میں ایک فیمنیسٹ ہوں۔ فیمینسٹ کی آسان زبان میں
تشریح کی جائے تو خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی۔ یونیورسٹی میں
پڑھاتے ہوئے جب طالبات کو طلبہ پر ترجیح دیتی ہوں تو اکثر لڑکے مجھ سے
ناراض ہوکر شکوہ بھی کرتے ہیں کہ میم آپ لڑکیوں کا زیادہ فیور کرتی ہیں۔
لیکن پتا نہیں کیوں مجھے بچیوں سے بہت پیار ہے۔ مجھے قدرتی طور پران بچیوں
کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جو تعلیم کی سلسلے میں اپنے گھر سے نکلتی ہیں۔ ان
کی جستجو ان کی لگن مجھے سکون دیتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی آرہی ہے۔
لوگ اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ میں سے اکثر
اس تحریر کو پڑھتے ہوئے شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اب تو ایسا ہر گز نہیں
ہے کم سے کم بڑے شہروں میں لوگ اپنی بچیوں کو پڑھانے کے لیے اسی طرح سے
محنت کرتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کے لیے کرتے ہیں۔ حقیقت اس سے برعکس ہے۔
اب بھی بہت سے گھرانوں میں لڑکی کی تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ مڈل
کلاس گھرانے اگر اپنی بیٹی کو تعلیم دلوا بھی دیں تو اکثر ان کے لیے ترقی
کے راستے بند کردیے جاتے ہیں۔ انھیں زندگی کے کسی شعبے میں آگے بڑھنے کے
مواقع مل بھی جائیں تو سماج کی دیواریں ان کے سامنے کھڑی کردی جاتی ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے؟ کی تلوار ہر وقت لڑکی کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ بہت ہمت
کرنے کے بعد بھی کہیں نہ کہیں ہماری بچیاں حالات کے سامنے سر جھکا دیتی ہیں
اور بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
والدین کو لڑکیوں کی شادی کی فکر ان کی تعلیم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ میں
بھی چوں کہ ایک بیٹی کی ماں ہوں تو شاید میرا رویہ بھی اپنی بیٹی کی بڑے
ہونے پر یہی ہوگا۔ شادی کی فکر کرنا کوئی غلط رویہ نہیں، لیکن یہ رویہ اس
وقت غلط کہلاتا ہے جب شادی کے لیے یا شادی کے بعد بچیوں کو تعلیم کے حق سے
محروم کردیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے معاشرے میں سوچ کو بدلنے کی ضرورت
ہے۔ شادی بھی کیجیے لیکن تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھوائیے، بچیوں کو ہنر
دیجیے تاکہ عورت جو پاکستان کی آبادی کا باون فی صد ہے اس ملک کی ترقی میں
اپنا کردار ادا کرسکے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں ایک تعلیم یافتہ گھرانے کی
بنیاد رکھتی ہے۔ اس طرح معاشرہ بنتا ہے۔ ایک عورت اپنا ہنر کتنی ہی اور
بچیوں میں منتقل کرکے گھر بیٹھے ہوئے ہی بہت سے کام کرسکتی ہے جو اس کے
گھرانے کے ساتھ اور کتنے ہی گھرانوں کو خوش حالی، خوشی اور سکون دے سکتا ہے۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر ہورہا تھا میرے فیمنسٹ ہونے کا۔ مجھے
جب جہاں خواتین کے فورم پر اسپیکر کی حیثیت سے بلایا جاتا ہے میں اپنی تمام
تر مصروفیات کو بلائے طاق رکھ کر اس میں ضرور شرکت کرتی ہوں۔ اس مرتبہ بھی
کچھ ایسا ہی تھا۔ مجھے ایک دینی تعلیم کے مدرسے میں ورک شاپ کنڈیکٹ کرنے کے
لیے بلایا گیا۔ تقریب ایک مقامی ہوٹل میں تھی۔ کراچی کے سائٹ ایریا میں
تلاش کرتے کرتے میں اس ریسٹورنٹ میں پہنچی جہاں ایک لڑکی نے، جس نے مکمل
حجاب سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا، مجھے خوش آمدید کہا۔ میں چوں کہ چہرے
