ازل سے انسان کے اندر عجیب سی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے ۔
کبھی وہ اچھائی کی طرف جاتا ہے تو کبھی بُرائی کی طرف۔ نیکی اور بدی کے
درمیان درمیان زندگی گزرتی ہے۔ یہی حال رشتوں کا ہے کبھی بہت چاہنے والے
دور دور محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ کبھی قریب قریب ۔پتہ بھی نہیں چلتا رشتوں کے
موتیوں کی مالا کس قدر کمزور ہو چکی ہے ، جب ٹوٹتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ
یہ عمل تو کب سے شروع تھا۔ کسی بھی چیز کو سمجھنے کے لیے اس چیز کی گہرائی
میں جانا پڑتا ہے۔ کچھ بھی فوراً سے نہیں ہوتا ۔جبکہ ہمیں وقوع پذیر ہونے
کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اچانک سے فلاح کو کیا ہو گیا۔ باطن کے عمل بھی
دھیرے دھیرے سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ نیکی و بدی ہو یا پھر ہماری محبتیں
اور نفرتیں دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہیں ۔
ایک دفعہ ایک شادی شدہ عورت کو اپنے ہی شوہر کے دوست سے محبت ہو گئی۔ وہ
اپنے تین بچوں کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے دوست کے ساتھ چلی گئی ۔ اس نے شوہر
کو خلع کا نوٹس بھیجا تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس
کی بیوی ایسا کر سکتی ہے۔ بیوی کے اچانک غائب ہو جانے پر اس نے تمام ہوسپٹل
چھان مارے۔اسے لگا کہ شاہد اس کی بیوی کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ خلع
کے نوٹس پر اسے یقین ہی نہیں آیا، اس کی بیوی اور خلع ۔ اس نے سوچا شاہد
اس کی بیوی کو کوئی مجبور کر رہا ہے ۔ اس نے پولیس کی مدد لی۔اسے پتہ چلا
کہ اس کی بیوی اسی کے دوست کے گھر میں رہ رہی تھی۔ وہ آدمی بھی شادی شدہ
اور چار بچوں کا باپ تھا۔ پولیس کے ساتھ آدمی جب اپنی بیوی تک پہنچا تو اس
نے اپنی بیوی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا جب کہ عورت اس سے انجان بنی
کھڑی رہی ۔ شوہر نے افسردگی سے اس سے پوچھا، تمہیں اچانک سے یہ کیا سوجھی ۔
میرا نہیں تو بچوں کا ہی خیال کیا ہوتا۔ اس آدمی کے پاس کیا ہے جو میں نے
تمہیں نہیں دیا۔ تو وہ عورت کچھ دیر کے توقف کے بعد بولی ۔ کچھ بھی اچانک
نہیں ہوتا۔ اس تمہارے دوست کے پاس میرے دل کا سکون ہے۔ جوتم سے مجھے کبھی
نہیں ملا۔ یہ جب بھی مجھ سے ملا اس نے مجھ سے میری چاہت پوچھی ۔ تم نے جب
بھی مجھ سے بات کی فقظ اپنی چاہت کا مجھے بتایا۔
وہ آدمی مایوسی کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔ کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا ۔ ہر چیز
کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے ۔ جو دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے۔ کسی کی وفا
اور بے وفائی کے پیچھے گئی سالوں کی محبت یا پھر شکوہ ہوتے ہیں ۔ مہندی اسی
قدر رنگ دیتی ہے ،جس قدر اسے سوکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے رحجان بھی اسی
طرح سے پروان چڑھتے ہیں ۔ دنیا اور دین کی محبت کا بھی یہی حال ہے۔ آپ جس
چیز کو بہتر حال میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس کے لیے محنت لازمی کرنا ہوتی ہے۔
