ترقی کا نمایاں پہلو روزگار کی فراہمی

معاشی ترقی کے بے شمار پہلو ہوتے ہیں۔لیکن نمایاں ترین پہلو بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی ہوتا ہے۔وہ دن تو گزر گئے جب صرف قومی آمدن میں اضافے کو ہی اہمیت دی جاتی تھی۔آج کل تو عالمی ادارے بھی یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی فلاح و بہبود پر کیاکچھ خرچ کیاجارہا ہے۔عالمی بنک کی طرف سے مختلف ممالک کی ترقی کی سالانہ رپورٹ میں بھی انسانی ترقی کے اشاریوں پر گفتگو کی جاتی ہے۔ہر ملک کے اعدادوشمار بتائے جاتے ہیں۔اس ملک کو بہتر خیال کیا جاتا ہے۔جہاں کے زیادہ سے زیادہ لوگ بنیادی سہولتوں سے فائدہ اٹھارہے ہوتے ہیں۔سہولیات صرف برسرروزگار لوگ ہی حاصل کرسکتے ہیں۔بے روزگاری کی زیادہ شرح کو مناسب خیال نہیں کیاجاتا۔پاکستان میں آج کل آبادی کی گنتی جاری ہے۔صحیح اعدادوشمار کا پتہ تو چند ماہ کے بعد ہی لگے گا۔لیکن ماہرین بہت پہلے سے20۔کروڑ کا اندازہ لگارہے ہیں۔موجودہ تمام حکمران پارٹیوں نے روزگار کی فراہمی کے اونچے دعوے کئے تھے۔مرکزی حکومت کے اب 4سال مکمل ہوچکے ہیں۔لیکن آئی۔پی۔آر جیسے معتبر ادارے اب بھی پاکستان میں بے روزگاری کی شرح مجموعی طورپر6.1۔فیصد بتا رہے ہیں۔اس طرح لیبر فورس میں سے40لاکھ افراد سرے سے کچھ بھی نہیں کمارہے۔برسرروزگار لوگوں میں ایسے بھی بہت سے افراد ہوتے ہیں۔جو اپنی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت سے نیچے آکر مجبوراً کام کررہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی پر ائمری کلاسز کوپڑھا رہا ہے۔یا ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹر بطور ڈسپنسر کام کررہا ہے ۔انہیں بھی ماہرین بے روزگار ہی سمجھتے ہیں۔ان تمام لوگوں کو اگر بے روزگاروں کی تعداد میں شامل کرلیا جائے تو تعداد تقریباً55لاکھ ہوجاتی ہے۔اس طرح بے روزگاروں کی مجموعی شرح 8۔فیصد سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔روزگار کی فراہمی کو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک چیلنج سمجھ کرحل کیا تھا۔بے روزحضرات کو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھیجا گیا اور ملازمتیں بھی بڑی تعداد میں فراہم کی گئیں۔بے روزگاری کے مسٔلہ کو بعد میں آنے والی کسی بھی حکومت نے اس طرح سے نہیں لیا۔جیسے ذولفقار علی بھٹو نے سمجھا اور اسے حل کیا۔اب تقریباً 75۔لاکھ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں روزی کمانے میں مصروف ہیں۔محمد نواز شریف نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے خود روزگار سکیموں کا کئی دفعہ اعلان کیا۔آجکل بھی ایک سکیم کا ایک سرکاری اشتہار میں اعلان جاری ہے۔ان سکیموں سے کتنے افراد نے فائدہ اٹھایا۔واقعی قرض حاصل کرلیا گیا اور وہ اپنا کام کامیابی سے چلارہے ہیں۔حکومت کی طرف سے صحیح اعدادوشمار بتانا ضروری ہیں۔لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود اگر بے روزگاری کی شرح6.1سے لیکر8فیصد تک ہے۔تو نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ خود روزگار فراہمی کی سکیمیں کچھ زیادہ مثبت اثرات نہیں دکھا رہیں۔جب ہم موجودہ اعدادوشمار کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے2سالوں2010ء اور2011ء سے کرتے ہیں تو حالات میں مزید خرابی کا اظہار ہوتا ہے۔ان دوسالوں میں بالترتیب بے روزگاری کی شرح5.5۔فیصد اور 5.6۔فیصد تھی۔موجودہ صورت حال سے اسے بہتر ہی کہا جاسکتا ہے۔پیپلز پارٹی شروع ہی بے روزگاروں کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کی عادی رہی ہے۔موجودہ وفاقی حکومت نئی ملازمتوں کے لئے دروازے کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔صرف پنجاب کے محکمہ تعلیم میں کچھ باصلاحیت افراد کو روزگار فراہم کیا گیا ہے۔سیکیورٹی اداروں میں نئی بھرتی بھی نظر آتی ہے۔محکمہ صحت میں نوجوان ڈاکٹرز توموجودہ حکومت کے خلاف سٹرکوں پر نعرے لگاتے اور دھرنا دیتے نظر آتے ہیں۔باقی صوبوں میں بھی تھوڑی بہت نئی بھرتیاں ہوتی رہتی ہیں۔لیکن پورے ملک میں جتنا بڑا مسٔلہ ہے۔اس حساب سے روزگار کی فراہمی کا کوئی میگا پروجیکٹ بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔سی پیک کے تحت لگنے والے نئے منصوبوں میں زیادہ چینی کام کرتے نظر آتے ہیں۔چھوٹے موٹے معمولی کام پاکستانیوں کے سپرد ہوتے ہیں۔سی پیک کے اکثر پروجیکٹ عملاً آنے والے مالی سال سے شروع ہونگے۔پھر صحیح پتہ چلے گا کہ پاکستان کے بے روزگاروں کی شرح کم ہوئی یا نہیں۔جہاں تک لوگوں کوروزگار نہ ملنے کی وجوہات کا تعلق ہے۔ایسی باتوں سے تو ہر کوئی واقف ہے۔