کا پردہ نہیں کرتی لہٰذا میں اس بچی کو اتنے حجاب میں دیکھ کر خود کو تھوڑا
سا ان کمفرٹیبل محسوس کررہی تھی۔ بہرحال مجھے ایک ہال میں لے جایا گیا،
جہاں تقریباً چالیس کے قریب بچیاں، ایک ہی طرح کا برقع اوڑھے تھیں، میرا
انتظار کررہی تھیں۔
صحافت اور صحافت کی تعلیم دینے کے دوران بہت سے بڑے بڑے عہدے پر فائز لوگوں
سے بالمشافہ گفتگو کا موقع ملا، ٹیلی ویژن کیمرے کو بھی فیس کرتی ہوں، لیکن
آج ان بچیوں کے سامنے نہ جانے کیوں تھوڑی سے ہچکچاہٹ دل میں تھی۔ خیال تھا
کہ نہ جانے یہ میری باتوں کو سمجھ پائیں گی بھی یا نہیں، بہرحال میری الجھن
بہت جلد ہی ختم ہوگئی، کیوں کہ وہ سب ہی نہایت ملنسار سمجھ دار اور سلجھی
ہوئی لڑکیاں تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ورک شاپ اس لیے منعقد کی گئی ہے کہ
مدرسے کی تین بچیوں کو سوشل سائنس کے ایک موضوع پر مکمل تعلیم دینے کے لیے
جرمنی کی ایک مشہور یونیورسٹی بھیجا گیا تھا، جہاں سے وہ حال ہی میں واپس
آئی تھیں۔ اب اس یونیورسٹی سے ایک گروپ پاکستان آیا تھا۔ اس بات کا جائزہ
لینے کے لیے کہ آخر ان کی ٹریننگ کو کس حد تک طالبات نے سمجھا اور اسی طرز
پر ایک ورک شاپ ان بچیوں کو بھی ترتیب دینی تھی۔
میرے لیے یہ نہایت انوکھی بات تھی کہ مدرسے کی بچیوں کو مدرسے کی جانب سے
اعلیٰ تعلیم کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دوسرے ملک بھیجا گیا۔ بہرحال میرا
موضوع عورت اور تعلیم تھا۔ میں نے روایتی انداز میں اپنا لیکچر شروع کیا،
لیکن خلاف توقع مجھ سے وہ روایتی انداز اپنایا ہی نہ گیا، کیوں کہ ان بچیوں
کی آنکھوں میں موجود حصول تعلیم اور کچھ کر دکھانے کی لگن اتنی شدید تھی کہ
میں ان کی پیاس کو سمجھ گئی۔ میں جانتی تھی کہ ان کے دل اور دماغ بہت سے
ایسے موضوعات پر مجھ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں جن پر شاید کوئی انھیں تسلی
بخش جواب نہ دیں سکے۔
مجھ سے پوچھا گیا،’’معاشرہ ہمیں تسلیم کیوں نہیں کرتا،کیا کالا برقع ہمیں
آگے بڑھنے سے کیوں روک دیتا ہے۔۔؟‘‘ ایک اور سوال تھا کہ’’ہمیں معاشرے میں
دوسری خواتین ایکسپٹ نہیں کرتیں اس کیا وجوہات ہیں ۔۔‘‘ ایک سوال کیا گیا
کہ’’ ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں ۔ہم کیسے اپنی بات کو دوسروں تک پہچا سکتے
ہیں۔۔‘‘ اورایسے ہی کئی سوالات تھے جن کا سلسلہ چل نکلا۔
میرے لیے خالص مذہبی طبقے کی ان بچیوں کی طرف سے ایسے سوالات کا ہونا حیران
کُن تھا۔ یہ ایک سوچنے اور غور کرنے والے ذہن کا سوالات تھے۔ میں نے جواب
دیا کہ تسلیم نہ کرنے کی شروعات ہم ہی سے ہوئی تھی۔ ہم اپنے آپ کو افضل
سمجھتے ہیں۔ ہم بھی انھیں تسلیم نہیں کرتے جو وضع قطع میں ہم جیسے نہیں۔ اس
وجہ سے معاشرے میں کھنچاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کھنچاؤ کو ختم یا کم کرنے کے
لیے مذہبی طبقے کو چاہیے کہ اپنے سے بیزار طبقے تک مذہب کی تعلیم پہنچائے
اور خود وہ تعلیم حاصل کرے جسے دنیاوی تعلیم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ خلیج
اور یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔
ان بچیوں نے میری بات کو نہ صرف سمجھا بلکہ سراہا بھی۔ ان کے خوش گوار
ردعمل نے مجھے اس حقیقت سے آشنا کیا کہ حالات اتنے مایوس کن نہیں جتنا ہم
سمجھتے ہیں۔ بس ایک دوسرے سے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہے،
پھر ہم ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں ۔ |