مزار سے پارلیمنٹ تک

بعض قوموں کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ تب تک نہیں جاگتیں جب تک ان کے سرپر ڈنڈا نہ پڑے لیکن شاید پاکستانی دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو اس کے باوجود بھی جاگنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ۔بڑے سے بڑا سانحہ بھی احساس کی آہنی فصیلوں سے ٹکرا کر شرمندہ و بے تعبیر لوٹتا ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے اس قوم کا سویا ضمیر اس وقت جاگا جب سرگودھا میں اکٹھے 20افراد ایک گدی نشین کے ہاتھوں ڈنڈے کھا کر ابدی نیند سو گئے ورنہ اکا دکا روز کے ایسے واقعات تو اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے بھی ناکافی تصور ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ۔لیکن ایسا انہی قوموں کے نزدیک سمجھا جاتا ہے جن کی سوچنے سمجھنے کی حس ختم نہ ہو گئی ہو ، جن کا ضمیر مر نہ گیا ہو ۔روز انہ اخبارات میں ہم پڑھتے ہیں اور لائیو چینلز پر بھی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں کہ کہیں پیر کے جھانسے میں آکرکوئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ، کہیں کوئی پیرگھر والوں کو جھانسہ دے کر بہو بیٹی کو لے اُڑا ۔ کہیں کوئی معصوم عورت عصمت دری کا نشانہ بن گئی ،کہیں کوئی پیر لاکھوں کے زیورات اور نقدی کا صفایا کر گیا ۔الغرض کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن شہریوں کی عزت ، جان ، مال سے کسی عامل یا پیر کے کھلواڑ کی کوئی خبرگردش میں نہ رہتی ہو ۔ مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عوام تو عوام حکمران و ذمہ داران کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگتی ،نہ منکر ات کے خلاف شعلہ بیاں تقریروں اور تحریروں کے حامل مذہبی طبقہ اور دینی جماعتوں میں نہی عن المنکر کا تقاضاجاگ اُٹھتا ہے۔ چنانچہ یہ قانون سازاداروں ، اسلامی نظریاتی کونسل اور خاص طور پر امربالمعروف و نہی عن المنکر کے علمبرداروں کی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ ایک ساتھ 20افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔

اتنے افراد کا ایک ساتھ قتل کوئی معمولی بات نہیں ۔ اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں اس قدر فرسودہ اور جاہلانہ سوچ اور توہم پرستی کے ہاتھوں کسی ایک فرد کا قتل بھی کسی بے حس سے بے حس قوم کو جگانے کے لیے کافی ہو سکتا ہے مگر یہاں گنگا اُلٹی بہتی ہے ۔علماء و مفتیان کے چند فتوؤں اور حکومتی ذرائع کے چند مذمتی بیانات کے بعد چند دنوں میں یہ معاملہ بھی اسی طرح ہضم ہو گیا جس طرح کئی بڑے بڑے سانحات ہماری اجتماعی بے حسی کے پیٹ کے جہنم کو بھرنے میں ناکام ہوگئے ۔ جہاں تک سپریم کورٹ میں دائر درخواست اور ایوان حکومت میں پیش کی گئی سفارشات کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اس کا کبھی کوئی نتیجہ نکلا ہے ۔ مارچ 2012ء میں بھی پنجاب اسمبلی میں باقاعدہ ایک قرارداد اس وقت پاس ہوئی تھی جب لاہور میں ایک’’ پیر صاحب ‘‘قبر میں زندہ بچے کو دفن کر کے اوپر چلہ کاٹتے ہوئے پکڑے گئے تھے ۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے پیپلز پارٹی کی عظمیٰ بخاری کی اس قرارداد پر باقاعدہ پانچ رکنی کمیٹی بھی بنائی تھی جس میں مسلم لیگ ن کے میاں نعمان ، نگہت ناصر شیخ ، فارورڈ بلاک کے شیخ علاؤالدین ، پیپلز پارٹی کی عظمیٰ بخاری اور مسلم لیگ ق کے محسن لغاری شامل تھے۔لیکن آج تک نہ اس کمیٹی کا کچھ پتہ چلا اور نہ اس کی سفارشات سامنے آئیں ۔ وجہ ’’نامعلوم ‘‘۔ اس سے قبل سابق گورنر پنجاب خالد مقبول نے بھی جعلی عاملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا مگر چند روز بعد انہی ’’ نامعلوم ‘‘ وجوہات کی بناء پر کارروائی کو روک دیا گیا ۔پھر اپریل 2014ء میں قوم کا ضمیر تھوڑی دیر کے لیے اس وقت جاگا جب میڈیا میں ایک المناک خبر متواتر چلی کہ مری میں جعلی پیر کے کہنے پر مرید نے دو بچو ں کے گلے کاٹ دیے اور تیسرا زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا ۔اس دفعہ جماعت اسلامی کی طرف سے پنجاب کے امیر و پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے ہمت کی اور پنجاب اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں قرارداد جمع کروائی۔ مگرانہی ’’ نامعلوم ‘‘ وجوہات کی بناء پر آج تک اس حوالے سے کوئی کارروائی سامنے نہیں آسکی ۔ یہی وہ ’’نامعلوم وجوہات‘‘ ہیں جو سرگردھا میں 20افراد کے قتل کی اصل ذمہ دار ہیں اور یہی وہ وجوہات ہیں جو آئندہ بھی کسی قرارداد ، کسی دائر درخواست پر کارروائی ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گی ۔یہ ’’ نامعلوم وجوہات ‘‘ کیا ہیں ؟

