شعیب ایک کالج میں سبجیکٹ سپیشلسٹ کے طور پراپنے فرائض
سرانجام دے رہا ہے۔ایک دِن جیل میں قیدیوں کی بیچلر لیول کے امتحانات
پرسپروائزرکی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔انگریزی کا پہلا پرچہ ہوتا ہے۔نقل کرنے پر
سخت پابندی ہوتی ہے۔قیدی سب اتفاق سے اُٹھتے ہیں۔اور درخواست کرتے ہیں۔کہ
جناب! اس بیچلر کی ڈگری سے ہمیں اس ملک میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ہاں البتہ
امتحان میں کامیابی کی صورت میں قید میں دو سال کی کمی ہوسکتی ہے۔سپروائزر
نے پوچھا۔کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟اُن کا جواب ہوتا ہے۔کہ جناب فلاں نمبر کے
بیرک میں فلاں نمبر کا قیدی ہے۔آپ اس کو بلائے ۔تاکہ وہ یہاں آکر 25 نمبرات
کا پہلا حصہ ہمیں بتائے۔اجازت دینے پر وہ قیدی کوامتحانی حال میں
بُلاتاہے۔سپروائزر تجربے کے طور پر اُن کے ہاتھوں میں وہ پرچہ تھما دیتا
ہے۔اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ یہ پرچہ حل کر سکتاہے؟وہ بیٹھتا ہے اور 3
گھنٹوں کا پرچہ ایک گھنٹہ میں حل کرکے واپس کرتا ہے۔اس کی لکھائی اور
قابلیت دیکھ کر سپروائزر حیرانگی سے سوال کرتا ہے۔کہ آپ نے وہ کونسا جُرم
کیا ہے۔جس کی پاداش میں آپ جیل میں قیدی کی زندگی گُزار رہا ہے؟وہ شرم سے
سَر جھُکاتا ہے اور کہتا ہے۔ کہ "Sir,I didn't commit a crime but the
societal ill-nature made me a prisoner". سپروائزر مزید تفصیل میں اس کو
لے جاتا ہے۔تو قیدی جواب دیتا ہے۔کہ سَر،میں سی ایس ایس میں سیلیکٹ ہوااور
لاہور میں ٹریننگ شروع تھی۔کہ گاؤں کے کچھ اشرافیہ سے مجھ غریب کایہ رُتبہ
اور مقام ـ ہضم نہ ہوپایا۔تو اس نے میرے اوپر قتل کا ایک ناجائز دعویٰ دائر
کیا۔میرے پیچھے میرے بوڑھے والد کے سِواکوئی بھی نہیں تھا۔لہٰذا انھوں نے
قانون کے سفید بھیڑیوں سے ملی بھگت کرکے مجھے اندر کروایا۔اب میں عُمر قید
کا ایک خودساختہ مجر م ہو۔
ہمارے بے حس معاشرے میں ایسے واقعات بے شمار ہوتے رہتے ہیں۔ صبح و شام
رونما ہونے والے ایسے واقعات ہماری معاشرتی بے حسی اورناانصافیوں کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایک شریف النفس انسان کیلئے اس معاشرے میں
جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔کچہری، عدالت، ہسپتال اور پولیس کی وردی سے ڈر
لگتا ہے۔
ناانصافی اور غُنڈہ گردی اس حد تک پہنچ چکی ہے۔کہ دن دیہاڑے انسانیت کا خون
بہانے والے قاتل اور کروڑوں اربوں کے غبن کرنے والے ڈاکو ، چوروں کیلئے
قانون نام کا کوئی چیز دکھائی نہیں دیتا۔
عُزیر بلوچ ، صولت مرزا اور دیگر کرائے کے قاتل اس معاشرے کا حصہ رہے۔
معاشرتی اقدار، وطنیت اور انسانیت کی ٹانکیں اس قدر کمزور ہوگئی ہیں۔کہ ہر
کوئی اپنے ہی ملک کا دشمن بن بیٹھاہے۔ہر کسی نے اپنی توفیق کے مطابق اس ملک
کو لوٹا۔ مقتدرطبقہ کو ہتھکڑیاں لگتی ہیں نہ ہی وہ مجرم کہلائے جاتے ہیں ۔سیاسی
