میرے رسولﷺ کی تعلیم

 وہ میرا کلاس فیلو تھا۔ فیصل آباد کے کسی قریبی گاؤں کا رہنے والا۔ انتہائی غریب۔گھر میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اسے معمولی رقم بھی بھیج سکتا ہو۔فقط یونیورسٹی کی طرف سے ملنے والا وظیفہ تھا جس پر اس کی گزر بسر تھی۔ کبھی کبھی وہ بہت مجبور ہوتاتو سارے کلاس فیلو اس کی مدد کر دیتے۔وہ کلاس کے بہترین طالب علموں میں شمار ہوتا تھا۔میرے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس کا باپ فوت ہو چکا تھا۔کبھی وہ بہت دکھی ہوتا تو گھر کے نامساعد حالات کا تذکرہ کرتا۔ گھر کے حالات بدلنے کے لئے وہ بہت محنت کرتا تھا۔اس کی باتوں سے بڑھاپا چھلکتا تھا۔ مفلسی نے اس کی جوانی برباد کر کے رکھ دی تھی۔

اسے ریڈیو رکھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ کسی نے اسے کچھ رقم دی تو مجھے پوچھنے لگا کہ کوئی لڑکا اپنا ٹرانسسٹر ساٹھ روپے میں بیچ رہا ہے ۔ میرے پاس پچاس روپے ہیں ۔ خرید لوں۔امید ہے وہ پچاس میں دے دے گا۔ میں نے کہا خرید لو۔ شام کو ملا تو میں نے پوچھا کہ ٹرانسسٹر کہاں ہے۔ جواب ملا، نہیں خریدا۔سوچا مہینے کے آخر میں کوئی ضرورت پڑ گئی اور پیسے کم ہو گئے تو پریشان ہوں گا، اسلئے ۔ میں اس کے شوق سے آگاہ تھا۔ میں نے حوصلہ دیا کہ اگر کوئی مشکل آئی تو میرے ذمے ،تم خرید لو۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ٹرانسسٹر تھا اور چہرے پر خوشی کی لالی۔غریب لوگوں کی خوشیاں کس قدر چھوٹی ہوتی ہیں، معمولی سی رقم کی محتاج۔

امتحان میں کچھ دن باقی تھے۔وہ صبح میرے پاس بیٹھا بتا رہا تھاکہ چیرمین نے اسے یقین دلایا ہے کہ اگر اس کی پوزیشن آ گئی تو اسے یونیورسٹی ہی میں ملازم رکھ لیا جائے گا۔اور اسے یقین تھا کہ اس کی پوزیشن آئے گی۔ وہ بہت سی حسرتیں، بہت سے ارماں اور بہت سے خواب لئے ہمارے ساتھ ہی یونیورسٹی گیا اور آیا۔شام سے کچھ پہلے کچھ شور ہوا۔ پہلے تو میں نے سنی ان سنی کر دی مگر جب شور زیادہ بڑھا تو میں باہر نکلا۔ پتہ چلا کہ اس کے کمرے کو آگ لگائی جا رہی ہو۔ مگر کیوں۔ ہم سارے دوست بھاگ کر اس کے کمرے تک پہنچے۔زیادہ تر انجان اور چند یونیورسٹی کے طلبا کا ہجوم اس کے کمرے میں موجود تھا، زیادہ ہاتھوں میں لاٹھیاں اور کچھ ہاتھوں میں پستول تھے۔ کمرے کے درمیان میں یونیورسٹی کی دی ہوئی چاپائی تھی جس پر اس کے کپڑے تھے۔ ہم نے کپڑوں پر نظر ڈالی تقریباً سبھی کپڑے ہم دوستوں نے اسے دئیے ہوئے تھے ۔ چارپائی کے نیچے اس کے ٹرانسسٹر کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔ ہم بے بسی سے دیکھتے رہے، کچھ کر نہیں سکتے تھے اور ہمارے سامنے مٹی کا تیل چھڑک کر ہر چیز کو آگ لگا دی گئی۔ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ اس کا تعلق ایک خاص فرقے سے تھا۔اس کے گاؤں کے چند لڑکے اس شہر کے کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھے۔ وہ ایک جلوس لے کر نعرے لگاتے ہماری یونیورسٹی میں آئے ۔ یونیورسٹی کے کچھ جنونی فوراً ان کے ہمراہ ہو لئے۔ وہ ہوسٹل سے باہر کھڑا تھا۔ نعرے لگاتے ہجوم کی قیادت کرتے اس نے اپنے گاؤں کے لڑکوں کو دیکھا تو بھاگ نکلا۔ ہجوم نے اس کے کمرے کا دروازہ توڑا اور اب ہمارے سامنے آگ تھی جس میں اس کا سب کچھ جل رہا تھا۔ اس کی چیزیں، اس کا سامان، اس کے ارمان، اس کی حسرتیں، اس کا مستقبل اور اس کے خواب۔مگر اس نے اچھا کیا بھاگ کر اپنی جان بچا لی ورنہ وہ بھی مثال خان کی طرح اک کہانی بن کر رہ جاتا۔

