جوابِ شکوہ و التجاء

ظالم ہو تم خود اور ظلم سہنے والے بھی ہو تم دنیا میں اپنے اپنے اعمال کے حوالے ہو تم
شمع کُشتہ نہ بنو ظلمتوں کے اجالے ہو تم کر و شُکرِ خُدا کے اُمتِ محمد والے ہو تم

شمع کُشتہ نہ بنو ظلمتوں کے اجالے ہو تم کر و شُکرِ خُدا کے اُمتِ محمد والے ہو تم

پچھلے ہفتے میں نے شکوہ و التجاء پوسٹ کیا تھا اور اب اس کا جواب تحریر کر رہا ہوں ہمارے معاشرے میں دن بدن ایمان کا تاثر ختم ہوتا جا رہا ہے ہم لوگ مغربی زمانوں کی بے پردگی اور بے حیائی کو اپنا کر اپنے دین ایمان قرآن اور اپنے مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں
مغربی زمانوں کی بے ڈھنگی روایات کو ہم لوگ اپنی کامیابی تصور کرنے لگے ہیں گھروں میں رکھی ٹی وی پر ہم دھول جمع نہیں ہونے دیتے مگر گھر میں رکھے رکھے قرآنوں پر دھول جمع ہو جاتی ہے ہمارے پاس گھنٹوں ٹی وی دیکھنے کا وقت تو ہے بڑی بڑی میٹنگز میں ہم لوگ مصروف تو رہتے ہیں اگر وقت نہیں ہے تو نماز اور قرآن کے لیے نہیں ہے ۔
اپنے آپ کو فرقوں ذات پات اور اونچ نیچ جیسے ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے حالانکہ ہیں سب ایک ہی نبی کے اُمتی ایک ہی قرآن ایک ہی اللہ کے ماننے والے اگر سوچا جائے تو ان فرقوں کی وجہ سے ایک نبی کی قوم کئی ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے
کہیں فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں کا رونا ہے
باعثِ شرم میرے لیے تمہارا مسلمان ہوناہے
اسلام ایک مکمل دین ہے ہم اس دین کے ماننے والے ہیں مگر ہم میں ہی اب اس کا تاثر ختم ہوتا جا رہا ہے
انہی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے شکوہ و التجاء اور پھر جوابِ شکوہ و التجاء تحریر کیا

