad Read More Articles by Honey Ahmad: 10 Articles with 11015 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.