ممبئی شہر امن وآشتی ، خلوص ومحبت کا شہر ہے ۔ یہاں ہر
مذاہب ومسالک کے افراد رہتے ہیں۔ یہاں ایک طرف حاجی علی سے صدائے اللہ اکبر
بلند ہوتی ہے تو وہیں مہالکشمی مندر سے آرتی وارچنا کی آوازیں بھی سنائی
دیتی ہیں۔ یہ ایسا شہر ہے جہاں مسلمان حاجی علی جانے کے لئے مہالکشمی
اسٹیشن اترتے ہیں تو وہیں برداران وطن ممبادیوی جانے کے لئے مسجد اسٹیشن
اترتے ہیں۔لیکن 2014کے بعد پورے ملک کے حدود اربعہ میں فرقہ پرست عناصر کی
طرف سے جو نفرت اور شرانگیزی کی مہم چلائی گئی ہے اب وہ آنچ ممبئی تک پہنچ
چکی ہے اور ممبئی بھی نفرت وتعصب کی زد میں آگئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے
کتراتے نظر آرہے ہیں جو کل کبھی شیر و شکر کی طرح گھلے ملے رہتے تھے ـ
وہیں بالی ووڈ بھی دو حصے میں منقسم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جس
میں مذہبی جنون حلول کرگیا ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو الحاد کے ساتھ ساتھ
سیکولرزم پر بھی یقین رکھتا ہے ، خواہ بالی ووڈ کا مذہب و مسلک سے کوئی
تعلق نہیں ہے ؛ لیکن جہاں اس کے اسٹار بشمول انوپم کھیر، سلمان خان، شاہ رخ
خان، پوجا بھٹ، پرینکا چوپڑا وغیرہ آئے دن اسلام موافق اور مخالف بیان دے
رہے ہیں اس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ اب بالی ووڈ کے اسٹار بھی مسلک ومذہب میں
دلچسپی لینے لگ گئے ہیں۔ حالیہ بیان سونو نگم کا ہے انہوں نے اذان کے متعلق
ٹوئٹ کے ذریعہ اسے مذہبی غنڈہ گردی کہہ ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے ہر
جانب سونو نگم کی بے ہنگم آوازیں گونج رہی ہیں اور لوگ حمایت ومخالفت میں
رائی کا پہاڑ بنا چکے ہیں۔ معاملہ ملکی سطح سے اُٹھ کر عالمی سطح تک پہنچ
چکا ہے۔ ہر چہار جانب سے ان پر تھوتھو کی جارہی ہے سوشل میڈیا پر تو طوفان
بدتمیزی بپا ہے۔ اور قومی میڈیا میں تو صرف سونو ہی سونو ہے ۔پل پل ایسی
خبریں شائع ہورہی ہیں کہ’’سونو نگم نے اذان پر متنازعہ ٹوئٹ کیا" ،سونو نگم
کو گنجا کرنے والے کو دس لاکھ روپئے کا انعام ، سونو نگم گنجا ہوگیا ، سونو
نگم نے متنازعہ ٹوئٹ پر مسلمانوں سے معافی مانگی، سونو نگم پر اورنگ آباد
میں مقدمہ درج ‘‘ وغیرہ ۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ آپ معروف ہونے کے باوجود
گمنام ہوچکے ہیں تو اگر ایک پھر سرخی میں آنا ہے ،شہرت کی بلندی کو پھر سے
چھونا ہے تو اسلام پر بے جا اعتراض کردیں، آج کل یہی حال سونو نگم کا ہے۔
نئے نئے سنگرس جیسے عاطف اسلم، راحت فتح علی خان، کےکے، شان وغیرہ کے آنے
کی وجہ سے سونو نگم کی آواز بے ہنگم اور کانوں کے ذوق سماعت کے لئے ناکارہ
ہوچکی ہے ، جو کبھی پچاس پچاس طرز اور سُرتال پر گا لیتا تھا اسے آج کوئی
گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔ جسے کبھی آواز کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا آج
فقیر بنا بیٹھا ہے۔ جسے لوگ محمد رفیع ثانی کہتے تھے آج وہ کسی مقام
پرنہیں ہے ، شہرت وبلندی کے اونچے گراف سے نیچے آکر پستی میں ڈھیر ہوچکا
ہے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لئے اپنے ویڈیو
’کرکٹ والی بیٹ‘ کو پروموٹ کرنے کے لئے اذان کا سہارا لیاہو۔ کیوں کہ جو
شخص تین سال کی عمر سے ہی ڈی جے، لائوڈ اسپیکر اور اس طرح کے بے ہنگم سروں
