گردوپیش ہورہے اندوہناک واقعات نے سر کو مزید جھکا دیا ہے
اور جھکی کمر اور جھک سی گئی ہے ۔آنے والی نئی نسل کو ہم کس طرف دھکیل رہے
ہیں ۔ چند روپوں کی خاطر ہم اپنی اولاد سے بے فکر ہوکر انہیں انٹرنیٹ ،
ویڈیو گیمزاور دیگر ذرائع کے ہاتھوں میں یرغمال بنا چکے ہیں ۔نئی نسل میں
بے راہ روی بڑھ رہی ہے ، بڑوں کے ادب کا شدید فقدان ہے اوررشتوں کا تقدس
ختم ہوچکا ہے ۔سیلانی کے مطابق کراچی میں ایک سکول کے ٹیچرزوالے باتھ روم
میں ساتویں کلاس کے طالب علم نے موبائل چھپاکر ویڈیو ریکارڈ کی لیکن وہ
موبائل کسی اور کے ہاتھ لگا اور اس نے وہ ویڈیو سوشل میڈیا کے ایک ایسے
گروپ میں شیئر کردی جس میں ریکارڈنگ کا حصہ بننے والے بھی موجود تھے ۔اس کے
پیچھے ایک خاتون ٹیچر سے ڈانٹ کا بدلہ کارفرماتھا ۔صرف ڈانٹ کا بدلہ اور وہ
بھی اس حد تک !الامان الحفیظ استاد جسے ہمارے معاشرے میں والدین کا درجہ
حاصل ہے اس کے متعلق ساتویں کلاس کے اس طالب علم کی سوچ کو ہم صرف ایک طالب
علم کی سوچ نہیں کہہ سکتے ۔یہ ہماری معاشرتی سوچ ہے جس کا اظہار اس طالب
علم نے کیا ، اُس چھوٹے بچے نے جو معاشرے سے سیکھاوہی ردعمل کیا ۔ہم اس قدر
بے حس ہوچکے ہیں کہ روزانہ زنا، قتل اورحادثات دیکھ کر بھی آنکھوں کا کوئی
کونا تک نہیں بھیگتا۔
’’فارایور‘‘ نامی این جی او کے زیراہتمام ہوئی ڈھائی ہزار طلبا پر تحقیق کی
گئی جسے مکمل کرنے میں 5 سال کا عرصہ لگا ۔اس تحقیق میں چونکا دینے والے
نتائج ہیں جو دل کو دہلا دینے والے ہیں ۔اسعد’’ جو کہ فری لانسر اورمحقق
ہیں آج کل فارایور این جی او سے جڑے ہوئے ہیں ‘‘ کے مطابق اس تحقیق میں
کراچی کے ایسے 3علاقوں کا انتخاب کیا گیا جہاں لوئر مڈل ، مڈل اور اپر کلاس
رہائش پذیر تھی ۔ساتویں سے انٹرمیڈیٹ کے ڈھائی ہزارطلبا سے سوالات کیے گئے
، انٹرویو لیے اور انہوں نے جو کچھ بتایا وہ لرزادینے والا ہے۔بچوں میں
جدید ذرائع کا عام ہونا اور اس پر ان کو کھلی چھوٹ نے وہ کام کردیا ہے جو
شاید ہمارا دشمن صدیوں تک نہ کرپاتا ۔ہماری نسل ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہے
۔اسعدکے مطابق جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان میں سب سے واضح باتیں ’’بچوں میں
باغیانہ خیالات،مجرمانہ ذہنیت کا زیادہ ہوتا رحجان اور جنسی خواہش کی بڑھتی
خواہش ‘‘ہے۔انٹرنیٹ کی آسان فراہمی ، مخلوط نظام تعلیم ، بے پردگی ،جنسی
لٹریچر تک عام رسائی، انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا جہان کا گند صرف ایک کلک پر
موجود ہونا،اس پر کسی بڑے کی نگرانی کا نہ ہونااورمعاشرے میں پھیلے جنسی
ہرکارے ایسے ناسور بن چکے ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکھلا
کرچکے ہیں ۔جنسی خواہش کو ابھارنے والے پروگرامات ،فلمیں ، ڈرامے اور اس پر
مخلوط نظام تعلیم کا ہونا ایسے عوامل ہیں جن سے بچے کا بچنا ناممکن سا ہے
۔اشتہارات کے نام پر جوسلو پوائزن ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا
ہے وہ ساتویں کلاس کے طالب علم کی طرح ہی گُل کھلائے گا ۔کارٹون کے چینلوں
