اسلامی تہذیب وتمدن کے بارے میں یورپی
دانشور نے لکھا ہے کہ ’’عربوں نے صدیوں تک عیسائی قوم کی رہنما ئی کی اوریہ
عربوں کا احسان ہے کہ ہم روم اور یونان کے قدیم علوم سے واقف ہوئے۔یہی وجہ
ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تعلیم کے میدان میں عربوں کی تصنیفات کواپنی زبان
میں منتقل کر کے۔اس سے فائدہ اٹھایا۔اور ایک یورپین جس نے اپنی کتاب تاریخ
سائنس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ گیارہویں صدی عیسویں میں علم وحکمت کاحقیقی
ارتقاء مسلمانوں کے کارہنِ منت ہے۔اسی طرح سے رابر بریفولٹ نے اپنی کتاب
میکنگ آف ہیومینٹی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ موجودہ دنیا پر اسلامی
علوم وفنون کا بڑا احسان ہے۔عربوں نے علم کے تمام چشموں سے علم سے ہم کو
فیضیاب کیا۔
آج سے کئی صدیوں پہلے یوروپ ایک پس ماندہ ملک تھا لیکن آج پوری دنیا کا سب
سے طاقتور ملک بن گیا ہے ۔اگر ہم یورپ کی تاریخ کواُٹھا کر دیکھیں گے تو ہم
کوپتہ چلے گا کہ اصل میں یورپ کی ترقی کے پیچھے چھپے ہوئے ہم ہی ہیں جب
اندلس(اسپین) کو ایک مردِ مجاہد طارق بن ضیاد نے فتح کیا تو مسلمان علماء ،دانشور،سائنسدانوں
نے یہاں پر اشاعت اسلام کا مرکز قائم کیاا ور علم کاچراغ روشن ہونے لگا تو
دنیا بھر سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیاکرتے تھے۔اوریہاں یوروپ سے بھی
طالبِ علم تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ہم معلم تھے اور سب طالبِ
علم تھے ۔
اور جب اندلس(اسپین) میں زوال کا وقت آپہنچا تو جب تک یورپ ایک معاشی قوت
بن کے اُبھرنے لگا۔اوراندلس میں مسلمانوں کو شکست ہونے کے بعد یورپ کا ایک
حصہ بنا اور آج بھی اندلس میں ہماری تعمیرات مساجد(خاص کر کے مسجد قرطبہ)
ایک شاندار اور دلچسپ تعمیر کردہ آج بھی موجود ہے۔
لیکن افسوس درافسوس ہم ہماری تاریخ کے بارے میں ہم کو کچھ بھی نہیں معلوم
کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
کس دور پہ نازاں تھی دنیا اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
غیروں کی کہانی یاد رہی ہم اپنا فسانہ بھول گئے
اصل میں ہم اپنی تاریخی واقعات کو بھلا بیٹھے ہیں اسلئے درد ر کی ٹھوکر یں
کھارہے ہیں۔لیکن یوروپ نے ہمارے سائنس دانوں کے ذریعہ ٹیکنالوجی کے میدان
میں وہ کارنامہ انجام دیا جو مسلمان سائنسدانوں نے اُس کی بنیاد ڈالی تھی ۔
ہمارے مسلمان سائنسدانوں کی بیشمار کتابیں کابہت سالوں پہلے ا یورپ کی
زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔آج بھی یوروپ کی یونیورسٹیوں میں وہ کتابیں
پڑھائی جاتی ہیں۔مسلمان سائنس دانوں کے وہ ایجادات آج بھی موجود ہے۔
’’ابن الہیشم نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کیمرہ ایجاد کیا اور
انہوں نے سائنسی دنیا میں ایک ایسی کتاب لکھی جو پورے سائنس کے میدان میں
ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ان کی کتاب المناظر یورپ میں بھی اس کا ترجمہ
کیاگیا ہے ۔اورایسے کئی مسلمان سائنسدانوں کی کتابوں کایورپ میں ترجمہ