لوگوں کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے باہر سے بڑی سرمایہ کاری سوائے چین کے نہیں آرہی۔اگر یورپ اور امریکہ کے کچھ سرمایہ کاروں نے پاکستان میں تھوڑا بہت پیسہ لگایا بھی ہے تو وہ صرف سٹاک ایکسچینج اور رئیل ا سٹیٹ میں ۔نئی کالونیوں کی طرف رجحان بڑھاہے۔لیکن ایسے کاموں سے روزگار کے مواقع نہیں بڑھتے۔البتہ رئیل اسٹیٹ کی کمپنیوں اور کاروبار والوں نے بے شمار دولت اکٹھی کی۔بے روزگاری میں اضافے کی ایک بڑی وجہ صنعتوں اور کاروباروں کو بجلی اور گیس کا تسلسل سے نہ ملنا بھی رہا ہے۔بہت سے کارخانے بندہوئے۔بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔کئی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ بھی کی گئی۔وفاقی حکومت نے سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل کے لئے100۔ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیاتو سہی لیکن بہت دیر کے بعد۔ٹیکسٹائل کی صنعت سے ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔برآمدات پر دباؤ ابھی بھی برقرار ہے۔موجودہ مالی سال کے پہلے9۔ماہ میں23۔ارب روپے کاتجارتی خسارہ سرکاری ادارے خود ہی بتارہے ہیں۔محمد نواز شریف اور دیگر حکمران ارکان کو وقت نکال کر ٹیکسٹائل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔اس صنعت کے مسائل کا صحیح پتہ تب ہی لگے گا۔جب صنعتی یونٹوں کا موقع پر جاکر وزٹ کیا جائے۔دیگر صنعتوں کا بھی اچھا حال نہیں ہے۔ان صنعتوں کے برے حالات سے بے روزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اگلے سال تک اگر بجلی کے حالات کچھ درست بھی ہوگئے پھر بھی تحقیقی ادارے2018ء میں 6۔فیصد بے روزگاری کو ہی دیکھ رہے ہیں۔ایک سال بعد بھی اس شعبہ میں بہتری کے حالات نظر نہیں آرہے۔یہ صورت حال تو بہتر ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے کافی زیادہ ہوگئے ہیں۔طلباء کی تعداد یہاں2008ء میں 4۔لاکھ تھی۔اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد کے بڑھنے سے یہاں طلباء کی تعداد12۔لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔لیکن معیشت کے مختلف شعبوں میں ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔اس طرح سے بھی بے روزگاری کی شرح میں کمی نہیں آ رہی۔دنیا کے دوسرے ممالک خاص طورپر مشرق وسطیٰ سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہیں۔وہاں بہت سی مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کے حالات خراب ہوچکے ہیں۔پاکستانی مزدور اب وہاں سے واپس آرہے ہیں۔یہ وہ شدید بے روزگاری کے حالات ہیں۔جنکی موجودگی میں نئے مالیاتی سال کا تخمینہ ترتیب دیاجارہا ہے۔ملک کی خام قومی پیداوار( جی۔ڈی ۔پی) کو اگرتیزی سے بڑھانا ہے تو نئے بجٹ میں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے میگا پروجیکٹ کا اعلان کیاجائے۔سرکاری ،نیم سرکاری اور پرائیویٹ شعبہ جات میں نئے مواقع پیدا کرنے ضروری ہیں۔خود روزگار سکیموں سے ناتجربہ کار،تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ان کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مستحکم اداروں میں کام کرکے تجربہ حاصل کریں اور پھر اپنا کام شروع کریں۔بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان خود روزگار سکیموں میں ناکام ہوتے بھی دیکھے گئے ہیں۔حکومت پرائیویٹ اداروں کو بھی زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی طرف توجہ دلائے۔ہمارے ہاں2015ء میں تقریباً14۔لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے۔لیکن15۔لاکھ لوگ لیبر مارکیٹ میں نئے داخل ہوجانے سے صورت حال میں بہتری نہیں آرہی۔محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان کو یہ پتہ ہے کہ آئندہ سال الیکشن کا سال ہے۔لہذا پورے ملک میں پھیلے ہوئے بے روزگارنوجوانوں کو برسر روزگار کرنے سے ان کو انتخاب والے دن بہت فائدہ ہوگا۔ضروری ہے کہ وفاقی بجٹ کو روزگار کا بجٹ بنایا جائے۔یہ کام وہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی کرسکتے ہیں۔اس طرح بے روزگاری کی موجودہ شرح میں وہ ایک سال میں بڑی کمی لاسکتے ہیں۔امریکہ میں یہ شرح2.4۔فیصد ہے۔کچھ عرصہ پہلے وہاں بھی روزگار کے حالات خراب تھے۔عقلمندی سے پلاننگ کرکے روزگار کے حالات کودرست کردیاگیا۔ایسی ہی پلاننگ کی پاکستان میں بھی ضرورت ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ڈگریوں کو جلاتے دیکھ کربہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ ترقی کانمایاں پہلو روزگار کی فراہمی کو بنایا جائے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.