معراج اس روحانی سفر کا نام ہے جس میں آنحضورﷺکو آسمانوں
کی سیر کروائی گئی اس کا ذکر سورۃ النجم میں ہے۔اسرا اس روحانی سفرکانام ہے
جو آپ کو مکہ سے بیت المقدس تک کرایا گیا۔ اس کا ذکر سور ۃبنی اسرائیل میں
ہے۔قرآن کریم میں سور ۃبنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ
وہ (ذات)پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہ کعبہ)سے
مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس)تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے
گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی)نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا دیکھنے
والا ہے۔(سور ۃبنی اسرائیل، آیت،1)
رجب کی ستائیسویں شب کو اﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو معراج کا شرف عطا
کیا گیا۔یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آ یا۔
منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپﷺ کو بہت ستایا تو آپﷺاپنی چچازادبہن ام
ِّہانی کے گھر تشریف لے گئے اوروہاں آرام فرمانے لگے۔ادھر اﷲ کے حکم سے
حضرت جبرائیل سترہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماںﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اﷲ کے رسول !
آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔
سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والاتھانبی رحمت کی خدمت میں براق حاضر کیا
گیا جس پر حضورﷺکو سوار ہونا تھا،مگر اﷲ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف
فرمایا۔حضرت جبرائیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد
فرمایا: مجھ پر تو اﷲ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری
امت کا کیا ہو گا؟میری امت پل صراط سے کیسے گزرے گی؟ اسی وقت اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے بشارت دی گئی : اے محبوب!
آپ امت کی فکر نہ کیجیے،ہم آپ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ
اسے خبربھی نہیں ہو گی۔ اس واضح بشارت کے بعد سر کار دو عالم براق پر سوار
ہوگئے۔جبرئیل امین نے رکاب تھامی،میکائیل نے لگام پکڑی،اسرافیل نے زین
سنبھالی جس کے ساتھ ہیسترہزار فرشتوں کے سلام کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔
حدیث میں آیا ہے۔براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر کی حد
تھی،وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔ براق کا سفر اس قدرتیز ی کے ساتھ ہوا کہ جس تک
انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔
سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم ﷺ کا گزر حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ اپنی
قبرِ انور میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
انبیا صف بہ صف آپ ﷺکے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔
جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد آپﷺ کے استقبال کے لئے
کھلا تھا۔حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب
موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپﷺ بیت
المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام آپ ﷺکی تعظیم،
اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور ﷺکی امامت میں نماز پڑھنے کا
شرف حاصل ہوا۔
اسی وجہ سے آپ ﷺ کا لقب امام الانبیاء ٹھہرا۔
انبیا حضور ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفی ﷺ سے مشرف
ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضورﷺکے قدموں
کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی
گئی۔ آواز آئی : کون ہے؟
حضرت جبرائیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ
کون ہے؟
جواب دیا : محمد ﷺ ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔
آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور ﷺکی بارگاہ میں سلام عرض
کرنے کی سعادت حاصل کی۔
(تفسیر بغوی)
ساتوں آسمان اور ملاقاتِ انبیاء علیہم السلام
پہلے آسمان کادروازہ کھول دیا گیا، تو وہاں حضرت آدم علیہ السلام کو کھڑے
پایا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺسے کہا : یہ آپ کے باپ آدم علیہ
السلام ہیں، انہیں سلام کہیئے تو آپﷺ نے ان کو سلام کہا تو انہوں نے سلام
کا جواب دیا، اور پھر کہا : صالح (نیک)بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک
ہو۔۔۔۔۔ اور وہاں ناگہاں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے سعادت مند
لوگوں کی روحیں ان کے دائیں طرف ،اور برے اور بدبخت لوگوں کی روحیں ان کے
بائیں طرف تھی، تو جب حضرت آدم علیہ السلام دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے
اور ہنستے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رونے لگتے۔
پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺکو لے کر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اور اس کا
دروازہ کھٹکھٹایا،اور وہی سوال و جواب ہوئے، جو پہلے آسمان پر ہوئے تھے، تو