والے آلات سے سے واقف ہو اسے لائوڈ اسپیکر پر اذان کیا تکلیف پہنچائے گی؟
لیکن ان کا اذان پر اعتراض اور اس اعتراض پر ہمارے رد عمل نے سونو نگم کو
اور مشہور کردیا۔ اور اس کی دکان چل پڑی۔ جو بھی نہیں جانتا تھا وہ بھی
سونو نگم کے تعلق سے تجسس میں مبتلا ہوکر اسے ڈھونڈ رہا ہے، پڑھ رہا ہے! یہ
ہماری کمزوری ہے کہ ہم اعتراض کا جواب دینے کے بجائے ان پر رد عمل کرناشروع
کردیتے ہیں۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اذان پر اعتراض نہیں کیا ہوگا
اگر کیا ہوگا انہوں نے تو اذان کے بعد رونما ہونے والی حرکتوں پر لب کشائی
کی ہوگی کیوں کہ ان کے نزدیک وہ بھی اذان کے الفاظ ہیں لہذا انہوں نے اسے
اذان کہہ ڈالا۔ ہمیں اس جانب غور کرناچاہئے۔ ویسے سونو نگم نے صرف اذان پر
ہی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ مندروں
گرودوارہ کا بھی تذکرہ کیا تھا لیکن ہندوستانی میڈیا جسے مسلمانوں سے اللہ
واسطے کا بیر ہے سونو نگم کے ٹوئٹ کو مسلمانوں سے جوڑ کرایک الگ ہی رنگ دے
دیا۔ ہر طرف سے سونو نگم کی مذمت ہونے لگی۔کسی نہ سستی شہرت حاصل کرنے کا
ذریعہ بتایا توکسی نے عظمت رفتہ کی بحالی کا ذریعہ۔۔ تو کسی نے سونو کو
گنجا کرنے پر دس لاکھ کی رقم کا تعین کردیا۔ خبر آرہی ہے کہ سونو نگم نے
اپنے متنازعہ ٹوئٹ سے معافی مانگ لی ہے۔ اور انہوں نے مغربی بنگال کے
مولاناصاحب کے گنجے والے بیان پر خود ہی گنجا ہوکر دس لاکھ روپئے کا مطالبہ
کرڈالا۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ممبئی میں صوتی آلودگی کافی ہے۔ ہر دس میں
سے آٹھ بندہ ذہنی سکون کا متلاشی ہے۔ شور پڑتی ٹریفک ، ہارن بجاتی ریل
گاڑیوں کی آوازوں سے انسانی کان آوازوں کی دکان بن چکے ہیں۔ حکومت کو
چاہئے کہ وہ تمام ایسے جگہوں کو سائلنٹ زون قرار دے ۔ بہرحال اذان ہمارا
مذہبی فریضہ اور آرتی وبھجن برادران وطن کا مذہبی عمل اس پر پابندی اور اس
کی آواز سےلوگوں کو تکلیف ہو یہ مذہب پر اعتراض ہے۔ اگر ان کا اعتراض بجا
ہے تو ہمیں بھی ان کے گانے پر اعتراض ہے کیا وہ گانا چھوڑ دیں گے؟ نہیں اسی
طرح ہم اپنے مذہبی فریضے اذان کو نہیں چھوڑ سکتے یہ خالق کی طرف سے مخلوق
کو عبادت کے لئے بلائے جانے والے الفاظ ہیں جسے سن کر مسلمان مسجد میں خدا
کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے ہم اس سےکنارہ کشی نہیں اختیار کرسکتے لیکن ہم
یہاں اپنے مسلم بھائیوں کو یہ بات ضرور کہیں گے کہ وہ اذان کے نام پر
دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا سبب نہ بنیں ـ اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے
یہاں کسی کو تکلیف پہنچانے کا عمل نہیں کیاجاتا اگر کسی نے ہمارے اذان پر
اعتراض کیا ہے تو ہمیں سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیا ہم صرف
اذان ہی دیتے ہیں یا اس کے ساتھ بھی کچھ اور عمل کرتے ہیں جس کا مذہب اسلام
سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر ایسا ہے تواسے چھوڑیں اور مذہب میں نئی چیز ایجاد
کرکے برادران وطن کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ یہی ہماری تعلیم ہے اور یہی ہمارا
مشن۔ ایسی اذان دیں کہ پرینکا چوپڑا کی طرح سونو نگم بھی اذان کی آواز پر
خوشی محسوس کرسکیں اور انہیں بھی سکون میسر ہو متنازعہ ٹوئٹ کی ضرورت نہ
پیش آئے او رنہ واویلا اور نہ شورش ہوسکے ـ۔ |