خان عبدالولی خان یورنیورسٹی میں سب معمول کے مطابق چل
رہا تھا کبھی کبھار طلبا کے مابین معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑے بھی دیکھنے
میں آتے مگر آج تک کوئی سنگین نوعیت کا واقعہ دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔
ایسی ہی ایک صبح جب طلبا یونیورسٹی آئے تو کیمپس کی فضا میں اشتعال اور
جذبات میں حدت تھی کہا جارہا تھا یونیورسٹی ہذا کے سٹوڈنٹ کے فیسبک اکاونٹ
پر متنازعہ مواد اپلوڈ کیا گیا جوکہ گستاخی شعائر اسلام اور گستاخی رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے فیصلہ ہوا کہ مذکورہ طالب علم سے
باز پرس کی جائے استفسار پر معلوم ہوا کہ متنازعہ مواد اور فیس بک آئی ڈی
فیک اور جعلی ہے اور مورد الزام سمجھے جانیوالے سٹوڈنٹ کا اس سے کوئی تعلق
نہیں بلکہ اسکے ساتھ کسی نے ذاتی عناد پر یہ یہ سازش تیارکی تھی حقائق کا
علم ہوجانے کیبعد بھی طلبا کی ایک بڑی تعداد اس بیانیئے کو تسلیم کرنے
کیلئے تیار نہ تھی تین دن تک یونیورسٹی میں مشاورت چلتی رہی یونیورسٹی میں
اجلاس ہوئے مورد الزام ٹھہرائے جانیوالے طلبا پولیس کے پاس گئے اپنی
بیگناہی اور مدد کی اپیل کی یورنیورسٹی انتظامیہ 1500 ملازمین 150 سیکورٹی
اہلکار مکمل طور پر غیر معمولی حرکات و سکنات سے آگاہ اور خاموش تماشائی
بنے کسی بڑے سانحے کے منتظر تھے خون کی سرخی میں رنگی آفتاب کی کرنیں
نمودار ہوئیں عبداﷲ۔ ذبیر۔ مشعال خان۔ والدین کی دعاوں کے سائے میں گھر سے
یونیورسٹی کی جانب عازم سفر ہوئے مادر علمی پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد طلبا
کے ایک جتھے نے تینوں طلبا کو دبوچ لیا سینکڑوں طلبا نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے
ڈنڈوں پتھروں لوہے کے پائپوں سے حملہ آور ہوگئے عبداﷲ نے روتے ہوئے ہاتھ
باندھے کہ میرا والد تبلیغی جماعت میں ہے اور میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں
میرا کسی بھی گستاخی سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح ذبیر نے بھی اپنے ایمان
کاکلمہ پڑھ کر اعلان کیا اب تیسرے طالب علم مشعال ملک نے خدائے لم یزل کی
الوہیت سید دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت عظمت کا اظہار کیامگر
جنونی فرزندان اسلام محافظین و محاسبین اسلام باچا خان کے نام پہ سیاہ دھبہ
پی ایس ایف کے سور اے این پی کے پالتو مشعال کی کی کوئی بھی دلیل یا حجت
ماننے کو تیار نہ تھے اور وہ اسی الزام پہ مصر تھے کہ گستاخانہ مواد اپلوڈ
کرنیوالا یہی مشعال ہے قارئین اس سے آگے کی کہانی اس قدر دردناک اور اوسان
خطا کردینے والی ہے کہ انسانیت بھی شرم سے پانی پانی ہوگئی چند منٹ کا
ویڈیو کلپ دیکھ کر غم سے کلیجہ منہ کو آتا ہے یقین کریں اقبال خان پر ٹوٹی
قیامت صغری دیکھ کر میری روح چھلنی ہوگئی اس قدر سفاکیت بربریت درندگی کہ
الفاظ نہیں بیان کرنے کو۔ مگر اس سے پہلے ایک بہت پیاری حدیث اپنے ایمان کو
بچانے اور خود ساختہ محاسبین کیلئے اپنے عقیدے کی بطور سند پیش کرتا چلوں۔
سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں جلوہ گر ہیں دور سے غبار
اڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں گرد تھمی تو صحابہ کا لشکر مسجد نبوی کے صحن میں آن
پہنچا تھا لشکر توحید کسی جنگ سے فتحیابی کیساتھ لوٹا تھا مگر مفتوحہ ریاست
کا شکست خوردہ بادشاہ بھی رسیوں میں جکڑا ہوا سواری کیساتھ باندھا ہوا تھا
لشکر اسلام کے سپاہیوں نے بادشاہ کو اتارا اور مسجد نبوی کے ستون سے باندھ