ہواہے۔اور ان کتابوں سے یورپ آج تک فیضیاب ہورہا ہے۔لیکن آج کے مسلمانوں کی
بڑی محرومی ہے کہ وہ اس ۔سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔
سائنس مرہُونِ منت ہے ،تہذہبِ حجاز کی
قُرونِ وسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی وہ
فصل اب تیار ہوچکی ہے ۔ اورموجودہ دور اُس فصل کی کاشت کرتے ہوئے اُس کے
گوناگوں فوائدے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔مسلمان جب تک علم کی روِش پر قائم رہے
سارے جہاں کے امام اور مقتداء رہے جو انہیں علم سے غفلت برتی ثریات سے ز
مین پر آسمان نے ہم کو دے مارا،آج ہم اس کا خمیازہ بُھگت رہے ہیں اورآج
ہمارے اسلاف کا سرمایۂ علمی وفکری اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
آج مغرب اس بات کا مسلمہ طور پر اقرار کرچکا ہے کہ جدید سائنس کی تمام تر
ترقی کا انحصار قرونِ وسطیٰ کے مسلماں سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر
قائم ہے ۔مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کرنے کی ترغیب قرآن وسنت
کی تعلیمات سے حاصل ہوئی تھی۔یہی منشائے ربانی تھا جس کی تکمیل میں
مسلمانوں نے ہر شعبۂ علم کو ترقی دی۔آج اغیار کے ہاتھوں ہی علوم نکتہ کمال
کو پہنچ چکے ہیں۔آج ہم اپنے اجداد کے سائنس کا رہائے نمایاں کی پیررو کرنے
یا کم از کم فخر کرنے کے بجائے اس سے لاتعلق ہوئے ہیں۔
مذہب اور سائنس دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اسلام کی پیروی سے مذہب اور
سائنس دونوں دینِ مبین کا حصہ ہیں ۔
سائنس کا دائر کار مشاہداتی اورتجرباتی علوم پر منحصر ہے۔جبکہ مذہب اخلاقی
وروحانی اور مابعد الطیبعیاتی اُمور سے متعلق ہے سائنس انسانی غور وفکر اور
استعداد سے تشکیل پانے والا علم ہے جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم ہے
۔اس لئے سائنس کا سارا علم امکانات پر مبنی ہے۔جبکہ مذہب کا سارا علم سراسر
قطعی ہے اورمذہب کی ہر بات حتمی اوراَمر واجب ہے ۔
خالقِ کائنات نے اس کائنات میں کئی نظام بنائے ہیں اور کائناتی نظام کے
حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمع نظر ہے ۔اورمذہب یہ بتاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے
ساری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔سائنس کی ذمہ داری ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کے پیدا کردہ عوالم اوراُن کے اندر جاری وساری عوامل کا مطالعہ کرے
اورکائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوعِ انسان کی فلاح
وبہبودی کے لئے استعمال کرے۔
سائنس ،مشاہدے اور تجربے کا دوسرا نا م ہے۔سائنسی طریقِ کار کے بانی معروف
مسلمان سائنس دان ابو البرکات صبغت اﷲ بغدادی ہیں۔جنہوں نے اسلام کی آفاقی
تعلیمات اوراُن کے سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور وفکر کے بعد
اسلام قبول کیا تھا۔خدائے بزرگ وبر ترنے اپنے محبوب نبی اکرمﷺ کے ذریعہ
