13 اپریل کے روز مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں
مشتعل ہجوم کی طرف سے طالبعلم مشال کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ اس
دلخراش واقعہ پر پورے ملک میں ہر سطح پر بحث و مباحثے جاری ہیں۔ پاکستان،
اسلام اور مولویوں کو خوب کوسا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور دشمن بھی
اس واقعہ کو غنیمت سمجھ کر پاکستان کو خوب بدنام کر رہے ہیں اور پاکستان کو
مذہبی جنونیت اور عدم برداشت والا ملک ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔ میں اس
واقعہ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ مشال کے قاتلوں کو
چن چن کر پھانسی پر لٹکایا جائے۔ہجوم کے ذریعے انصاف کی اجازت ہرگز نہیں دی
جاسکتی۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ
واقعہ مذہبی جنونیت نہیں بلکہ لاقانونیت، معاشرتی عدم برداشت، اخلاقی تربیت
کے فقدان، اور مذہب سے دوری کا ثبوت ہے۔ مشال پر لاٹھیاں، پتھر، لاتیں اور
گھونسے برسانے والے کسی مدرسے کے طلباء یا مولوی نہیں تھے بلکہ ایک
یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ سٹوڈنٹس تھے۔ اگرچہ انہوں نے اﷲ اکبر کے نعرے
لگائے لیکن حقیقت میں یہ لوگ مذہب سے کوسوں دور اور روشن خیال طبقہ کے
نمائندے تھے۔ اگر ان لوگوں نے دین پڑھا اور سمجھا ہوتا تو ایسا ہر گز نہ
کرتے۔ مشتعل ہجوم میں موجود کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اصل میں ہوا کیا
ہے اور اس لڑکے کو کیوں مارا جا رہا ہے۔ ان تعلیم یافتہ روشن خیالوں کے
دماغوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ اگر توہینِ مذہب کا کوئی واقعہ ہوا
ہے تو اس کو بیان کرنے والا کون ہے؟ تصدیق کرنے والا کون ہے؟ اور گواہ کون
ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ ہجوم کے انصاف میں ایسے ہی ہوتا ہے۔سوال پوچھنے،
سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے اوراشتعال غالب آجاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بھارت میں آئے روز اقلیتوں خصوصاً
مسلمانوں کے ساتھ اس سے ہزار درجے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں عورتوں
کو سربازار برہنہ کر کے لاٹھی چارج کیا جاتا ہے پھر انہیں زندہ جلا دیا
جاتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، برما، شام اور عراق میں جب مسلمانوں پر بربریت کا
بازار گرم کیا جاتا ہے تب انسانی حقوق کی تنطیم اور اقوامِ متحدہ کو کچھ
نظر نہیں آتا لیکن اگر کبھی پاکستان میں ایسا واقعہ ہو جائے تو غیر تو کیا
ہمارے اپنے ہی پاکستان اور اسلام کو اتنا بدنام کر تے ہیں کہ دشمن ہم پر
ہنس رہے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے ترقی کرنے اور جدید بننے کے لئے
یونیورسٹیاں تو بنا لیں، دینی تعلیمات اور تربیت کو ترک تو کر دیا لیکن کیا
ہم نے ترقی کر لی؟ کیا مغرب کا مقابلہ کر لیا؟ نہیں بالکل نہیں۔ بلکہ دین
سے دور ہو کر، روشن خیال اور لبرل ہو کر ہم نے خود کو مزید پیچھے دھکیل دیا
ہے۔ مادیت پرستی کے دور میں گھر میں والدین اور سکولوں کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں اساتذہ طلباء و طالبات کی اخلاقی تربیت کرنا بالکل بھول
گئے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر معاشرتی برائیاں ، عدم برداشت اور جرائم سامنے آ
رہے ہیں۔ یہ واقعہ پاکستان میں عدالتی انصاف کی عدم فراہمی اور قانون کی
حکمرانی پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں ایک واضح قانون
ہونے کے باوجود قانونی ادارے، سیاست دان اور بیوروکریسی اول تو توہین مذہب
کا کیس رجسٹر کروانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اگر کوئی کیس درج ہو جائے
تو پھر اس کو اتنا اچھالا جاتا ہے کہ بیرونی دباؤ آ جائے اور بعد میں مجرم
کو باعزت چھوڑنا پڑے یا کسی دوسرے ملک بھیجنا پڑے۔ میرا دعویٰ ہے کہ اگر
پاکستان میں توہین ِ مذہب کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں ہونے لگیں
اور قانون کی بالا دستی قائم ہو جائے تو مردان جیسے واقعات ہرگز نہیں ہوں
گے۔ اور خدارا فیس بک کے دانشوروا اس طرح کے واقعات کی آڑ میں اپنے مذہب
اور ملک کو برا بھلا مت کہو۔ اسلام دنیا کا بہترین مذہب تھا، ہے اور رہے گا
اور مختلف ممالک کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر
پہنچا ہوں کہ پاکستان میں دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ مذہبی آزادی حاصل ہے۔
خدارا مشتعل ہجوم کے مشتعل ہجوم کو ریاست اور مذہب کے ساتھ مت جوڑیں۔ |