جوابِ شکوہ و التجاء

تجھ سے پہلے بھی تو زمانوں نے قیامت کی نظر سہی ہے
ازل سے ابد تک اے انسان تیری فطرت میں کمی رہی ہے
آئی ندا ایک ہلچل سی ہو گئی ہے عرشِ بریں پر
دہرایا ہے کسی نے اقبال کا شکوہ فرشِ زمیں پر
ہو اہے خاکی پھر اپنے گناہو ں سے بے خبر
شاید کے ہو چکا ہے اس کا ایمان بے اثر
زمیں و آسمان ہیں غمناک اے خاکی تجھ کو ہوا کیاہے
تیرے اعمال ہیں جب تکلیف کا سبب تو ہم سے شکوہ و التجا کیا ہے
نہیں تو اقبال شکوہ تو سرِ بازار لایا
صبر و شکر کا شعور رکھ کر بھی نا شکر کہلایا
نہیں ہے گر تیر ا غم اقبال کے غم سے جُدا
ہونا چاہیے شکوے میں شامل کچھ حسنِ ادا
اقبال نے کیا شکوہ حسنِ بیاں کے ساتھ
تو نے کیا شکوہ حسنِ التجاء کے ساتھ
مقبول اس لیے بھی ہوا کچھ افسانہ تیرا
اُمتِ محمد کے غم میں مبتلا ہے دل دیوانہ تیرا
صبر سے لبریز ہے اگرچہ پیمانہ تیرا
ہوا منظور ہم کو قصہِ دل سنانا تیرا
نہیٰں ہے تجھے اپنی ذات کا کوئی دکھ
دکھ ہے اگر تو دکھ ہے بیگانہ تیرا
تم پر جو تہمت لگی ہے اس تہمت کی وجہ تم ہو
راستہ بھی سیدھا ہے منزل کا مگر پھر بھی گمراہ تم ہو
غربت ہے جہاں میں اگر راہیں ہموار بھی تو ہیں
جلتی دھوپ تپتے صحرا ہٰیں گر ٹھنڈے آسمان بھی تو ہیں
بتھیلیاں اُٹھانے والوں میں اب صبر و ایمان نہیں رہے
بدل جاتی تھیں جن کی تقدیریں تم اب وہ مسلمان نہیں رہے
دنیا میں باقی اگر انتظار نہ رہے
خزان خزاں ہی رہے بہار بہار نہ رہے
دانشِ فرنگ میٰں کھو جاو اگر تمہارا دھیان نہ رہے
نہ بھٹکو اتنا بھی کہ صیح راہ کی تم کو پہچان نہ رہے
کیا ہیں آزمائشیں تم پر کیا تم کو حوصلہ چاہیے
کیا تم سے پہلے کسی قوم پر امتحان نہ رہے
ہو فریاد سنگ حُسن وفا بھی تو ہو
دل میں خلوص قُربتِ خدا بھی تو ہو
دل بیدار ہیں گر ذکرِ زباں بھی تو ہو
مومن تو مومن ہے مومن گنہگار بھی تو ہو
ہدایتیں بارش نہیں جو آسمانوں سے برسا دی جاہیں
یہ تو صلہِ عبادت ہے جو چاہے اُسے مل جائے
ذوقِ تجلی ہے کسے جو میں اپنے جلوے دکھاوں
کوئی آنکھ نمناک نہیں ہے کوئی سخن شناس نہیں ہے
ہیں ہر طرف آج بھی بُتانِ عہدِ عتیق
ہیں صائبِ تصدیق کوئی سچا مسلمان نہیں ہے
دل بیدار چاہیے نہ کے باطن میں گرفتاری
دل خوابیدہ ہیں سب کوئی دل بیدار نہیں ہے
دانشِ فرنگ ہے اب تمہارے زمانوں میں
ورنہ کہا ں ہے بے پردگی کا حکم شرحِ مسلمانی میں
کہنے کو تو بنتے ہو لیلی مجنوں فرہاد جہان کے لیے
بنتے ہو باعثِ شرم تو صرف مسلمان کے لیے
تھے وہ مسلمان فقیدُالمثال
تم بنتے جا رہے ہو عبرت کا نشان
بنو ننگ مسلمانی کرو حسرتِ فردوس
ہے قاتل بھی مسلمان مقتول بھی مسلمان
ہیں مذہب کے نام پر یہ سیاستیں امروز
پھر گلہ بھی کرو کے رحم و کرم نہیں ہم پر
یہ دنیا گر قائم ہے تو کئیں نہ کئیں ارحم پر
لبِ گویا پہ ہیں اے کاش فریادیں جتنی
قُربتِ خدا سے بھی ہوتی تم کو نسبت اتنی
ہوتا جو تم کو میری ذات کا کوئی ڈر
تو مساجد سے یوں غائبِ غُلہ نہ ہوتے
ہوتا جو خوفِ خدا تمہارے دلوں میں
اپنی خطاوں پہ تم کچھ تو نادم ہوتے
ہے دنیا قائم جب تک مسلمان رہیں گے
نہ رہے گر مسلمان تو باطل و کفار بھی نہ رہیں گے
کیوں ہو مُخَرِب ایمان صائبِ ایمان ہو جاو
پیروکارِ سُنتِ محمد اور اہلِ ایمان ہو جاو
تارِک قرآن ہو کر ہدایتوں کی جستجو کرنا
کہاں سے سیکھا ہے تم نے فرض یوں ادا کرنا
ہو کوئی مُحبِ ایمان تو ہم انہونی کو بی ہونی کر دیں
اہلِ ایمان کا عَلَم بلند کفار کو انجامِ فرعونی کر دیں
مگر تمہارے ایمان ہیں مخدوش اس قدر
نااُمیدی میں پھرتے ہو دربدر
وہ بی تو مسلمان تھے جو ہر حال میں شاکر کہلائے
ہزاروں سال اندھیروں میں باطل و کفار سے ٹکرائے
تم بھی تو مسلمان ہو مگر صائبِ ایمان کہاں ہو
ندامت ہے تم پر تم اپنے نفس سے بھی نہ لڑ پائے
بلبل کو ہے امید جس طرح بہار و گلستاں سے
کیا انسان کو بھی امید ہے آج کسی انسان سے
وہ بھی تو اہلِ قرآن تھے تم بھی تو اہلِ قرآن ہو
وہ مسلمان فدا تھا مسلمان کے لیے
آج مسلمان انجان ہے مسلمان کے لیے
وقت ہے میسر دنیا جہان کے لیے
نہیٰں ہے وقت تو صرف نماز وقرآن کے لیے
قربًت خدا بھی ضروری ہے دعا کے لیے
یونہی نہ ہتھیلیاں اُٹھاو آسمان کی طرف خدا کے لیے
توحید کے بعد لازم ہیں کچھ اور بھی فرائض
صرف کلمہ کافی نہیں ہے صائبِ ایمان کے لیے
گرو ٹھوکریں کھا کر تو کہو کے رضا ہے میری
کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے اس مٰیں کیا خطا ہے تیری
تھی یہ جستجو نہ ہو کوئی شکوہِ اقبال پیدا
ہو اگر کہیں تو ہو ابراہیم کا ایمان پیدا
نہ گھبراو آزمائیشوں سے صلہِ آزمائیش ابھی باقی ہے
ہو گا نہ تیرا کبھی بُرا اگر تو اس پر شاکر ہے
ظالم ہو تم خود اور ظلم سہنے والے بھی ہو تم
دنیا میں اپنے اپنے اعمال کے حوالے ہو تم
شمع کُشتہ نہ بنو ظلمتوں کے اُجالے ہو تم
کرو شُکرِ خُدا کے اُمتِ محمد والے ہو تم
( شاعر ساگرحیدرعباسی )

sagar haider abbasi
About the Author: sagar haider abbasi Read More Articles by sagar haider abbasi: 7 Articles with 10464 views Sagar haider Abbasi
From Karachi Pakistan
.. View More