دیا محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بوقت نماز ظہر تشریف لائے تو صحابہ
کرام نے معرکہ کی کارگزاری اور فتحیابی سے آگاہ کیا اور رسیوں میں جکڑے
شکست خوردہ بادشاہ کا ثمامہ کے نام سے تعارف کروایا عاصیوں مسکینوں کے ملجا
و ماوی نے ثمامہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے ثمامہ شہنشاہ ہو شہنشاہیئت کے
تمام عیوب بدرجہ اتم رکھتے ہو چہرے پر رعونت ہے خوبصورت ہو خوش شکل دراز قد
ہو مگر ایک بار ہماری طرف بھی دیکھو مگر ثمامہ نے والضحی والے چہرے سے
نازیبا کلمات کہتے ہوئے رخ پھیر لیا صحابہ کرام کی چہرے غصے سے سرخ ہوگئے
تلواریں تھیں کہ میانوں سے نکلنے کو بیتاب تھیں مگر طائف پتھر کھا کر
دعائیں دینے والی ہستی کہ چہرے پر مسکراہٹ کی کلیاں امڈ آئیں میرے آقا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم چل دیئے اگلے دن پھر ولسوف یعطیک ربک فترضی کی شان والے
کریم آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ثمامہ کو فرمایا ہماری طرف دیکھو مگر اس
نے پھر رخ موڑ لیا میرے آقا حجرہ اقدس میں تشریف لے گئے تیسرے دن پھر عفوو
درگزر کے پیکر نے ثمامہ سے فرمایا ہماری طرف دیکھو ثمامہ نے رخ پھیر لیا
رووف و رحیم کریم مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ثمامہ ہماری بستی
دیکھو کس قدر خوبصورت ہے میرا رب بھی جسکی قسمیں کھاتا ہے ثمامہ نے معاذاﷲ
آپکی بستی کے متعلق بھی نازیبا کلمات کہہ ڈالے چچا امیر حمزہ کا کلیجہ
چبانے والے وحشی کو معاف کرنیوالے کریم آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا ثمامہ کی رسیاں کھول دو حکم فرمایا ثمامہ بھاگ جاو تم آزاد ہو۔
ثمامہ چونکا مگر آزادی کی خوشی میں آو دیکھا نہ تاو بھاگ نکلا مگر جس تیزی
کیساتھ بھاگا اس سے زیادہ تیزی کیساتھ واپس پلٹا کریم مصطفی صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے قدموں میں گر گیا میرے آقا زیر لب تبسم فرمانے لگے پوچھا
ثمامہ کیوں آئے ہو ہم نے تو تمھیں آزاد کردیا تھا ثمامہ عرض کرنے لگا اے
کریم و رحیم نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آزاد بھی آپ نے تب کیا جب اپنے حسن
اخلاق اور عالی کردار کے سحر میں جکڑ لیا میرے آقا میرے شہنشاہ میں آپ پر
ایمان لایا آپکا غلام ٹھہرا۔ قارئین موضوع کی طوالت کا احساس کرتے ہوئے
حاصل گفتگو کی طرف آتا ہوں کہ یہ دین کن لوگوں کے ہاتھ آگیا۔۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
جن کے نزدیک انسانیت اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر وہ انسانی جان جسکو کعبتہ
اﷲ سے افضل قرار دیا کوئی وقعت اور معنی ہی نہیں رکھتی مشعال خان کا واقعہ
دیکھ کر دل خون کہ آنسو روتا ہے وہ بوڑھا اقبال خان جسکو عمر کے آخری حصے
میں جواں سالہ تناور درخت کا سایہ بھی نصیب نہ ہوا وہ بوڑھی ماں جسکی عمر
بھر کی کمائی نام نہاد مذہبی رہزنوں نے لوٹ لی وہ بہنیں جو ساری عمر بھائی
کے سہرے کا تشنہ خواب سینے میں سجائے نوحہ پڑھتی رہینگی۔۔۔
سینے میں گولی اتری
تو بس ماں یاد آئی
پھر وہ مجھکو مارتے تھے
نوچتے تھے
زباں میں تھی سکت جب تک
گواہی میں نے دی انکو
کہ میں بھی ایک عاشق ہوں
مگر وہ مان بیٹھے تھے
کہ میں تو ایک مجرم ہوں
، پھر کسی لمحے اذیت تھم گئی
اور میں خود اپنی لاش کو پٹتے ہوئے یوں دیکھتا تھا
وہ مجھ پہ کودتے تھے، ناچتے تھے
تکبیر کہہ کے پتھر مارتے تھے
مجھے ننگا کیا اور ریشہ ریشہ کر دیا