پر جو کچھ دکھایاجارہاہے وہ معصوم ذہنوں میں جنس مخالف سے دوستی کوجس طرح
سے بڑھاوادے رہے ہیںیہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
والدین کولہو کے بیل کی طرح ان کے آگے آسائشوں کے ڈھیر لگانے کی فکر میں
غلطاں ہیں ۔صبح سویرے گھرسے نکلنے والے باپ کی رات گئے واپسی اور ماں بھی
معیار زندگی بہتر بنانے کے چکروں میں نوکری کرنے پر مجبور نظر آتی ہے ۔ایسے
میں بچوں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع
ابلاغ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ان پر پڑا مواد کچے ذہنوں میں جو
غلاظت بڑھ رہا ہے اس سے عنقریب ماں ، بہن اور بیٹی کا مقدس رشتہ بھی ختم
ہوتا نظر آرہا ہے ۔بیرون ممالک مقیم باپ کی اولاد کی حالت تو مزید پتلی
ہوجاتی ہے ۔میرے ایک عزیز ہیں جو اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ بیرون ملک
مقیم رہے اور ان کا بیٹا پاکستان میں انہیں کی جائیداد پر عیش کرتا رہا
۔والد جب ریٹائرڈ ہوکر واپس آیا تو بیٹا اس قدر بگڑ چکا تھا کہ والد کو
والد ہی نہ سمجھتا تھااوران کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اورہی جابیٹھا تھا
۔فاسٹ فوڈ کی مد میں ہم جو بچوں کو کھلا رہے ہیں اس پر بھی کچھ بڑے خدشات
کا اظہار کرچکے ہیں خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر ابھی میں کچھ نہیں لکھ
سکتا۔ماں کو اپنی بیٹی کی بدلتی عمر کے تقاضوں کی خبر بھی کہیں اور سے پتہ
چلتی ہے اور بعض اوقات بیٹی عزت کو عزت سمجھنے سے قبل ہی گنوا چکی ہوتی ہے
۔ہمارے اردگرد ایسے کئی واقعات ہیں جن کے ہم چشم دید گواہ ہیں لیکن ہم اس
پر توجہ دینے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔مشین کی طرح کام کرکے ہم اپنی
زندگی کے بہترین سال دولت کے پیچھے گنوادیتے ہیں اور آخری عمر میں اولاد کی
تربیت پر روتے پیٹتے ہیں ۔سیلانی کے مطابق ریسرچ رپورٹ کا خلاصہ میں 45فیصد
بچوں میں باغی پن،مجرمانہ سوچ اور بڑھتی ہوئی جنسی طلب پائی گئی ۔25فیصد
بچے مجرمانہ سوچ اور35فی صد بچے باغیانہ سوچ کے حامل ملے ۔اس رپورٹ سے
ظاہرہوتا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں ، اسلام سے دور ، اپنے بزرگوں کی
روایات سے دور اور اب انسانیت سے بھی دور ہورہے ہیں۔بچوں پر توجہ دینے کی
بجائے ہم انہیں سمارٹ فون ،آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ دے کر جان چھڑاتے ہیں
۔چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل اور ان پر لگے مختلف اقسام کے
پاسورڈ ہمیں شدید خطرات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے
بچوں کو تباہ کررہے ہیں، بچوں کا کل اپنے آج سے تباہ وبرباد کررہے ہیں
۔والدین بچوں کے کل کے لیے آج تباہ وبرباد کررہے ہیں ۔خدارابچوں کا آج بہتر
کردیں مستقبل خود ہی ٹھیک ہوجائے گا ۔بچوں کو جدید ذرائع سے لازمی روشناس
کروائیں لیکن اس سے پہلے انہیں اپنی روایات کا امین بنائیں ، مذہب سے تعلق
سکھلائیں اور اپنی مصروف زندگی کوختم کرکے تھوڑا کم کماکر انہیں وقت دیں ۔ |