مردم شماری سے تعلیم کا ضیاع

آج میری توجہ ایک سینئر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس اہم موضوع کی جانب مبذول کرائی۔ پاکستان بھر میں سپریم کورٹ کے حکم پر مردم شماری کی جا رہی ہے۔ مردم شماری کا دُوسرا مرحلہ جاری ہے۔ مردم شماری میں پاک فوج اور محکمہ تعلیم کا بہت بڑا کردار ہے مگر اس سے تعلیم کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ سکولوں کے اساتذہ مردم شماری کے فرائض سر انجام دینے کے لئے مصروف کر لئے گئے ہیں۔ سکول اساتذہ سے خالی کر دئیے گئے ہیں۔ اگر ایک سکول کا سٹاف 30 اساتذہ پر مشتمل ہے تو 20 اساتذہ مردم شماری کے فرائض پر مامور کر دئیے گئے ہیں۔ اگر مردم شماری گرمیوں کی چھٹیوں میں کی جاتی تو یقینا اس سے بچوں کی تعلیم کا نقصان نہ ہوتا مگر ابھی گرمیوں کی چھٹیوں سے ایک ماہ قبل مردم شماری کا دُوسرا مرحلہ جاری ہے اور پھر اس کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہو جائیں گی۔ اس طرح بچے تقریباً ساڑھے تین ماہ تعلیم سے دُور رہیں گے تو اس طرح بچوں کی تعلیم کا بہت بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک طرف پنجاب گورنمنٹ تعلیم کی اہمیت پر زور دے رہی ہے اور جن جن سکولوں کے نئے داخلوں کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوا اُن کو شوکاز نوٹس بھی جاری کئے گئے ہیں جبکہ دُوسری طرف منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اب جب بچوں کو پورا دن مصروف نہیں رکھا جائے گا، اُن کو پڑھایا نہیں جائے گا تو پھر یہی بچے اپنے اپنے والدین کو جب منفی رپورٹ دیں گے تو یقینا اس کے منفی اثرات رونما ہوں گے۔ گورنمنٹ سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان نے انتہائی محنت اور یقین سے بڑے بڑے پرائیویٹ سکولوں سے بچوں کو گورنمنٹ سکولوں میں داخلے کے لئے خلوص نیت سے کوششیں کیں جن کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے مگر ابھی جس طرح مردم شماری کی وجہ سے پورے پورے سکول اساتذہ سے خالی ہو گئے ہیں اس سے یقینا منفی اثرات ظاہر ہوں گے۔ بچوں کی تعلیم کا بھی بہت بڑا حرج ہو گا۔ اگر سرکار مردم شماری کو گرمیوں کی چھٹیوں میں کرتی تو یقینا اتنے مسائل پیدا نہ ہوتے جتنے اس وقت نظر آرہے ہیں۔ گورنمنٹ اساتذہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے اپنے اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے کی کوشش میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت سرکاری تعلیم کا معیار بہت بہتر ہوا ہے مگر اس طرح کی ڈیوٹیاں لگا دینے سے پھر تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ سرکار کو کوئی بھی ایسی مہم شروع کرانے سے پہلے یقینا بھرپور منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور ہر پہلو کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔ یا پھر اس مقصد کے لئے نئی ٹیمیں تشکیل دینی چاہئیں، اس سے ایک تو بے روزگار کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے دُوسرے ادارے بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین سے ہی کام لینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب پاکستان میں افرادی قوت اتنی زیادہ ہے اور پاکستان میں بے روزگاری بھی انتہا کی ہے پھر ایسے کام کے لئے ان سے مدد کیوں نہیں لی جاتی۔ اب سرکاری اساتذہ اپنی اپنی تنخواہیں بھی لیں گے یعنی بغیر بچوں کو پڑھائے ماہانہ تنخواہیں بھی اور مردم شماری کرنے کا الاؤنس بھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سرکاری اساتذہ اپنے اپنے اداروں کو وقت دیتے اور مردم شماری کے لئے نئی ٹیمیں تشکیل دی جاتیں۔ ایسے میں ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ غربت کے مارے خودکشیاں کرنے سے بچ جاتے۔ لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر کسی بھی کام کی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ بس جب فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو پھر بغیر کچھ سوچے سمجھے کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا۔ کاش مردم شماری شروع کرنے سے پہلے اس کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لے لیا جاتا تو یقینا پاکستان کا مستقبل یعنی وہ بچے جو اس وقت سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُن کی تعلیم کا حرج نہ ہوتا۔ اس وقت سکولوں کے اساتذہ تو ڈبل ڈبل مزے لے رہے ہیں لیکن سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان سخت پریشانی میں مبتلا ہیں چونکہ ارباب اختیار کو یہی ہیڈ ماسٹر صاحبان ہی جواب دہ ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56641 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.