ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا
بڑے مزے سے موسم سر ما کی دھوپ سے لطف اندوز ہو ر ہا تھا قریب ہی جھاڑیوں
میں ایک خر گوش یہ منظر د یکھ ر ہا تھا اس کا من مچلا کہ یہ تو کیا مزے کی
زندگی ہے ۔اس نے کوے سے پو چھا کہ کیا میں بھی ایسے ہی آرام سے لیٹ سکتا
ہوں ؟کوے نے کہا کیو ں نہیں ؟ خر گوش درخت کے نیچے عین کو ے وا لی شاخ کے
نیچے بیٹھ گیا ،گر ما کی دھوپ نے اثر دیکھا یا اور جلد ہی خر گوش خواب خر
گوش کے مزے لینے لگا ۔اچا نک و ہا ں ایک لو مڑی آئی اور چٹ کر گئی۔
دوسرے ہی درخت پر ایک فاختہ یہ منظر دیکھ ر ہی تھی ۔یہ ما جرا اُس نے دیکھا
تو بو لی ہا ئے افسوس کہ اس طرح بے فکر ی میں بیٹھنے کے لیے پہلے ضروری تھا
کہ تم کو ئے کی طرح بلندی پر پہنچ کر بیٹھتے۔
اگر ہم اپنے معا شرے پر اس کہا نی کو فٹ کر یں تو نوجوان نسل پر یہ عین
صادق آتی ہے ۔ ابھی ہم اپنی عملی زندگی کے آغاز میں ہو تے ہیں اور ہما ر
ے ذہنوں میں بڑے بڑے اعلیٰ شان دفاتر کی کر سیاں گھو منا شروع کر د یتی ہیں
ہمیں ما لی اور چپڑا سی کے کام سے چھوت کی حد تک نفرت ہو جا تی ہے ۔ ہم ایک
ہی رات میں بزنس ٹائی کون ،منجھے ہو ئے سیاست دان ،ٹاپٹین صحافی اور ہر دل
عزیز فنکار بن جا تے ہیں ۔
جب میں ان تکبر سے بھر ے ہو ئے نو جوانوں کو دیکھتا ہوں تو میر ے پو ر ے
بدن میں خوف سرائت کر جا تا ہے ۔کہ ماتقبل کا پا کستا اس قدر متکبر ہو گا ۔
اور جب اس مستقبل کے پاکستان کو میں احساس بر تر ی سے اس قدر پُر د یکھتا
ہو ں کہ ان کے سر اُلل ر ہے ہو تے ہیں تو بھی میں خوف سے سہم جا تا ہوں کہ
مستقبل کا پاکستان کس قدر پُر تشدُد ہو گا؟ پھر جب میں کسی موڑ پر خواہشات
سے بھر ے ہو ئے دلوں کو ٹوٹتا دیکھتا ہوں تو بھی لرز جا تا ہوں کہ مستقبل
کا پاکستان خود سوزی کا گڑھ ہو گا۔ آج آپ گلیوں میں با زاروں میں اس کی
جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں ۔ ہر کو ئی خر گوش کی طر ح بس دن بھر لیٹے ر ہنا چا
ہتا ہے ۔ وہ ا پنے ہر دن کو عید کی طر ح روشن اور پُر مسرت بنا نا چا ہتا
ہے یہ سو چے بغیر کہ اس کے پیچھے پو رے تیس دن کی فا قہ کشی کا ز مانہ گزرا
ہے تب یہ عید نصیب ہو ئی ہے ۔ وہ اپنی ہر رات رنگین اور بھر پور نیند میں
گزارنا چا ہتھا ہے یہ سوچے بغیر کہ ایک سورج کی قربانی کے بعد ہمیں رات
نصیب ہو تی ہے کہ ہم چاند اور ستاروں سے ہم کلام ہو سکیں ۔وہ سورج جس نے پو
ر ی د نیا کا رزق پکا یا ۔
انسان نے کو ئی نعمت پا ئی ہے یا وہ پا تا ہے ،یا وہ پا ئے گا ، اُس کے
پیچھے ایک جہد اور قربانی کی داستاں ضرور ملے گی ۔ آدم ؑ کو یہ دنیا جنت
کی قربانی کے بعد ملی اور جنت اس د نیا کی قر با نی کے بعد ملی ۔ کسان ایک
ایک دانہ زمین کی آغوش میں د با د یتا ہے ،وہ مٹی میں مٹی بھی ہو سکتا ہے
،مگر کسان کی حکمت عملی ،محنت اور خُدا کا فضل مل کر اُسے اناج کے ڈھیر میں
تبد یل کر تے ہیں ۔ ایک مٹھی اناج در حقیقت کسان کا وہ خواب تھا جو اُس نے
حقیقت کی زمین کے سینے میں بو دیا اور پھر وہ تعبیر کا ڈھیر بن گیا۔ جو قوم
کام سے پہلے ہی اُجرت کا تعین شروع کر دے اور پھر اُس اُجرت سے لگثری زندگی
کے خواب بُننے لگے اُس کا انجام خواب غفلت میں ڈوبے ہو ئے خرگوش کی طرح
صفحہ ہستی سے مٹنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟ ظا ہر ی ترقی اُس وقت تک ممکن
نہیں جب تک ہم ذہنی ترقی نہیں حاصل کر لیتے ۔ ہم ذہنی با لیدگی میں اس قدر
پیچھے ہیں کہ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ باس اور آقا بنے ۔ اور با قی سب
میر ے خدمت گار ہوں یہ جا نے بغیر کہ کیوں ؟ کاش نوجوان اس کیوں کا جواب
کسی طرح دے سکیں یا تلاش کر سکیں ۔ باس بننے سے پہلے کی ساری کوشش نظر
انداز کر کے کو ئی کیسے باس بن سکتا ہے ؟ ایک کامیاب بزنس مین کے پیچھے ایک
لمبی کوشش اور محنت ہے ۔ اُس پر چلے بغیر کیسے ہم اُس مقام تک جا سکتے ہیں
۔ تین گھنٹے کی مووی کے پیچھے بھی برسوں کی شوٹنگ اور محنت ہو تی ہے ۔ خیال
اور خواب پہاڑوں کی طر ح ہو تے ہیں ،جو دیکھنے میں بہت آسان ہو تے ہیں اور
نظر اُسے ایک ہی لمحے میں سر کر لیتی ہے مگر جب ان پر عمل کا سفر کیا جا ئے
تو نڈھال کر دیتے ہیں ۔تب وہ بلندی نصیب ہو تی ہے ،جہاں پڑاو کر کے ہم بے
فکر ی کی نیند سو سکتے ہیں پھر کسی لو مڑی کا کو ئی خطرہ نہیں ر ہتا ۔کیو
نکہ ہم اُس سے بہت اُوپر آچکے ہو تے ہیں ۔اُس وقت دشمن کا نیچے سے اُوپر
کی طرف پھینکا گیا کئی من کا پتھر بھی اُسی پر آگر تا ہے اور ہمارا چھوٹا
سا کنکر بھی اُسے لہو لُہان کر سکتا ہے ۔تو چلو میرے دوستو بلندیوں کا سفر
شروع کر تے ہیں ۔آو اپنی ارض پاک کو بھی چمن بنا تے ہیں ۔ |