دراصل یہی وہ وجوہات ہیں جو بے نقاب ہونے تک جعلی پیر کو اصل پیرو مرشد بنائے رکھتی ہیں اور جادوگروں ، عاملوں ، پنڈتوں ، جعلسازوں کو شہریوں کی عزت ، جان اور مال سے کھیلنے کا جوازفراہم کرتی ہیں ۔ لیکن پکڑے جانے کے بعد بھی ان عناصر کے لیے قانون میں کوئی گرفت نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے آئین میں ’’انہی وجوہا ت‘‘ کی بناء پر جادو ٹونہ، کالا علم جیسے شیطانی جرائم کے حوالے سے کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ حالانکہ بھارت جسے جادوٹونہ کا گڑھ ہونے کی وجہ سے جادونگر ی کہا جاتا ہے وہاں بھی جادوٹونہ اور کالا یا سفلی علم کے ذریعے بیماریوں سے علاج اوربچاؤ کے خلاف سخت قانون نافذ ہے ۔ مہاراشٹر میں 2013ء میں باقاعدہ اسمبلی میں جادوٹونہ کے خلاف قانون پاس کیا گیا ۔ مگر اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں ان سنگین اور ننگ انسانیت جرائم کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ۔زیادہ سے زیادہ ہمارے لیڈروں اور قانون بنانے کے ذمہ دار وں کی طرف سے ان عناصر کو ایک ’’ ناسور‘‘ کہہ دیا جاتا ہے ۔

لیکن آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ یہ معاملہ صرف ’’ناسور‘‘ ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ کہیں زیادہ آگے بلکہ ’’ اوپر تک ‘‘ پہنچاہوا ہے ۔کئی لوگ جنہوں نے اس راز کو کھولا پھر ان کا کبھی پتہ نہ چل سکا ۔ کئیوں کو انتا بدنام کیا گیا کہ ان کی بات سننے کے لیے کوئی تیار نہ ہوا ۔2010ء میں ایک اغواء شدہ لڑکی کو بازیاب کرانے میں اپنا کردار اداکرنے اور اخبارات و رسائل میں عاملوں اور پنڈتوں کے دعوت کفر دیتے اشتہارات کے خلاف مہم چلانے کی پاداش میں راقم بھی یہ سزا بھگت چکا ہے اور ابھی تک بھگت رہا ہے لیکن اس لڑکی سمیت ہزاروں لڑکیوں کو اغواء کرنے ، سینکڑوں گھروں کو برباد کرنے ، درجنوں قتل کرنے والے وہ نام نہاد پیرآج دھڑلے سے اقتدار کی سیڑھیاں طے کر رہے ہیں اور پولیس ، ایجنسیاں اور میڈیا ان کے صدقے واری جاتے ہیں ۔ بات بچوں اور لڑکیوں کے اغواء اوران کی عزتوں سے کھیلنے ، قوموں اور قبیلوں کو مختلف شیطانی ہتھکنڈوں کے ذریعے آپس میں لڑانے اور اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ لینڈ مافیا ، ٹمبر مافیا ، ڈرگ مافیا اور ہر قسم کے قبضہ مافیا کا جعلی پیروں اور عاملوں سے اس قدر گہرا گٹھ جوڑ ہے کہ کسی پیر کے خلاف منہ کھولنا یا قلم اُٹھانا واقعی خود کوجہنم رسید کرنے کے مترادف بن چکا ہے ۔(راقم بھی اسی جہنم کا ایک ادنیٰ سا اسیر ہے )۔ یہ سفلی اور کالے پیر جہاں ان اولیاء اﷲ کی عزت و ناموس سے کھیل رہے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں اسلام اور انسانیت کی خدمت میں وقف کر دیں وہیں پر اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں جہاں رحمۃ للعالمین ﷺ کا دیا ہوا نظام عدل اجتماعی قائم ہونا چاہیے تھاان پیروں اور پنڈتوں نے اس برہمن سامراج کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جہاں عام انسان کی حیثیت ایک بھیڑ بکری سے بھی کم رہ گئی ہے کہ جب چاہا عقیدت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ جس طرح برہمن سامراج میں زمینوں ، علاقوں اور راجواڑوں کی بندر بانٹ پروہتوں کی اشیر باد کی محتاج تھی اسی طرح آج قبضہ مافیا لوگوں کی زمینوں ، جائیدادوں ، سرکاری املاک اور قومی وسائل پر قبضہ کے لیے ان پیروں ، پنڈتوں اور عاملوں کی ’’ کرامات ‘‘ کی محتاج ہے ۔ لہٰذا اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے گویا وہ راجے اور مہاراجے ہیں جو پروہتوں کے چرنوں میں ماتھا ٹیک دینے کو ہی ’’ سپھلتا‘‘ کا راز سمجھتے ہیں ۔ عالمی نظام پر سرمایہ داروں کی اتنی اجارہ داری آجکل دنیا میں شاید ہی ہو جتنی پاکستان میں ان پیروں ، پنڈتوں اور عاملوں کی ہے ۔لہٰذا اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں سے یہ اُمید قطعی نہ رکھنی چاہیے کہ وہ معاشرے کے ان ’’ ناسوروں ‘‘ کے خلاف کبھی کوئی قانون بنا پائیں گے ۔