آج اس سانحے کو چالیس برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس دن سے بھاگا ہوا ہمارہ وہ دوست کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ آج تک اس کا کچھ سراغ نہیں ملا۔شاید وہ کسی ایسی سر زمین کی تلاش میں کہیں دور جا بسا ہے جہاں میرے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل ہو رہا ہو گا۔ جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہو گا۔ جہاں انسانیت کا احترام کیا جاتا ہو گا۔یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی اور جنونی گروہ کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

حضرت ابو بکر نے رومیوں کے خلاف اعلان جہاد کیا تو چار لشکر ترتیب دیئے اور ہر ایک کا ہدف بھی متعین کر دیا۔ہر لشکر کے سردار کو اپنا علاقہ فتح کرنا اور بعد میں اپنے مفتوحہ علاقے کی امارت بھی سنبھالنا تھی۔ منزل مقصود اس طرح تعین کی گئی،
حمص۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراح
دمشق۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت یزید بن ابی سفیان
اردن۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت شرجیل بن حسنہ
فلسطین۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت عمرو بن العاص

ان فوجوں کو روانہ کرتے وقت حضرت ابو بکر صدیق نے جو ہدایات دیں وہ تاریخ کے صفحات میں اسلام کے رہنما اور روشن اصولوں کے طور پر ثبت ہیں۔آپ نے فرمایا، یاد رکھو، خدا تمھارے ساتھ ہے اور تمھیں دیکھتا ہے۔جنت کی طلب کرو، نا انصافی اور ظلم و تشدد سے بچو۔اپنے مجاہدوں کا اعتماد اور وفاداری برقرار رکھو۔ اﷲکی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مردانگی کا مظاہرہ کرنا اور پیٹھ نہ پھیرنا۔ اپنی فتوحات کو عورتوں اور بچوں کے خون سے آلودہ مت کرنا۔کھجور اور دوسرے پھلدار درختوں کو مت کاٹنا۔اناج کے کھیتوں کو نہ جلانا ۔نہ مویشیوں کو نقصا ن پہنچانا سوائے اس کے کہ تم انہیں کھانے کے لئے ذبح کرو۔جب عہدکرو تو اس کی پابندی کرو۔ اپنے وعدے کا پاس کرنا۔جب تم آگے بڑھو گے تو تمھیں تارک الدنیا مذہبی افراد ملیں گے جو خانقاہوں میں رہتے اور اپنے طریقے سے خدا کی عبادت میں مشغول ہوں گے۔ ان سے تعرض نہ کرنا ،نہ انہیں قتل کرنا ، نہ ان کی خا نقاہوں کو تباہ کرنا۔

مکہ کے مشہور سردار ابو سفیان کے بیٹے یزید کو خاص طور پرکہا کہ تمھاری قرابتداریاں ہیں۔شاید تم ان کو اپنی امارت سے فائدہ پہنچاؤ۔ در حقیقت یہی سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے میں ڈرتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مسلمانوں کا حاکم مقرر ہواور کسی شخص کو بلا استحقاق رعائت کے طور پر افسر بنا دے تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔خدا اس کا کوئی عذر قبول نہیں کرے گااور اس کو جہنم میں ڈالے گا۔

اس دور میں مسلمانوں کی کامیابی کا سبب اتحاد، یک جہتی ، انصاف اور مساوات کا دور دورہ تھا۔وہ مفتوحہ علاقوں کے باشندوں سے عدل و مساوات کا سلوک کرکے ان کا دل جیت لیتے تھے۔انہیں حقیر اور ذلیل نہیں جانتے تھے۔ان پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے۔ان کی بے حرمتی نہیں کرتے تھے۔انسان کو انسان سمجھتے اور حسن سلوک سے اسلام کی طرف مائل کرتے تھے۔ معمولی جزیہ لے کر اپنے دین پر قائم رہنے والوں کے جان، مال اور آبرو کی پوری حفاظت کرتے تھے۔ ان کی مذہبی آزادی پر کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔رواداری اور بھائی چارا ان کا بنیادی اصول تھا۔

آج بھی ہم اسی رحمت العالمینﷺکو ماننے والے ہیں۔ مگر ہم میں رواداری اور بھائی چارا مفقود ہے۔ ہم کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم انسان کو انسان نہیں سمجھتے۔دوسرے تو کیا ہم اپنے سلوک سے اپنے بھائیوں کو بھی متنفر کر رہے ہیں۔ دہشت گردی ہمارے لئے ایک کھیل ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس میں ہم خود کو عورتوں، بچوں اور بے گناہ لوگوں کے خون سے آلودہ کر رہے ہیں۔ہم اپنے ہم مسلک کو عظیم جانتے اور باقی سب مسلکوں کو تحقیر کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔یہ دہشت گردی ، یہ تعصب، یہ قتل و غارت پتہ نہیں کہاں کا اسلام ہے۔ کوئی نہیں جانتا،کوئی نہیں پوچھتا۔حکمرانوں کے اپنے مفادات ہیں انہیں لوگوں سے کوئی خاص غرض نہیں۔ اقربا پروری اور بلا استحقاق لوگوں کی تعیناتی کی لعنت بہت عام ہے۔ اس ساری صورت حال میں لوگوں کو کسی خدائی معجزے کا انتظار ہے۔ اس کے علاوہ حالات کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500646 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More