اپنے بندوں کو کائنات کے اسرار ورموز پر غور خوض کا جا بجا حکم دیا ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے اسلام کو معجزات ہی کے دائرے میں رکھنے کے بجائے اُسے غور
وفکر اور تجربہ اور تجزیہ کرنے کی نمایاں عقلی وفکری چھاپ عطا کی ہے ۔مذہب
خالقِ Creatorسے بحث کرتی ہے اور سائنس اﷲ تعالیٰ کی پیداکردہ خلق سے
(Creatim)اگر انسان ساری کائنات پرغور وفکر اورسوچ وبچارمثبت اورصحیح انداز
ے کرتا ہے تو اس تحقیق کے کمال پر پہنچنا انسان کو اﷲ تعالیٰ یعنی خالق کی
معرفت نصیب ہوگی اور بے اختیار پکار اُٹھے گا۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذا
بَا طِلَا،(اے ہمارے رب !تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا
ہے )۔(ماخوذ:یوسف حسین )
سائنس سے دور مسلمانوں کی بڑی محرومی
مسلمانون کے عروج وزوال پر دنیا کے متعدد انشور وں نے اپنی رائے کا اظہار
کیا ہے۔اور بیشتر کاخیال ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی سے قربت اورپھر دوری ہی
ان کے عروج وزوال کاسبب بنی۔ہندوستان کے مختلف علمائے کرام اور دانشور حضرت
نے بھی زوال اسلامی کے کیاسباب پرروشنی ڈالنے کی سعی بھی کی ہے ۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی :مسلمانوں نے وقت کی قدر نہ کی اور صدیاں ضائع
کردیں برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوں کی مسافت برسوں
میں لگایا۔مسلمان اپنی علمی روشن بھول گیا او ر مقلدانہ اورروایتی ذہینت کا
شکار ہوگیا اور اس طرح سائنس اورٹکنالوجی میں پیچھے رہ گیا اورمغرب نے اسے
غلام بنادیا۔
مولانا ابو الکلام آزاد:غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں ۔اب
خدا کے لئے بستر ہوشی سے سراٹھا کردیکھئے کہ آفتاب کہاں پہنچ چکا ہے آپ کے
ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اورآپ کہا پڑے ہوئے ہیں۔(غبار طاظر،ابو الکلام
آزاد)۔اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر
عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرانہ
جائیں اور اس لئے ہے کہ اس چیز کو محسوس کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم
کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کہاں تبدیلی
ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم از کم یہ
تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے۔
مولانا شبلی نعمانی :آج(1909)ہندوستان میں موجودہ سلطنت اورپوروپین علوم
وفنون کے اثر سے قوم کے خیالات میں معلومات میں عظیم الشان انقلاب پیدا
کیاہے ۔ایسی حالت میں کیا وہ علماء قوم کی رہبری کرسکتے ہیں جوآج کل کی
تحقیقات آج کل کے خیالات اورآج کل کے حالات میں محض ناآشنا ہوں
مولانا سلیمان ندوی:جدید علوم سے بے خبر علماء اسلام کی سچی خدمت انجام
نہیں دے سکتے ہیں ،آج ہم ایک تماشائی بن کرزندہ نہیں رہ سکتے ہیں ۔
سرسید : فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں میں اور
کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ﷺ کا تاج سر پر ۔
حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری:اسلام باتوں سے نہیں قائم ہوسکتا ہے۔اگر
دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا ہے تو جدید علوم سیکھنے ہوں گے۔جب
کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا تو وہ نہ دین کی خدمت کرسکتا ہے اور
نہ دنیا کی ۔
سید وقار حسینی :مسلمانوں نے اٹھا رویں صدی علم کو دو حصوں بانت دیا ۔ایک
علوم شریعہ اور دوسرے علوم عقیلہ ،عقلی علوم میں اقتصادیات اور سائنس کو
شامل کرکے اسے نچلا درجہ دیاگیا۔وہ بھول گئے کہ قرآن کی روح سے عقلی علوم
کو معنویت (Legitimacy)اہمیت اورفرضیت حاصل ہے ۔مزید یہ کہ تمام شرعی علوم
بھی عقلی علوم ہیں کیونکہ جب سے مسلمانوں نے اس علمی روشن کو ترک کیا اور
غزالی ،ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کی واضح تحریروں سے منہ موڑ ا سائنس ان
کی سرزمین سے منہ موڑ گئی اور خودان کا مذہب بھی زوال اورانحطاط پذیر
ہوگیا۔
آج سے کئی صدیوں پہلے یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں مسلمان اپنے عہد عروج میں
یورپ کو علم وثقافت کے چشموں سے سیراب کیا ۔اندلس (اسپین ) جسے یورپ کا
استاد کہا جاتا ہے جنہوں نے اندلس میں اعلیٰ درجہ کی جامعات قائم کی اور
پھر علم ودانش کی ان یونیورسٹیوں سے یورپ فیضیاب ہوا اور انہوں نے مسلمانوں
کی علمی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا۔یورپ کے روشن دماغ،دانشور اور فضلاء
تھے جنہوں نے تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کو روشن کرنے کیلئے مسلمانوں کے
چراغ سے اپنا چراغ جلایا ۔آج یورپ کی تہذیب ہماری اقدار کو نظرانداز کرتی
ہے لیکن مغربی تہذیب اور وہاں کی تمدنی ورثہ کا سہرا مسلمانوں کے سربند
ھاجاسکتا ہے ۔اُس زمانہ میں مسلمان ہی علم کے قافلہ کے سالار اورتہذیب
وتمدن کے سرمایہ دار تھے۔علم کی روشنی اندلس ،اٹلی سے ہوتے ہوئی یوروپ تک
پہونچی اسپین میں بہت سے علمی مراکز قائم تھے۔ان علمی اداروں میں مسلمانوں
کی مشہور تصنیفات کا لاطینی زبان میں ترجمعہ کیا جانے لگا ۔صرف مسلمانوں کے
مشہور اسکالر کی کتابوں کے ترجمے نہیں ہوئے۔بلکہ یونا ن کی معروف ومشہور
کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے جن کو عربوں نے اپنی زبان میں منتقل
کیاتھا۔مسلمانوں نے نہ صرف قدیم یونانی ورثہ کی حفاظت کی بلکہ اس میں قابل
ذکر اضافے کئے پورے یوروپ پر عربوں کا احسان ہے اورپانچ صدیاں یوروپ میں
ایسی گذری ہیں کہ وہاں کی یونیورسٹیاں عربوں کی تصانیف کے سواد وسرے علمی
تراجم سے واقف ہی نہ تھیں ۔گویا یہ مسلمان عرب تھے جنہوں نے یوروپ کو علمی
ترقی کار استہ دکھا یا۔
– ہم اس بات کو سائنس کی رو سے واضح نہیں کرسکتے تھے ۔لیکن جب خود ہم نے
سائنس کے اندر نظر یہ اضافت(Theory of Relativity)پڑھا تو پھر بات سمجھ میں
آئی۔یہ تھیوری آئن سٹائن و ہ سائنس دان ہے کہ آج کی سائنس کی دنیا میں اس
کی اس طرح عزت کی جاتی ہے جیسے دین کے میدان میں کسی پیغمبر علیہ السلام کی
عزت کی جاتی ہے ۔اس نے نظریہ اضافت(Theory of Relativity)پیش کیا
