ویسے بھی ہم پاکستانی کشمیر سے آنے والے پانیوں پر گزارہ
کرتے ہیں لیکن اس دن خالد اور شاہنواز نے limpidپانی کا افتتاح کیا تو مجھے
اور اسد ریاض کو بھی بلایا مہمان خصوصی سردار عتیق احمد خان تھے۔وہاں باتوں
باتوں میں ذکر ہوا کہ سردار عبدالقیوم خان کی رحلت پر جو کالم لکھے گئے
انہیں وہ مرتب کر رہے ہیں۔میں نے ایک کالم لکھا تھا جسے جموں و کشمیر جو
کشمیر کا ایک بڑا اخبارہے اس میں چھپا بھی تھا۔میں نے کہا کہ اسے بھی شامل
کیجئے گا۔عامر محبوب اور عرفان کھٹانہ سے درخواست ہے کہ اسے پھر چھاپ
دیں۔دیگر دوستوں سے بھی در خواست ہے کہ چھاپ کر ممنون فرمائیں۔
کشمیریوں میں کمال کی خوبی ہے کہ یہ اپنے قبیلے کے پالن ہار ہوتے ہیں آپ
میری اس بات کو برا نہ مانئے گا ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف میں یہ
خصلت بدرجہ ء اتم پائی جاتی ہے۔ایک بار جدہ کے سرور پیلیس میں ایک بٹ
محترمہ کلثوم صاحبہ کے کان میں کہہ رہا تھا وہ بھائی صاحب بھی اپنے ہیں
خواجہ ہیں قوم کے۔میاں صاحب کو جتنا اعتماد اپنے قبیلے پر ہے کسی اور پر
نہیں۔انہوں سید(پرویز مشرف) کے مقابلے میں بھی بٹ(ضیاء الدین) کو ہی آگے
کیا جو کھوبے کا ماڑا ثابت ہوا۔آج موضوع کچھ اور ہے اور وہ کشمیری برادری
کا تعلیم اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے جذبہ۔کشمیری دنیا کے کسی بھی
کونے میں ہو اس کا تعلق اپنے علاقے کی سیاست سے گہرا ہوتا ہے۔میں نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ لوگ دن بھر مزدوری کر کے مجلسوں کا انعقاد کرتے
ہیں دوسرے معنوں میں اپنے آپ کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔جتنی سیاسی گرومنگ ایک
کشمیری کی ہے شائد کسی اور کی نہیں۔خوبصورت تو ہیں ہی ہیں ذہانت کا بھی
جواب نہیں۔عطاء الحق قاسمی نے ایک بار کہا کہ میرے دوست دروازے پر آئے تو
ابا جی کہنے لگے جاؤ کوئی بٹ صاحب آئے ہیں واپس آ کر بتایا کہ وہ بٹ تو
نہیں تھے اب جی نے جواب دیا سوہنا تئے بٹاں ورگا سی۔یاد رہے قاسمی صاحب بھی
کشمیری ہیں۔ایک اور بات بھی بتا دوں کہ گجرانوالہ لاہور سیالکوٹ کے ہوٹلوں
کے پکے اور تگڑے گاہک بھی کشمیری ہی ہوتے ہیں۔
میں نے اپنے سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران دیکھا یہ لوگ کمال کے لوگ
ہوتے ہیں وطن سے دور وطن کی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے یوں تو
پاکستانی بھی کم نہیں مگر کشمیریوں کا کوئی جوڑ نہیں۔جدہ میں اس کمیونٹی کے
ساتھ عرصہ گزارا ہے۔کام کسی بھی نوعیت کا کریں فارغ وقت میں اچھا لباس
پہننا اور اچھی جگہ بیٹھ کر گپ شپ کرنا انہی کا شیوہ ہے۔مجھے آج سردار
عبدالقیوم صاحب کی رحلت کا سن کردکھ ہوا ہے۔زیادہ دکھ تو اس بات کا تھا کہ
ایک شہر میں رہتے ہوئے میں ان کی عیادت نہ کر سکا میں جو ان سے ملنے مدینہ
منورہ بھی سفر کر کے گیا۔سردار عبدالقیوم کے حوالے سے جڑی یادوں کا سلسلہ
بہت طویل ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب جدہ کے ہوائی مستقر پر پی آئی روزانہ
