حال ہی میں مجھے ایک خبر موصول ہوئی کہ پنجاب میں سرکاری
سکول کے اُساتذہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ سکول میں افسران وزٹ
کرنے کے لیے آتے ہیں ،جب تک وہ وزٹ نہ کر لیں کسی بھی ٹیچر کو کسی بھی حالت
میں چھٹی نہیں مل سکتی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُساتذہ کو کہا جاتا ہے
کہ بچے داخل کرو حالاں کہ اُساتذہ جتنے بچے داخل ہو سکتے تھے کر چکے ہوتے
ہیں لیکن پھر بھی اے ای او اور دیگر افسران اُساتذہ کی بے عزتی کرنے میں
کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ قارئین یہ تھی ایک خبر ، اس خبر میں کتنا سچ ہے
اور کتنا جھوٹ یہ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُساتذہ انسان نہیں ہیں ؟ کیا انھیں دیگر انسانوں
کی طرح مجبوریوں ، بیماریوں اور پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوتا ؟ یقینا ہوتا
ہے ، تو پھر ان کی مجبوری کے باوجود انھیں چھٹی کیوں نہیں مل سکتی؟ میاں
شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے جو حال سرکاری سکولوں کا تھا ،وہ
سارا پنجاب جانتا ہے ، اُساتذہ سکول میں صرف حاضری لگاتے تھے اور پھر چلتے
بنتے تھے ۔ لیکن میاں صاحب کے آنے کے بعد یہ سلسلہ بہت حد تک کم ہوا ۔سکولوں
کے رزلٹ بہتر ہوئے اور سکول واقعتا سکول لگنے لگے۔ اُساتذہ سے کام لینا جن
کی انھیں تنخواہ ملتی ہے یہ تو ٹھیک ہے لیکن ان پر ظلم کرنا یہ کہاں کا
انصاف ہے ۔ انھیں باعث مجبوری بھی چھٹی نہ ملنا یہ کدھر کا قانون ہے؟ سب سے
افسوسناک بات یہ ہے کہ اُساتذہ کو بلا کے ان کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ سوال
یہ ہے کہ کیا ایسے شخص کی بے عزتی بنتی ہے جو قوم کو اندھیرے سے نکال کر
روشنی کی طرف لائے ۔ جو وہ شعبہ اپنائے ہوئے ہے جس کے حوالے سے میرے رسول ﷺ
نے فرمایا تھا کہ:
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
واﷲ عزت نفس بڑی چیز ہے ۔ ہر انسان کو اس سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے
۔ اگر کوئی شخص کہیں پہ کام کرتا ہے اور وہاں اس کی عزت کا خیال نہیں رکھا
جاتا ، اس کا احترام ، اس کی بات کی قدر اور اس کی مجبوریوں کو سمجھنے کی
اگر کوشش نہ کی جاتی ہو تو پھر وہ شخص نہ تو اس شعبے سے مخلصتا منسلک رہ
سکتا ہے اور نہ ہی ایمان داری سے اپنا کام سرانجام دے سکتا ہے ، نہ ہی اس
کے دل میں اس شعبے کے لیے کوئی محبت باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہی کوئی اس
شعبے کا مفاد ۔ بڑی حد تک یہ بات واضح ہے کہ آدمی وہ شعبہ چھوڑ دے گا یا
مجبوراََ کام کرے گا بھی تو نام کا۔
حکومت کر طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ بچے داخل کریں ، یہ انتہائی اہم
اقدام ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ غریب والدین جن کہ پاس وردی ، کاپیوں
اور بچے کے جیب خرچ کے لیے پیسے نہ ہوں ،اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے ؟
حاشا و کلا ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہر بچہ پڑھا لکھا ہو تو ہمیں غربت
کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔ غربت ختم ہو گی تو لوگ پیٹ کے علاوہ بھی کچھ سوچ
سکیں گے ۔ جس گھر میں رات کا کھانا موجود نہ ہو کیا اس گھر کے سر پرست کو
یہ خیال آئے گا کہ اپنے بچے کو سکو ل بھیجے ؟ ہر گز نہیں ۔ کیا وہ سوچ پائے
گا کہ اس کا بچہ پڑھ لکھ جائے؟ ایسا ممکن ہی نہیں ۔ جب والدین رضا مند ہی
نہ ہوں بچے کو سکول بھیجنے پر تو اُساتذہ کیا خاک بچوں کو سکول میں داخل کر
سکیں گے ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے معاشرتی مسائل کو مدِنظر رکھنا ہو گا ، پھر
ہمیں نظام کو ٹھیک کرنا ہو گا اور معاشرے کے مطابق اُسے ڈھالنا ہو گا۔
اُساتذہ سے بد سلوکی انتہائی بری بات ہے ۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا مقدس شعبہ
ہے کہ جس سے پیارے پیغمبر ﷺ بھی منسلک تھے ۔ جس طرح سے میرے حضور ﷺ نے
صحابہ کرام ؓ کو تعلیم سے آراستہ کیا اگر ہم وہ طریقہ اپنائیں تو ہم کامیاب
ہو سکتے ہیں۔ علم کے حصول کا شوق ہمیں پیدا کرنا ہو گا ۔ علم کے فائدوں سے
والدین کو آگاہ کرنا ہو گا اور غربا و مساکین کے لیے سکالرشپ کا اجراء بہت
ضروری ہے ۔ فکر معاش سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ غربا کا اگر خیال رکھا جائے ،
اگر نعروں سے نکل کر انھیں خوراک مہیا کی جائے تو پھر ممکن ہے کہ پڑھا لکھا
پنجاب بن پائے ورنہ کوئی امید نہیں ہے ۔
آخر میں مَیں اُساتذہ سے کہوں گا کہ آپ بھی ذرا اپنی اداؤں پہ غور کریں ،
یہ جو آپ پہ سختیاں کی گئی ہیں ان کی وجہ آپ میں چھپی کالی بھیڑیں ہیں۔آپ
ایک انتہائی مقدس پیشے سے منسلک ہیں ، آپ کو ایمان دار ی اور دیانت داری کا
دامن کبھی بھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے ، اُساتذہ کو اگر اپنا انعام حاصل
کرنا ہے تو انھیں چاہیے کہ صفہ کے معلم قدس ﷺ کی تقلید کریں ۔ جو فرض ہے وہ
ادا کرتے رہیں ،معمار قوم کی حیثیت سے آپ کو سب سے زیادہ معاشرے کی ،قوم کی
اور ملک کی فکر ہونی چاہیے ۔ اپنے مفادات ترک کر کے ملک کے اور قوم کے
مفادات کو ترجیح دیں ۔
|