اس نے اس نظریے میں وقت کے پھیلنے (Time Delation)کا تصور دیا ۔وہ تصور یہ
تھا کہ اگر ایک (Frame of reference) ہو تو اس فریم آف ریفرنس کے اندر وقت
گزرنے کا اپنا ایک معیار ہے ۔ایک اور فریم ریفرنس ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے
اندر وقت اور زیادہ تیزی کے ساتھ گز ر رہا ہو۔یا دیر کے ساتھ گزرہا
ہو۔چنانچہ یہ Relative Timeہے۔پھر بات سمجھ میں آئی کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے
ہیں کہ فرشتے یہاں آتے ہیں ۔’’قیامت کا دن ایک ایسا دن ہے کہ دنیا کے پچاس
ہزار سالوں کے برابر وہ دن ہے ‘‘۔ہم نے کہا:یہRelative Timeکا تصور کوئی
نیا تو نہیں ہے۔یہ تو چودہ سال پہلے کہہ دیا کہ دنیا کے پچاس ہزار سال
گزریں گے اورآخرت کے حساب سے ایک دن گزرے گا۔ہمیں اس بات پرحیرت بھی ہوئی
اورخوشی بھی ہوئی کہ یہ تصور تو دین سے نکلا۔شریعت نے دیا ،قرآن نے
دیا،لیکن اگلا سوال ذہن میں آیا کہ جنت میں لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور
وہاں وقت ایک جیسارہے گا۔یہ کیسے ممکن ہے ؟ تو پھر اسی نظریہ اضافت(Theory
of Relativity)نے اس بات کو بھی ثابت کردیا۔
واقعہ معراج کے اندر دوطرح کی سواریوں کاتذکرہ ہے ۔ایک سواری کا تذکرہ
مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں کیا۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’پاک ہے وہ
ذات جواپنے بندے کو لے گئی مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصی تک‘‘اس سفر کے لیے
حدیث پاک میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے براق کو بھیجا ۔یہ براق کا لفظ برق سے
ہے ۔اور برق کہتے ہیں بجلی کو ۔گویا بجلی کی طرح تیز رفتاری سے چلنے والیہ
یہ سواری تھی۔یہ دنیا کا افقی (Horizental)سفر براق کے ذریعے کیاگیا۔
نبی علیہ اسلام فرماتے ہیں :وہاں پر میں نے انبیاء کی امامت کرائی ۔اورپھر
میرے لیے ایک دوسری سواری کو لایاگیا ،جس کا نام رفرف تھا۔ہم نے جب رفرف کی
تحقیق کی توپتہ چلا کہ یہ وہ سواری ہوتی ہے جو انسان کو اونچائی کی طرف لے
کر جاتی ہے ۔اس کوآج کے زمانے میں لفٹ(Elivater)کہتے ہیں۔یہ لفت ایسی سواری
ہے کہ آپ اس میں بیٹھ جائیں تو وہ آپ کو سوویں منز ل پر پہنچا دے گی۔تو
شریعت نے براق کا لفظ افقی (Horizental)سفر کے لیے استعمال کیا اورجہاں
عمودی (Vertical)سفرکرنا تھا۔آسمان کی طرف،اس کے لیے رفرف سواری کو
بھیجاگیا۔
اب سوال پیدا ہوتاہے کہ ٹائم کیسے تھم گیا؟اسکا جواب یہ ہے کہ نظریہ اضافت
(Theory of relativity)میں ایک ہے ،وقت کاپھیلا ؤ(Time delation) یہ وقت
پھیلاؤ کا تصور اس طرح ہے کہ اگر فریم آف ریفرنس کی سپیڈ Speed of lightکے
برابر ہوتو ٹائم ہمیشہ ایک رہے گا تبدیل نہیں ہوگا۔اگریہ سپیڈ کم ہوتو جواب
مثبت(Positive)آئے گا اور مستقل رہے گا۔یعنی ٹائم آگے کوحرکت کرتا رہے
گا۔اور اگر فریم آف ریفرنس کی سپیڈ Speed of lightسے زیادہ ہوتو جواب منفی
(Negative)آئے گا۔اس طرح انسان کاماضی آنا شروع ہوجائے گا۔ گویا معلوم یہ
ہوا کہ قیامت کے دن جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال نامے دکھانے