جب دروازہ کھولا گیا، تو آپ ﷺنے وہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما
السلام کو موجود پایا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : حضرت یحییٰ و
عیسیٰ (علیہما السلام)ہیں، ان کو سلام کہیئے آپ ﷺنے ان کو سلام کہا تو ان
دونوں نے آپ ﷺکے سلام کا جواب دیا، پھر ان دونوں نے کہا :" صالح بھائی اور
صالح نبی کا آنا مبارک ہو"
پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر تیسرے آسمان کی طرف چڑھے اور
آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔۔ اور وہی سوال و جواب ہوئے، جو پہلے اور
دوسرے آسمان پر ہوئے تھے جب دروازہ کھولا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو
پایا، حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔ ان کو
سلام کہیئے آپﷺنے ان کو سلام کہا، حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا جواب
دیا اور کہا :" صالح بھائی اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو۔"
پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کو لے کر چوتھے آسمان کی طرف چڑھے اور
آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بعینہ وہ سوال و جواب ہوئے جو پہلے تین
آسمانوں کے دروازے کھلوانے پر ہوئے تھے" پھر جب یہ دروازہ بھی کھول دیا
گیا، تو آپ ﷺنے وہاں ادریس علیہ السلام کو پایا، حضرت جبریل علیہ السلام نے
کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں، آپ ان کو سلام کہیئے، آپ ﷺنے حضرت ادریس کو
سلام کہا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کا
یہاں آنا مبارک ہو۔"
پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر پانچویں آسمان کی جانب چڑھے
اور آسمان کا دروازہ کھولنے کی لیئے دستک دی،اور وہی سوال و جواب ہوئے جو
پہلے آسمانوں پر ہوئے تھے، پھر جب دروازہ کھول دیا گیا تو وہاں آپ ﷺنے حضرت
موسیٰ ؑ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو موجود پایا۔ حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے کہا یہ ہارون علیہ السلام ہیں ان کو سلام کہیے، آپﷺ نے ان کو
سلام کہا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور یہ بھی کہا:" صالح بھائی اور صالح
نبی کا آنا مبارک ہو۔"
پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺکو لے کر چھٹے آسمان کی طرف چڑھے اور
دروازے پر دستک دی اور دونوں طرف سے وہی سوال و جواب ہوئے جو پہلے آسمانوں
پر ہوئے تھے۔ دروازہ کھلنے پرآپﷺ نے وہاں حضرت موسی کلیم اﷲ علیہ السلام کو
پایا، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ موسی علیہ السلام ہیں، آپ ان
کو سلام کہیئے، آپ ﷺنے ان کو سلام کہا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا اور
کہنے لگے: صالح بھائی اور صالح نبی کا یہاں آنا مبارک ہو ۔ پھر جب آپﷺ وہاں
سے چلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رونا شروع کردیا، آپ علیہ السلام سے
کہا گیا : کہ آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب
دیا: میں اس لیئے روتا ہوں کہ ایک لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا، جس
کی امت کے لوگ، میری امت کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں جنت میں جائیں گے۔"
تو حضرت موسی علیہ السلام کا یہ رونا ان کا اپنی امت کا، ان فضائل سے محروم
رہ جانے کے غم میں تھا (جس کی بنا پر وہ کثیر تعداد میں جنت میں جانے سے
محروم ہو گئے)نہ کہ حضرت محمدﷺکی امت سے حسد کی بنا پر۔
پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر ساتویں آسمان کی طرف چڑھے اور
دروازہ کھولنے کے لیئے دستک دی، اندر سے آواز آنے پر وہی سوال و جواب ہوئے،
جو قبل ازیں تمام آسمانوں پر ہوئے تھے۔ پھر جب ساتویں آسمان کا دروازہ کھلا
تو وہاں آپﷺنے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کو پایا۔ حضرت جبرائیل
علیہ السلام نے کہا : یہ آپ کے باپ (جد امجد)ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ
ان کو سلام کہیئے تو آپ ﷺنے ان کو سلام کہا: انہوں نے آپ ﷺکے سلام کا جواب
دیا اور کہا : صالح بیٹے اور صالح نبی کا آنا مبارک ہو،"
اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی رفاقت میں ان انبیاء علیہم السلام سے اس
لئے ملاقات کی تاکہ (اس سفر مبارک میں)آپ ﷺ کا شرف و کمال اور عزت و تکریم
ظاہر ہوجائے اور حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام ساتویں آسمان پر اس "بیت
معمور"(فرشتوں کے قبلہ)کی طرف کمر کے سہارے ٹیک لگائے ہوئے تھے، جس میں
روزانہ ستر ہزار فرشتے (عبادت اور طواف کے لیئے)داخل ہوتے ہیں، وہ نماز
پڑھتے ہیں اور پھر باہر نکل جاتے ہیں اور پھر وہ دوسرے دن واپس نہیں لوٹتے،
بلکہ ان کے علاوہ اور فرشتوں کا گروہ عبادت و طواف کے لیئے آتا ہے، جن کو
اﷲ عزوجل کے سوا اور کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ بعد ازاں اﷲ کے نبی ﷺ کو سدر
ۃالمنتہی کی طرف اٹھایا گیا اس سدرۃ المنتہی کو اﷲ کے حکم سے جن دلفریب، پر
