سائنس نے آج کے زمانے میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر چیز کو
جانچنے کا اعلیٰ تیار کرلیا ہے جیسے کہ درجہ حرارت، دل کی ڈھڑکن، فشارِخون
کا آلہ اور انسان کے ہر حصے کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی نہ کوئی بندوبست
کرلیا گیا ہے۔ مگر انسان میں علم وتعلیم کی جانچ پڑتال کے لیے کسی قسم کا
آلہ موجود نہیں ہے۔ ذرا سوچیں اگر ایسا آلہ پاکستان میں ہوتا تو ہر کوئی
اپنے منے، پپو، موٹو، چھوٹو اور بے بی کو صبح وشام جانچتا کہ کیا میرے بچوں
کی تعلیم میں کچھ آفاقہ ہوا یا یہ ابھی تک نکمیں ہی ہیں۔اب حقیقت کی جانب
بڑھیں تو پاکستان میں سرکاری تعلیم کا معیار بہت فرسودہ اور باواآدم کے دور
کا معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں ہو رہے حالیہ شماریات میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی
آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافے کے مطابق دنیا کے نقشہ پر پانچویں نمبر پر آجا
ئے گا لیکن ہمارے ملک کاآج بھی عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں101
واں نمبر ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال بیت گئے مگر ہم آج بھی روٹی،
کپڑا اور مکان کے نعرے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ایسا نہیں کہ ہمارے ملک میں
تعلیمی معیار کسی صورت دستیاب نہیں یہاں تو ایسا ہے کہ جس طرح تعلیم کا
معیار بڑھے گا اسی طرح فیس کی مد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نئی نسل کی تعلیم کی زمیدار ریاست ہے لکینآج کی
تاریخ کے مطابق تعلیمی نظام پانچ حصوں پر مشتمل ہوگیا ہےاور یہ پاکستان کے
بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں ہے۔اگر تعلیم کے انِ حصوں پر نظر ڈالیں توپہلے
پر او اور اے لیول آتے ہیں یہ تعلیم بین الاقوامی سطح کے تحت دی جاتی ہے۔
دوسرے پر افواج کے اداروں کی تعلیم آتی ہے جن میں کیڈٹ کے آرمی، نیوی اور
فضائیہ سے منسلک ادارے شامل ہیں۔ تیسرے درجے کی تعلیم میں نجی ادارے ہوتے
ہیں جو فاؤنڈیشن سٹم کے تحت کام کرتے ہیں اور انِ اداروں کی فیس اس حد تک
زیادہ ہوتی ہے کہ پاکستان کا عام شہری اپنے بچوں کو یہ تعلیم دینے کے اہل
نہیں یعنی پاکستان کے بےشمارذہین بچے پستی کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتے
ہیں اور انُ کا مستقبل صرف معجزات کے متحمل ہوتا ہے۔ چوتھے درجے پر بھی نجی
تعلیمی ادارے آتے ہیں لیکن یہ ادارے سوائے بچوں کا مستقبل خراب کرنے کے کچھ
نہیں کرتے کیونکہ انِ اداروں کے اساتذہ خود بہتر تعلیم یافتہ نہیں ہوتےاگر
انِ میں چند بہتر تعلیمی ادارے بھی ہیں لیکن وہاتنی بڑی آبادی میں تبدیلی
نہیں لا سکتے جیسا ہونا چاہیئے۔ اب پانچواں نمبر پاکستان کے سرکاری تعلیمی
اداروں کا ہے جو تعلیم کے نام پر الف ب سے آگے ہی نہیں بڑھ سکےجو تعلیم
یہاں آج کی نئی نسل کو دی جارہی ہے وہی تعلیم انُکے بزرگوں کو بھی دی گئی
تھی۔ لیکن واضح رہے کہ انِ تمام تعلیمات میں اسلام کی تعلیم نہ ہونے کے
برابر ہے۔
جب سرکاری تعلیم کا معیار اس غرض کا ہوگا تو کون اپنے بچوں کو تعلیم کی
جانب راغب کرے گا۔اس میں سرکاری اداروں کا قصوراتنا نہیں بلکہ سیاسی اثر و
روثق کا بے جا استعمال اس کی بہتری کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جب تعلیم
دینے والا ہی پرچی پر آئے گا تو وہ کیا گلُ کھلائے گا۔ اساتذہ کی من مانی
بھرتیاں جنہیں نہ کل کی پتہ نہ آج کی خبر ہو وہ نئی نسل کو کیا سوچ و فکر
دینگے اور شاہد اسی وجہ سے پاکستان کے دو کڑوڑ سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم
کے زیور سے آراستہ نہیں ہو رہے اور یہ نائجیریا کے بعد دوسری بڑی آبادی ہے
جو اسکولوں سے باہر ہے۔ اب یہ انُ لوگوں کو سوچنا ہے جن کا جینا مرنا
پاکستان کے ساتھ ہے۔
ایک نجی ادارے کے مطابق اگر جدید تعلیم کی بات کریں تو اس میں پاکستان کا
105 واں نمبر ہے جبکہ بھارت 83، افغانستان 128، چائنا 60 اور ملائشیا 45
ویں نمبر پر آتا ہے۔ اسی طرح پرائمری اسکولوں میں طلبہء کے اندراج میں
پاکستان کا 117 واں نمبر آتا ہے جبکہ بھارت 90، ایران 11 اور بنگلادیش 87
ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح سیکنڈری اسکولوں کی بات کریں تو پاکستان 114 ویں،
بھارت 89، افغانستان 99 اور چائنا 56 ویں نمبر پر آتا ہے۔ اگر یونیورسٹی کی
تعلیم کی بات کریں توپاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی سو نہیں دوسو
نہیں بلکہ پانچسویونیورسٹیوں میں بھی نہیں آتی جبکہ نیشنل یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پانچ سو ایک نمبر پر اور قائد اعظم یونیورسٹی ساتھ سو
ایک نمبر پر آتی ہے۔ پاکستان دنیا کے انُ چھ ممالک میں آتا ہے جن کی آبادی
دنیا کی نصف آبادی کے برابر ہےلیکن دنیا کے مقابلے یہاں کا تعلیمی معیار
بہتری کی طرف گامزن ہونے کے بجائے پستی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
پاکستانی حکومت کو تعلیم کے فروغ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد
ضرورت ہے۔ یہ پاکستانی والدین کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل
روشن کررہے ہیں یا انُ کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ
اچھی تعلیم سے انسان کو شعور ملتا ہے اور اس کا عمل دخل روزگار سے وابستہ
نہیں ہوتا تعلیم کے ساتھ ہنر کو بھی لازمی سیکھنا بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔
البتہ قومیں اپنا مستقبل تعلیم سے علم کی شمع جلائے بغیر روشن نہیں کرسکتی
آج جو قومیں ترقی یافتہ فہرست میں آتیں ہیں وہ یا تو اپنی تعلیم یا ہنر کی
بدولت ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی ہیں۔ اب سوچنا ہمیں ہے کہ ہم کس راہ پر
گامزن ہونگے۔ |