سینکڑوں پاکستانیوں کو انڈیل دیتا تھا کندرہ میں قائم چھوٹے سے ایئرپورٹ پر
لوگ اپنے خوابوں کی گٹھڑیاں لئے آتے عروسالبلاد انہیں اپنی آغوش میں لے
لیتا۔لوگ عمرے ویزے پر آتے اور یہیں کھپ جاتے۔میرا خالہ زاد پاکستانی کمپنی
میں بحثیت ڈرایؤر آیا ہوا تھا۔میں بھی دو روز بعد پہنچ گیا تھا۔وہیں اس
کمپنی میں کشمیری ڈرائیور اور دفتری کام کرنے والے لوگ بھی تھے جن میں حفیظ
صاحب الطاف راجہ ایوب بھائی اور دیگر کشمیری بھی تھے۔وہاں میری ملاقات جناب
سردار عبدالقیوم سے ہوئی۔یہ پہلی ملاقات تھی۔دراز قد اور اس کے اوپر جناح
کیپ جس کا جبینی حصہ اونچا تھا۔خاکستری رنگ کی کیپ کے ساتھ سردار صاحب کا
یاسر عرفاتی کوٹ بھی خوب تھا۔اس کے نیچے سفید شلوار اور ہاتھ میں امریکن
ٹورسٹر کا ٹوپی سے میچنگ بریف کیس۔میں نے وہیں طے کیا اﷲ نے ہمت دی تو اپنے
والد صاحب کو ایسا ہی ڈریس پہنواؤں گا۔یہ تھے ہمارے خواب۔سردار صاحب سے
ملاقات ہوئی۔انہوں نے آگے پیچھے کا پوچھا۔ان کی یہ بات مجھے اچھی طرح یاد
ہے کہنے لگے کمائی کر کے مکانوں اور بلڈنگوں پر میرپوری بھائیوں کی طرح نہ
خرچ کرنا۔کوئی کارخانہ کوئی انڈسٹری لگانا۔یہ تھی ہماری ان سے پہلی ملاقات۔
وقت گزرتا رہا ہم نے بھی ہوش سنبھال لی۔۹۰ کی دہائی میں سردار صاحب جد میں
بار بار آئے جب کبھی امریہ یا انگلینڈ جاتے یا رابطہ عالم اسلامی کی کوئی
کانفرنس ہوتی تو وہ ضرور تشریف لاتے۔میرا تعلق ایک اخبار سے بھی ہو
گیا۔کشمیری کمیونٹی ان کے اعزاز میں بڑی خوبصورت تقریبات کا انعقاد
کرتی۔مجھے بھی پریس کوریج کے لئے بلایا جاتا۔ان کے خیالات سننے کا موقع
ملتا۔میں نے اس طویل عرصے میں محسوس کیا کہ سردار صاحب ہمیشہ راولپنڈی سے
اپنے تعلق کو مضبوط رکھتے۔ان کی باتوں سے واضح محسوس ہوتا کہ وہ پاک فوج کے
ترجمان ہی نہیں اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔کشمیری کمیونٹی سے ان کا تعلق بڑا
گہرا تھا۔وہ ایک منفرد سوچ کے حامل تھے بڑے کڑک قسم کے لیڈر تھے۔برادر
عبدالطیف عباسی کے گھر کئی بار ان کا انٹرویو کیا۔میری عادت تھی منہ پر کھل
کھلا کے بات کرنے کی۔ایک بار میں نے سوال داغ دیا کہ آپ اپنے بیٹے کی بے جا
حمایت کرتے ہیں۔حالنکہ ان کی شہرت ٹھیک نہیں ہے میری مراد سردار عتیق صاحب
کی تھی جو ان دنوں کشمیر کے زرداری کہلائے جاتے تھے(یہ الزام تھا)۔میں نے
سوال پوچھا کہ آپ شائد پدری شفقت سے مجبور ہو کر ان کی حمایت کر رہے ہیں
انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا۔کہ سیاست ایسی بے رحم چیز ہے جس میں نہ مادری
اور نہ ہی پدری شفقت کام آتی ہے۔اس بار عتیق جدہ آئے توضرور ملئے گا ان کا
اشارہ عبدالطیف عباسی کی طرف تھا۔اور وہی ہوا جب سردار عتیق جدہ آئے تو
میری ملاقات ان سے ہوئی۔مجھے واقعی محسوس ہوا کہ بیٹا باپ سے بھی گورا ہے۔
جدہ کے فردوس ہوٹل میں ایک تقریب کے دوران کسی مقرر نے سردار سکندر حیات کے
خلاف بولنا شروع کر دیا، سردار صاحب نے بڑی شدید کھنچائی کی اور کہا کہ
مکھی نہ بنیں جو سارے جسم کو چھوڑ کر گندے حصے پر بیٹھ جاتی ہے۔اسی تقریب