ہوں گے تو ہوسکتا ہے کہ فریم آف ایفرنس کی سپیڈ ذرا تیز کرکے دکھادیں ،ری
پلے کرکے،کہ اے میرے بندے ! تم دیکھو!تم نے اپنی زندگی ایسے گزاری ۔آج کل
ٹی وی کے اوپر بھی ایک کھلاڑی(Player)اگر اچھا شارٹ کھیلتا ہے تو اس کوری
پلے کرکے دکھاتے ہیں۔تو اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی ری پلے کرنے کا ایک نظام ہے
۔کہ ہر بندے کو ہم اس کی زندگی دکھائیں گے اور وہ انکار ہیں کرسکے گا کہ
میں نے یہ کام نہیں کیا اس کو مانناہی پڑے گا۔پھر فرمایا کہ جنت میں ایک
جیسا وقت رہے گا۔ہوسکتاہے کہ وہاں فریم آف ریفرنس کی سپیڈ،روشنی کی
رفتار(Speed of light)کے برابر ہوجس کی وجہ سے ہمیشہ حا ل رہے گا اوروہاں
پر ٹائم آگے بڑھے گاہی نہیں۔
نبی علیہ اسلام جب معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تو اﷲ رب العزت نے آپ ﷺ کو
اتنے وقت میں واپس بھی پہنچا دیا کہ وضو کاپانی بھی چل رہاتھااور بستر بھی
گرم تھا۔ہوسکتا ہے کہ آگے کاسفر ایک ایسے Frame of referenceمیں ہو کہ یہاں
پر ابھی ٹائم گزراہی نہ ہو اور وہاں سے سفر کرکے ہی واپس آگئے ہوں۔
ہمارے ہاں دیہاتوں میں لوگ فجر کی اذانون سے بھی پہلے اٹھتے ہیں اور وہ ہل
چلانے کے لیے اپنی زمینوں میں چلے جاتے ہیں۔منہ اندھیرے ہی چلے جاتے ہیں
۔اور وہ نو دس بجے تل ہل چلاتے ہیں کیونکہ وہ بہت محنت مشقت کاکام ہوتاہے
۔وہ دوپہر کی گرمی سے پہلے پہلے اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں۔نودس بجے تک
ان کو خوب پسینہ آیاہوتا ہے اورخوب تھک چکے ہوتے ہیں ۔اس وقت ان کا جی
چاہتا ہے کہ کوئی ناشتہ لائے اور ہم کچھ کھائیں پئیں۔توہم نے دیکھا کہ ان
کی بیویاں ان کا ناشتہ تیار کرکے اورلسی ساتھ لے کر اپنے خاوند کے پاس جاتی
ہیں ،تاکہ وہاں کھیت میں ان کو ناشتہ کرواسکیں ۔چنانچہ وہ جیسے ہی اپنی
بیوی کوآتے دیکھتے ہیں تو وہ وہیں ہل روک دیتے ہیں ۔وہ پہلے ناشتہ کرتے ہیں
اور بعد میں کوئی کام کرتے ہین اس پر کسی شاعر نے ایک عجیب مضمون باندھا
،وہ کہتا ہے ۔
پیا لونگ دا جدوں لشکارا
تے ہالیاں نے ہل ڈک لَے
’’جب بیوی کے لونگ(ناک کے زیور) کا لشکار پڑتا ہے تو ہل چلانے والا اپنے ہل
کو روک لیتاہے ۔ہمیں بھی کچھ یو نہی لگتاہے کہ جب محبوب ﷺ کے آنے کا وقت
ہواتو اﷲ تعالٰٰ نے بھی کائنات کے نظام کو اسی جگہ روک دیاتھا۔ملاقات کے
بعد جب واپس آئیں گے توجہاں پہ ٹائم تھا وہیں سے آگے چلائیں گے۔توآج واقعۂ
معراج کو Explain(وضاحت)کرنا بہت آسان ہے ۔
نبی علیہ السلام کی معراج کا واقعہ قرآن مجید میں ہے ۔لیکن جب ہم سائنس
پڑھتے تھے اس زمانے میں اس پر لوگ بہت زیادہ اعتراض (Objaction)کرتے
تھے۔خاص طورپر جو سائنس پڑھے ہوئے تھے وہ ہمارے سامنے یہ بات کرتے تھے۔ان
کے سامنے ہمیں بات کرنا ذرا مشکل نظر آتا تھا۔وہ کہتے تھے کہ کیسے تھوڑی
دیر کے اندر وہ آسمان پر بھی چلے گئے ،واپس بھی آگئے اور ٹائم بھی پاس نہیں
ہوا،وضو کا پانی بھی چل رہاتھا،بستر بھی گرم تھا ،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ |