کراچی کو لوگ منی پاکستان بھی
کھتے ھیں ۔ یہ پاکستان کا وہ خوش نصیب خطہ ھے جس نے اپنے دامن میں پورے
پاکستان کو سما لیا ھے۔ ایک ایسا باغ جھاں ھر قسم کے پھول چاھے وہ پاکستان
کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ھوں۔ اس باغ میں جمع ھوکر اس خوبصورت باغ
کی دلکشی میں مزید اضافہ کردیتے ھیں۔ کراچی کا سینہ اتنا وسیع ھے کہ ھر
پاکستانی کو خوش آمدید کھتا ھے اور ایسا شھر جھاں ھر پاکستانی کو اس کے
خاندان، بال بچوں کارزق میسر ھوتا ھے۔ ایک ایسا شھر ھو جو پاکستان کو چلانے
میں بھی کسی طرح پیچھے نھیں رھتا۔ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا
کرکے دینے والا یہ شھر اس کے دامن میں بسنے والے ایک ایک پاکستانی سے محبت
کرتا ھے۔ کیا کسی نے کراچی کی پکار اور احساسات کو سمجھا ھے۔ جو شھر ھر
پاکستانی کے لیے اپنے دامن کو وسیع کرتا جارھا ھے۔ اس کا سمندر اپنے بسنے
والوں کے لیے جگہ بناتا جارھا ھے۔ ھر پاکستانی اس شھر سے اپنے حصے کا رزق
حاصل کررھا ھے۔ جو شھر پاکستان کو چلانے کے لیے ایندھن ﴿رقم﴾ فراھم کرھا ھے
۔ کراچی سب کا ھے اس سے نہ کراچی کبھی منہ موڑا ھے اور نہ کبھی موڑے گا۔
ایک شفیق ماں کی طرح ھر پاکستانی کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنے والا کراچی
کبھی کسی نے اس ماں کی بھلائی اور درستگی کے لیے کوئی کام کیا۔ کیا صرف
کراچی سب کا ھے کھنے سے کراچی کے احسانوں کا قرض ادا ھوجاتا ھے۔ کیا کبھی
دوسروں صوبوں سے روزگار کے لیے آنے والوں نے کراچی کی بھلائی اور اس کی
خوبصورتی مزید نکھار کے لیے عملی کام کیے ھیں۔ کمایا سب نے ھے اس شھر سے
کیا کبھی اس شھر پر لگایا ھے۔ کراچی پر حق جتایا جاتا ھے کیا کراچی کو
اپنایا ھے کبھی اون کیا ھے۔ اس کو اپنا سمجھا ھے۔ صرف اور صرف کراچی کے
بیٹے مصطفیٰ کمال نے کراچی اون کر کے دیکھایا ھے۔ اس کو سنوارہ ھے اس کو
مزید حسن دیا ھے۔ شاھی سید ایک وہ انسان ھے جس ڈال پر بسیرا کیا ھوا ھے اس
کو کاٹنے کے در پر ھے۔ نفرت باٹنے والا انسان کبھی کسی کا دوست نھیں ھوتا۔
ایسے لوگوں سے بچنا ضروری ھے۔ کیا باچا خان کی روح بے چین نھیں ھوگی۔ مرنے
مارنے کا درس دینے کیا یہ بھول جاتے ھیں کہ پختون ایک خوددار، مھمان نواز
اور احسانوں کو یاد رکھنے والی قوم بھی ھے کیا پختون قوم کراچی کی مھمان
نوازی کو بھول جائے گی جو کراچی نے ان کے کراچی پر انے اور انکو مالی طور
پر مستحکم کرنے پر کی تھی۔ شاھی سید تو تھا ھی اس کے بعد غلام بلور صاحب
بھی شاھی سید کے نقش قدم پر چلنے پر مائل ھورھے ھیں۔ لگتا ھے ایے ان پی کی
قیادت نے پارٹی کے عھدیداران کو بے لاگام چھوڑ ڈالا ھے۔ جو اس قسم کی
نفرتوں کے پرچار کرنے والے خود کو عوام کی نظروں میں خراب ھورھے ھیں ساتھ
ساتھ باچا خان صاحب اور انکی پارٹی کی بدنامی کا سبب بن رھے ھیں۔ بلور صاحب
بھارت کا لالو پرشاد مسخرہ سیاستدان جانا جاتا ھے۔ پر ریلوے کی وزارت
سنبھنالنے کے بعد بھارتی ریلوے کو ایک پرافٹ والا ادارہ بنا دیا۔ کیا ایسی
امید آپ کے بھی وزارتی دور میں پاکستانی کرسکتا ھے۔ نفرتوں کے پرچار کو
چھوڑکر کوئی ایسا کام کرو کہ پاکستانی قوم کا سربلند ھو۔
کراچی میں رھنے والا ایک ایک انسان کراچی کی محبتوں کا قرض دار ھے۔ روشنیوں
کا شھر کھلوانے والا شھر آج اندھیروں کی زد میں ھے ۔ آج شھر کے ھزاروں
مسائل ھیں جس کے لیے تو شاھی سید کے منہ سے کوئی آواز نھیں نکلتی بس نفرت
کا لاوا نکلتا ھے۔ آج ھر پاکستانی جو کراچی کا مستقل شھری ھے یا روزگار سے
منسلک ھے اسے کراچی کو اپنانا ھوگا۔ اپنا سمجھنا ھوگا۔ اون کرنا ھوگا۔ اسکو
بنانا ھوگا، سوارنا ھوگا۔ جب کراچی سب کا ھے تو سب ھی نے آگے آنا ھوگا اور
اسکی ترقی میں عملی کام کرنا ھوگا۔ نہ کہ نفرتوں کے بیچ ڈال کر اسی کراچی
کو زخموں سے دوچار کرنا جو ھم کو اپنے دامن میں بسائی ھوئی ھے۔ |