میں انہیں اپنی کمائی کو بہتر جگہ لگانے کی تلقین کی۔وہ روٹھے ہوئے کو
منانے کا فن بھی جانتے تھے ان دنوں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور ان کی
آپس میں شدید ناراضگی تھی۔کارگل ہوا تو میاں نواز شریف شدید تنقید کا نشانہ
بنے وہیں جدہ سے انہوں نے بیان دیا کہ مسلم لیگیوں کو علم ہی نہیں کہ نواز
شریف نے بہت اعلی فیصلہ کیا ہے۔اس طرح برف پگلی اور وہ اقتتدار کے قریب
ہوئے۔
سردار صاحب بعض اوقات ایسی بات کر جاتے کہ محفل میں سناٹا چھا جاتا جدہ کے
سپنزر ہوٹل میں ایک تقیب جس میں ڈاکٹر غلام نبی فائی ایوب ٹھاکر بھی موجود
تھے انہوں نے تھرڈ آپشن کا ڈول ڈالا،جسے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ایک
بار وہ علامہ اقبال پر بھی برسے جس سے نوائے وقت اور ان کے درمیاں خوب
چلی۔مجھے انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کی کشمیر پالیسی میں ڈرافٹ کرائی تھی
۔شاہ فیصل سے ملاقات میں میں نے انہیں بتایا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سردار عبدالقیوم نے اس وقت اس دنیا کو چھوڑا ہے جب
اس کی پارٹی ٹوٹے ٹوٹے ہو گئی ہے۔مگر لڑائی کے دوران یہ چند مورچے ہیں ہار
جیت کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ہو سکتا ہے پی ٹی آئی سے مل کر یہ کم بیک
کریں۔آج جب کشمیری قیادت کو دیکھتا ہوں تو یقین کیجئے موازنہ کرتے ہوئے قلم
شرما جاتا ہے۔میں نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد میں جو لیڈر دیکھے ہیں ان میں
اکثریت کشمیریوں کی ہے۔صاحبزادہ اسحق ظفر اور سردار عبدالقیوم سردار
ابراہیم اور کے وزن جیسا لیڈر کم ہی پیدا ہو گا۔ہاں آنے والء دور میں کچھ
ہیں جو کر گزریں گے اور وہ ہوں گے اسی اسکول آف تھاٹس کے لوگ۔میں نام لوں
تو اچھا نہیں ہو گا لیکن ہیں وہ انہی دونوں گھرانوں سے جڑے ہوئے لوگ
ہیں۔مجھے پوری امید ہے پی ٹی آئی اپنے دروازے کھلے رکھے ان لوگوں کی منتظر
ہے۔اس لئے کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی اب موت وحیات کی کشمکش میں ہے۔سردار صاحب
سے آخری ملاقات عباسی صاحب کے گھر ہی ہوئی۔جہاں ایک دوست نے کہا میں بیوی
سے ڈرتا ہوں مجھے جانے دیں فرماے لگے جو ڈرتے ہیں ان کے پاس اتنی ہمت نہیں
ہوتی کہ اظہار بھی کر پائیں۔مجھے کہنے لگے چودھری صاحب آپ نے سوال کیا ہے
کہ کشمیر کی آزادی کا کیا ہو گا۔جواب بھی سن لیں جس قوم کو خون دینے میں
مزہ آنے لگے اسے کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔
عزیزیہ محلے کے اس گھر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ واقعی
آزادی خون مانگتی ہے اور کشمیری تو بہت دے چکے ہیں۔آج جب ان کی رحلت کی خبر
ملی تو میرا بھانجہ اپنی بیگم کے ساتھ ان کے پنڈی والے گھر چلا گیا۔میں
بوجھل قدموں جنازے پر گیا۔سرکار فوج عام لوگ سب آئے میں منور ہاشمی شاعر بے
مثل کا یہ شعر گنگناتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
جانے والا جا چکا تھا اور میری آنکھ میں اک لرزتا سا ستارہ ٹمٹماتا رہ گیا |