گو وہ جانتے تھے میں تو کب کا مر چکا مر چکا تھا
میں مگر یہ چاہتا تھا ایک لمحے کو سہی مجھ کو اجازت ہو
میں اپنے قاتلوں سے التجا کر لوں
کہ میری لاش میری ماں کو مت دینا
وہ سارے کرب جو مجھ پر اتارے ہیں
مرنے تک وہ انکے درد سے چلائے گی
ہاں مگر ہمارا ایمان ہمارا اسلام اس قبیح شرمناک فعل سے سرخرو ہوگیا؟؟؟ اس
معاشرے میں سوال کرنا بھی جرم ٹھہرا نیا کے پی بنا نے کے دعویداروں کی
پولیس۔ ایڈمنسٹریشن سے پرانا پختونخواہ ہی نہیں سنبھالا جارہا۔ کون بولے گا
یہاں زبانیں گنگ ہیں جذبات پہ اوس پڑھی ہے خون سفید ہوگئے معاشرہ درندوں کے
حوالے کرکے امیر شہر مذمتی ڈھکوسلوں سے کام چلارہا ہے اب تو پولیس رپورٹ
بھی آگئی مقتول نوجوان بیگناہ تھا جاں بلب تھا مگر سیدالرسل صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم سے عشق تجدید عہد کررہا تھا۔ چراغ زندگی کی لو مدھم پڑ رہی تھی
مگر تختہ دار پہ آج پھر ایک منصور نعرہ مستانہ عشق شہہ بطحا بلند کررہا تھا
مگر عقل کے اندھے سیرت طیبہ اخلاق کریمانہ سے نا آشنا ننگ تہذیب ننگ
انسانیت عرب کا زمانہ جاہلیت کا دستور لاش کو مسلنے کی روایت جاہلیت دہرا
رہے تھے ہم نے جسٹس شوکت صدیقی جیسے جذباتی نافہم نام نہاد ملاوں کو آئیڈیل
بنا لیا ہمارے آئیڈیل تو وہ ہستی تھے جن کی بارگاہ میں ایک بچہ آیا عرض کیا
اے غریبوں کے غمگسار میں آپکی بارگاہ میں اپنی نیم برہنہ ماں کیلئے لباس
لینے آیا ہوں کلمہ نہیں پڑھونگا میرے آقا نے مسکراتے ہوئے یا ایھاالمزمل
والی کالی کملی عطا کردی پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا وہی ماں جس نے
کہہ کر بھیجا تھا بیٹا کلمہ نہیں پڑھنا وہی ماں بیٹے کی انگلی پکڑ کر دربار
نبوی میں رحمتہ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لینے چلی آئی وہ
میرے آقا کریم کا اخلاق تھا کردار تھا عفوو تھا درگزر تھا کوڑے پھینکنے
والی کو دی ہوئی دعائیں تھیں جس نے پتھر پگھلا ڈالے آج کا مذہبی پیشوا منبر
رسول پہ بیٹھ کر کونسا اسلام متعارف کروارہا ہے کہ سوروں کا ہجوم نعرہ
تکبیر لگا کر ہرنوں کو کھارہا ہے کہیں بھول آپ سے بھی ہوئی میرے مذہبی
پیشوا یاد کریں کہیں سے داستاں آپ بھی بھولے ہیں ریاست سے کیا گلہ کروں
منیب مغیث سے لیکر کتنے شاہ زیب کتنے مصطفی کانجو کھاگئے۔ ماوں کے آنسو خشک
ہوگئے مگر عدل جہانگیری کی زنگ آلود زنجیر نہ ہل سکی آج پھر ریاست دوراہے
پہ کھڑی ہے اعلی عدلیہ کی مجرمانہ خاموشی سماج کو لے ڈوبے گی پھر یادرکھنا
اگر آج آگ اور خون کا کھیل نہ روکا اگر ان سوروں کے ہاتھ پاوں نہ کاٹے تو
یاد رکھنا پھر کوئی وحشی کوئی درندہ کوئی جنونی قلعوں کی فصیلیں پھلانگے گا
یہ بڑھتے قدم اور آگے بڑھینگے یہ حوصلے مزید جواں ہونگے پھر وہ خونی کھیل
ہوگا کہ نہ حاکم وقت بچے گا نا منصف نا قاضی القضا نا اقتدار کے قلعے
بچاپائینگے نا محافظوں کا لشکر ابھی وقت ہے ان جنونیوں کو نشان عبرت بنایئے
مثال قائم کیجئے علاج اور مذمتیں مت کریں مذمت کو اب تو مظلوم لوگ تمسخر
سمجھتے ہیں اور علاج زخم کا ہوتا ہے اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
انتہاپسندی شدت پسندی جنونیت ناسور بن چکا ہے اب وقت ہے اس ناسور کو کاٹیں
اگر اس ناسور کا زہر سماج کے اس وجود میں پھیل گیا تو یاد رکھنا ناں یہ
معاشرہ بچے گا ناں آپ بچیں گے اور ناں ہم۔ پھر تاریکیاں ہونگی وحشت ہوگی یا
دہشت بربریت ہوگی یا سفاکیت ہلاکو بھی نکلیں گے چنگیز بھی پیدا ہونگے اور
اس خطہ پاک کو بغداد بننے سے کوئی نہیں بچا پائیگا۔ |