دنیا میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب
تک وہ تعلیم کے میدان میں ترقی نہیں کرے گی جب انگریزوں مغل شہنشاوں سے
اقتدار چھینا تو اس وقت مسلمانوں میں شرح خواندگی سو فیصد تھی مگر جب
انگریز برصغیر چھوز کر گے تو مسلمانوں میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر
تھی. اور یہ تو اللہ بھلا کرے سر سید احمد خان کا جس نے تحریک علی گڑھ شروع
کی اور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو قاید
اعظم نے ہر شعبے مین اصلاحات کا عمل شروع کر رکھا تھا مگر جب تک تعلیم کا
نمبر آتا آپ اس دنیا سے ر خصت ہوگے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے وہی
انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کو جاری رکھا اور ہر حکومت نے اپنی پالیسی لاگوں
اور تعلیم مین بھی طبقاتی تعلیم شروع ہوگی سیاستدانوں اور انکے بچوں کیلیے
اور ادارے سرمایہ داروں کیلیے اور ادارے اور امیروں کیلیے اور ادارے اس طرح
ایوب سے لیکر آج میاں نواز شریف کی حکومت تک ہر ایک نے تعلیم میں تجربات کا
سلسلہ جاری رکھا اور کسی کی تعلیمی پالیسی کامیاب نہ ہوسکی ہم نے کاغذی طور
پر تعلیم میں ترقی حاصل کرلی اور شرح حواندگی بھی بڑھا لی مگر عملی طور ہر
یو اسکے الٹ. رہا ہے اور اب بھی تعلیم کے میدان میں تجربات کا عمل جاری ہے
اور آج بھی تعلیم میں بہتری کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر پوزیشن جوں کی
توں ہے اور ہنجاب میں بچے ابھی تک کھاد کے تھیلے پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر
رہے ہیں اور فرنیچر پر بیٹھنے کو تر س رہے ہیں تمام وسایل کو. بچوں اور
اساتذہ پر خرچ کرنے کی بجاے. اساتذہ کی چیکنگ پر لگاے جارہے ہیں پاکستان
مین تعلیم ہی ایسا شعبہ جس میں الٹ کام چل رہا ہے وہ ٹیچر جو بچوں. کو. الف
ب سے تعلیم کا آغاز کرتا ہے اور بنیادی کلاسس کو پڑھاتا ہے اسکا سکیل بھی
کم اور تنحواہ بھی سب سے کم اور جو چار پانچ پیرید پڑھاتے ہیں انکا سکیل
زیادہ اور تنحواہ بھی زیادہ اور جو تین چار پیرید. پزھاتا ہے اسکا گزٹیذ
سکیل اور تنحواہ سکولون میں سب سے زیادہ اور جو صرف ایک مضمون پڑھاتے ہیں.
انکا سکیل سترھواں اور تنحواہ لاکھوں میں اور مزے تو یونیورسٹی کے اساتذہ
کے ہیں جو ایک مضمون پڑھاتے ہیں. انکا وظیفہ لاکھوں میں. یہ ہے تعلیم کی
سچی کہانی جو ستر سال سے چیح چیح کر دھای دے رہی ہے اور اب تعلیم کو غیر
ملکی امداد لینے کیلیے. این جی اوز کے حوالے کردیا گیا ہے اور وہ اپنی مرضی
کا سلیبس ترتیب دے رہے ہیں. اور اسلامیات کے سلیبس سے اپنی پسند کے اسباق.
شامل کیے رہے ہیں مطالعہ پاکستان اور جغرافیہ کو. پنجم اور ہشتم کے امتحان
سے نکال دیا گیا ہے اور اب پتہ نہیں آنے والی حکومت تعلیم سے پتہ نہیں کیا
کرتی ہے اور اگر تعلیم. کو صحیج معنوں میں لیا جاتا تو آج تعلیم کہاں سے
کہاں ہوتی اور یہ ایک حقیقت ہے. کہ ہم تعلیمی ترقی کے بغیر ترقی حاصل. نہیں
کرسکتے اور جب تک ہماری حکومتیں تعلیم. پر بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ نہیں. کریں
گی ہم ترقی نہیں کر سکتے اگے نہیں بڑھ سکتے. ہم بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ.
اللہ پاک ہمارے وطن کو ہر میدان میں ترقی دے خوشحالی دے امن دے سکون دے
برکت دے امین |