رونق اور حسین اور جمیل اشیا نے ڈھانپ لیا ہے، ان کے حسن و جمال اور کمال
کو بیان کرنا کسی کے بس میں نہیں۔
یہاں سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی پاک ﷺ سے جدا ہوئے شاعر نے کیا ہی
خوب کہا
سدرۃ المنتہیٰ پہ جو پہنچے نبی ،سر جھکا کے یہ جبریل کہنے لگے
یاحبیب خدا!اب سوا آپ کے اس سے آگے جو جائیگا جل جائیگا
رب کی طرف سے نبی پاک ﷺ کو تین تحفے
فخر دو عالم حضرت محمدﷺ کو شب معراج اﷲ تعالی نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا
سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور
مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسراتحفہ یہ دیا گیا کہ امت
محمدیہ (ﷺ) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ
امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و
تحائف کو لے کر اور جلوہ الہی سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و
دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے
بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان
پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور ﷺ نے امت پر
پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اﷲ
کے نبی!میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل)پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ
بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اﷲ ﷺ پھر
تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسی علیہ
السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور ﷺ پھر بارگاہ الٰہی میں پہنچے دس
نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش
نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی
نماز رہ گئی اس موقع پر اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا:
اے محبوب!ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں
مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر
پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے
اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد سوئم صفحہ: 32)
کفار کا رد عمل اور رسول ﷺ کا جواب
حضور سرور کونین ﷺ نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن ام
ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ
انکار کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے
اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ ﷺ خانہ کعبہ میں تشریف
لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے سردارجمع تھے۔ آپ ﷺ مقام حجر
میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق
حضرت محمد ﷺ کے تذکرہ کو سن کر کفارو مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔
ابوجہل بولا، کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ
ﷺنے فرمایا: بے شک۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع
ہوگئے تو حضور ﷺنے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے
لگے اور اﷲ تعالی کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر
بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔ انہوں نےﷺ سے کہا، ہمیں
معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتایئے!
اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ یکا یک بیت
المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا
تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔
جب حضورﷺ مسجد اقصی کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہوکر کہنے
لگے مسجد اقصی کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتایئے کہ
مسجد اقصی جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں؟
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قافلہ مقام روحا پر گزرا، ان کا ایک اونٹ گم
ہوگیا تھا۔ وہ لوگ اسے تلاش کررہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا
ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا
پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔
جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کرکے
پالان کی طرف واپس آئے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا
نہیں؟
انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا: کہ
میں فلاں قافلے پر بھی گزرا۔ دو آدمی مقام ذی طوی میں ایک اونٹ پر سوار تھے
ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں
فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔
انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔(تفسیر مظہری)
جن کے دل نورِ ایمانی سے منور تھے انہوں نے اس واقعہ کو صدقِ دل سے تسلیم
کیا یہی واقعہ جب نبی پاک ﷺ کے پکے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے رکھا
تو انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کردی اسی وجہ سے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے
حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب ملا۔ |