ہاں !البتہ مذہبی طبقہ اور دینی جماعتوں کے نزدیک اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کوئی حیثیت ہے تو پھر انہیں یاد ہونا چاہیے کہ جادو کفر ہے (البقرہ:102) اور کفر سب سے بڑا منکر ۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ ‘حضرت ابو ہریرہؓ ‘ حضرت عمران بن حصینؓ ، حضرت انسؓ اور حضرت عبداﷲ بن مسعودؓجیسے کبار صحابہ کرامؓسے مستند روایات موجود ہیں جن کے مطابق جادو سیکھنا ،کرنا، کرانا یا کسی عامل ، نجومی یا کاہن کی بات کی تصدیق کرنا دین محمد ﷺ سے کفر کرنا ہے ۔ یعنی اسلام سے خارج ہونا ہے ۔ حضورﷺنے واضح حکم دیا :’’ جادوگر کی سزا یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کردیا جائے۔‘‘ (ترمذی رواہ جندب ؓ)۔حضرت حفصہؓ پر ان کی لونڈی نے جادوکردیاتھا ‘ان کے حکم کے مطابق اس لونڈی کو قتل کردیا گیا۔(موطاامام مالک )بجالہ بن عبدہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ہر ایک جادوگر مرد وعورت کو قتل کردو‘ تو ہم نے تین جادوگرنیوں کو قتل کیا ۔ (بخاری)۔ آج بھی سعودی عرب میں یہ قانون بالفعل نافذ ہے ۔لہٰذا مذہبی طبقہ اور دینی جماعتیں اگر واقعی اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلام کے نظام عدل اجتماعی کی علمبردار ہیں تو انہیں سب سے پہلے سب سے بڑے منکر کے خلاف ایک منظم تحریک چلانی چاہیے یہاں تک کہ حکومت قادیانیت کی طرح جادو ٹونہ کو بھی کفر قرار دینے اور اس کے مرتکب کی شرعی سزا نافذ کرنے پر مجبور ہوجائے ۔ ورنہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نہی عن المنکر کے لیے نظام شرط نہیں ہے صرف یہ کہہ کر خلاصی حاصل کر لینا کہ جب اﷲ کا دین قائم ہو جائے گا تو سب منکرات کاخاتمہ ہو جائے گامحض کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے سوا اور کچھ نہیں اور اس کا نتیجہ بالآخر یہی نکلے گاجو نکل رہا ہے کہ یہاں نظام عدل اجتماعی قائم ہونے کی بجائے وہ برہمن سامراج مستحکم ہو گا جس میں آئندہ 20افراد نہیں بلکہ 20کروڑ انسانوں کی زندگیوں، جان ، مال اور عزت و آبرو کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ۔

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.