میرا درد ہو کیسے بیاں......؟؟؟

چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا فیس بک آن کی ہر پوسٹ مزدور کے حقوق کی بات کرتی ہوئی نظر آرہی تھی
.... اففف میں کیسے بھول گئی.... وہ چائے جو بہت شوق سے پی جاتی تھی... اس وقت اپنی توہین پر منہ بنائے سائیڈ ٹیبل پر ٹھنڈی ہوتی جارہی تھی، پر جسے نوش فرمانا تھی وہ گوگل سے درد بھرا شعر ڈھونڈنے میں منہمک تھی.... آخر کار دو سخت جھریاں بھرے ہاتھوں کے ساتھ ایک شعر مل ہی گیا.... وفور شوق سے شاید آنکھوں میں پانی ہی بھر آتا.... لیکن بھرا نہیں... اور امیجِ لیبر ڈاؤن لوڈ کر کے فیلنگ سیڈ میں آنسو آنکھوں میں لیے کارٹون سیلیکٹ کر کے فائنلی اسٹیٹس آپ لوڈ کردیا... تھری جی کی رفتار سے اسٹیٹس ڈنن ہوا 5 جی کی رفتار سے سکون کا سانس آیا...... پھر وہ چائے جو بے چاری اپنی نا قدری پر کولڈ رنک بن چکی تھی اس کی طرف متوجہ ہوئی پر چائے نے بھی ٹھنڈے گھونٹ میں کچن کی طرف جانے کا اشارہ کردیا...... نہ چار چائے کو تازہ کرنا جانا پڑا....

بلکل یہی حال ہے ہمارا اور ہماری قوم کا ہے..... اسٹیٹس کی دھن میں... مگن.... پر نہ جانے ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک دن کے حقوق دینا ہمارے اسلام کا شعائر نہیں ہماری شریعت کا منشور نہیں..... ہمارے نبی ﷺکا فرمان نہیں.. ہمارے قرآن کا فرمان نہیں، اسلام کے دامن میں رہنے والوں کو دائمی حقوق اسی دن مل گئے تھی جب دنیا میں پہلی سانس لے، اور ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی.... کون سا ایسا طبقہ ہے جسے اسلام نے حق نہ دیا ہو... والدین، عزیز و اقارب، معذور، مظلوم، بوڑھا، بچہ، بہن بھائی، بیوہ یتیم، آقا غلام، تاجر یا پھر مزدور مزدور ہی کیوں اسلام. تو انھیں بھی نوازتا ہے جو کلمہ طیبہ کے منکر ہیں.... اور پھر یہ ہے کیا مزدور ڈے غیر مسلموں کا ایک طریقہ.... ایک دن کے لیے ان مزدوروں کی بات کرتے ہیں جو اپنے حقوق والے دن بھی کسی سیمینٹ، گارے بجری، کسی دکان، کسی ٹھیلے، یا کسی حاکم کے جوتے پر پسینہ بہارہے ہوتے ہیں....

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے کہ پس منظر یہ ہے کہ یکم مئی 1886ء کو امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے تو پولیس نے اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والے پرامن جلوس پر فائرنگ کر کے سینکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ درجنوں کو حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن یہ تحریک ختم ہونے کے بجائے دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی جو آج بھی جاری ہے۔

شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو یہ دن اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں اور ان کا استحصال بند کیا جائے۔ یہاں واضح رہے کہ شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے....

پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی سمیت مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لئے اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ تو 1973 سے ہی محنت کشوں کے حقوق دینے کی بات کی جارہی ہے لیکن دیے کیوں نہیں گئے اب تک؟؟؟ اب تک وہ مسائل حل کیوں نہیں ہوئے؟؟؟ اب تک سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟؟؟معلوم ہے کیوں؟؟؟

مزدور کو حقوق صرف اسلام کے عادلانہ نظام کے عملی نفاذ سے ہی مل سکتے ہیں۔اسلام کے معاشی نظام میں ہی ان. کے حقوق انھیں میسر بھی ہوسکتے اوران کی غربت بھی اس میں ہی دور ہوسکتی ہے ۔ اسلام کا نظام عدل ہر ظالم و جابر کیخلاف تلوار بے نیام اور ہر مظلوم و مزدور اور محنت کشوں کی آواز ہے۔ موجودہ دور میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمرانوں نے عوام کے حقوق ادا کرنے کی بجائے اپنی ذاتی مفادات کے حصول کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔ اسلام کا نظام عدل ہی مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا معاوضہ ادا کرنا یہ اسلام کا ہی سنہری اصول ہے نہ کہ کسی لبرل کا بنایا ہوا کوئی قانون ۔ سرمایہ دارانہ نظام سوشلزم، کمیونیزم، کپٹیلزم اور اشتراکی نظام نے ہمیشہ محنت کشوں اور مزدوروں کا استحصال کیا ہے۔ سوائے ایک اسلام کے آج تک کسی اور نے کوئی دائمی، قائمہ، سکونی، اصول بیان نہیں کیے کوئی قاعدہ بیان نہیں کیا.. اور جو ہوئے ان میں سے آج تک دنیا کے سارے نظام اور تجربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے غیر مسلم بھی آج اپنی یونیورسٹیوں میں اسلام کے معاشی نظام پر تحقیقات اور ریسرچ کر رہے ہیں مگر پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اسلامی نظام کے عدم نفاذ سے معاشرے میں محنت کشوں اور مزدوروں سمیت ستر فیصد عوام کا استحصال ہورہا ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کے عملی نفاذ سے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں مگر جب، جب اسلام کا نفاذ ہو........

اگر بات کرنی ہے تو اسلام کی کرو، نظام مصطفیﷺ کی کرو، شریعت محمدیﷺ کی کرو نہ کہ آئیں بائیں شائیں،،، کیونکہ ان سے ہونا کچھ بھی نہیں.... یہ آپ بھی جانتے میں بھی اور یہاں کے درد مند حکمران بھی سب سے بڑھ کر تمام غیر مسلم بھی کے مسلمانوں کی بقا اور جِلا کس میں ہے......
از قلم.. دُرِّ صــــدفــ اِیــــمـــان
 

Dur Re Sadaf Eemaan
About the Author: Dur Re Sadaf Eemaan Read More Articles by Dur Re Sadaf Eemaan: 49 Articles with 51267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.