پارٹیوں کی رہنماؤں کے ساتھ آوے کا آوا ہو۔تو کوئی بھی جُرم کرلے۔پولیس
پکڑنے کی بجائے پناہ دے گی۔پٹواری اور تحصیلدار تو ایسے لوگوں کو ویلکم
کہتے ہیں۔جن سے مُٹھی گرم ہونے کا چانس ہو۔جب مُلاّ بھی درباری بن جائے ۔
جب منصفوں سے لوگوں کی انصاف کی توقع دم توڑ جائے۔عدالتوں تک امیر کی رسائی
ہواور غریب وکیل کی فیس ادا کرنے سے قاصر رہے۔جہاں ڈبل شاہ جیسے اربوں کے
فراڈی کو بھی ڈیل ملے۔جہاں بادشاہ اور وزیر دونوں مجرم ہو۔اور دنیا کے اہم
ڈاکومنٹس اس پر گواہی دے۔پھر بھی شہنشاہِ سلطنت بن کر چلتا پھریں۔جہاں یتیم
اور غریب کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔قابل ، ذہین اور یونیورسٹیو ں سے فارغ
لوگ ملازمت کی آس لگائے بیٹھے ہو۔جہاں اقربا پروری اور پیسوں کے بدلے میرٹ
کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہو۔پیسوں کے عوض ایمان ،ضمیراور عزتیں نیلام کی جاتی
ہو۔جہاں سیاسی پارٹیاں اقتدار کی باریاں لگانے کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچتے ہو۔جہاں ملکی سیاست میں غلیظ زبان اور گالم گلوچ روزمرہ کا معمول
ہو۔ الیکشن گُزرنے کے بعدووٹرز کا کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ جہاں جعلی ڈگری
ہولڈرزملکی قانون سازاداروں میں بیٹھے ہو۔جہاں ملکی رہنما قومی خزانہ لوٹ
کر دوسرے ممالک کے بینکوں میں پیسے محفوظ کرتے ہو۔جہاں اربوں کھربوں کی منی
لانڈرنگ میں ملوث لوگ آئے روز خبروں کی زینت بنے۔ جہاں بم دھماکے کے نتیجے
میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر صرف مذمتی بیان دے کر ماضی کا حصہ بنایا
جاتاہو۔جہاں پیر بھی جعلی ہو۔ڈاکٹرز بھی جعلی ہو۔قانون ساز بھی جعلی
ہو۔دوائیاں بھی دو ،تین نمبرز کے بیچے جاتے ہو۔جہاں انسان کی نہیں ڈالرز
اور پیسوں کی قدر ہو۔جہاں مقاماتِ مقدسہ اور زیارتوں پر زائرین کوعدم تحفظ
کا احساس ہو۔جہاں آیاتِ کریمہ سے تعویزیں بنا کر بیچا جاتا ہو۔جہاں اینٹیں
پیس کر مصالحہ جات میں ملایا جاتا ہو۔جہاں مسلمان گدھوں اور گھوڑوں کا گوشت
بیچ کر بال بچوں کیلئے حرام کی کمائی کرتے ہو۔جہاں حجِ بیت اﷲ کے نام پر
مسلمانوں سے پیسہ لوٹا جاتا ہو۔جہاں سکول میں پڑھنے والا ایک چھوٹا طالب
علم اپنی استانی کا عاشق ہو۔جہاں ایک مسلمان سٹام پیپر پر کیے گئے اپنے حلف
نامے کا منکر ہو کر وعدہ خلافی کر رہاہو۔جہاں مال و جاہ کے عِوض ایک انسان
اپنے ماں باپ کے قتل کا معترف ہو جائے۔ایسے معاشرے میں انسان کیلئے
جینامشکل ہو جاتا ہے۔جب کسی معاشرہ میں ناانصافی اور بداعتمادی کی جڑیں اتا
ہ گہرائیوں تک سرائیت کر جائے ۔جب مال و جاہ کی محبت انسانی اقدارپر غالب
آجائے۔جب کلمہ گو مسلمان دوسرے مسلمان پر نعرہِ تکبیر لگا کر جھپٹ پڑے۔جب
لوگ قانون کی بجائے خود ایک دوسرے کیلئے سزائیں تجویز کرے۔جب دوست اور دشمن
، خیر خواہ اور بدخواہ کی پہچان ختم ہو جائے۔وہاں خانہ جنگیاں جنم لیتی
ہیں۔ |