اپنا وقت دینا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایک آدمی مہاتما بدھ کے پاس گیا اور بولا ۔میں دین کی طرف جانا
چاہتا ہوں مگر دنیا کی محبت اور لالچ مجھے روک دیتی ہے ۔ کبھی میں دین کی
طرف ذیادہ جھک جاتا ہوں تو کبھی دنیا کی طرف ۔ ایسا کیوں ہے۔ مجھے لگتا ہے
،میرے اندر دو آدمی ہیں۔ ایک تو مذہب کی طرف جاکر موکش پانا چاہتا ہے ۔
دوسرا جسمانی لذتوں اور دنیا کی آسائشوں میں ڈوبنا پسند کرتا ہے۔ میں کیا
کروں ۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔اس جنگ کا نتیجہ کیا
نکلے گا۔
مہا تما بدھ مسکرائے اور بولے تم یہ بتاو ایک آدمی کے پاس دو بیل ہیں ۔ ان
میں سے ایک بہت ہی نرم اور امن پسند مزاج رکھتا ہے ۔ جبکہ دوسرا بہت ہی غصہ
والا ہے ۔ سینگ مارنا اس کی عادت ہے۔ بغیر وجہ کے لات مارتا ہے۔ سوچوں اگر
دونوں میں لڑا ئی ہو جائے تو کون سا بیل جیت جائے گا۔ آدمی نے تھوڑی دیر
سوچا اور بولا ظاہر ہے کہ جو مارنے والا ہے وہی جیت پائے گا۔ مہاتما بدھ
کےدوسرے شاگرد بھی پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے بھی سوال سنا اور مختلف جواب
دیے کچھ شاگردوں نے کہا کہ وہ بیل جیتے گا جو لڑائی جھگڑا نہیں کرتا
۔کیونکہ وہ پر سکون رہے گا اور دیکھ بھال کر سینگ مارے گا۔
مہاتما بدھ نے کہا ایسا نہیں ہے ۔ بیل وہ جیتے گا جسے خوراک ذیادہ دی جاتی
ہو۔ خورا ک ہی طاقت کی اصل بنیاد ہے۔ وہ آدمی جو اپنےاندر کے دو انسانوں
کی رسہ کشی کا تذکرہ کر رہا تھا ۔وہ سمجھ گیا۔ اگر اپنے اندر نیکی کو ذیادہ
جگہ دینی ہے تو پھر اپنے اندر کی پاکیزہ روح کو خوراک ذیادہ دینا ہو گی۔ جب
ہم اچھے کام کرتے ہیں تو مذید اچھے کام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی بزرگ نے
خوب کہا ہے کہ اگر تمہاری نماز تمہیں بُرائی کرنے سے روک دے تو تم سمجھو کہ
وہ قبول ہو گئی ۔
ہمار ا جسم بھی اسی اصول پر مبنی ہے۔ اگر آپ شعوری طور پرتین گلاس پانی
پیتے ہیں تو آپ کی پیاس بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو مذید پانی کی طلب ہوتی ہے۔
آپ نے یہ ضرب المثال بھی سنی ہی ہو گئ کہ نیکی نیکی کو کھینچتی ہے۔بدی بدی
کو ۔رشتے ہوں یا ہمارے عمل ہم جس چیز پر محنت کرتے ہیں ۔ اپنا آپ پوری
دیانت داری سے دیتے ہیں ۔ کامیابی ہمارے قدم چومتی ہے۔ کچھ لوگ اپنی ہر
ناکامی کو دوسروں کے زمہ تھونپ کر خود کو کھوکھلا سکون دینے کی کو شش کرتے
ہیں ۔ اگر ا ٓپ اپنے آپ کوبہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا مکمل جائزہ
لینا ہو گا۔ یہ جائزہ ہر حوالے سے ہونا چاہیے۔ کچھ بھی اچانک سے رونما نہیں
ہوتا ۔ ہر چیز کو وقت چاہیے۔
ایک انسان جو کبھی اپنی بیوی سے فالتو بات نہیں کرتا تھا۔ اپنے بچوں کے
ساتھ وقت نہیں گزارتا تھا ۔اچانک اسے پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں رسولی ہے ۔
وہ بہت جلد مرنے والا ہے۔ اس نے اپنی ذات کا مکمل جائزہ لینا شروع کیا ۔
اسے احساس ہوا کہ اس نے کمانے کے چکر میں اپنے خاندان کو وہ وقت نہیں دیا
جو اسے دینا چاہیے تھا ۔ اس نے اپنی بیماری کا کسی کو نہیں بتایا ۔ اس نے
سوچا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے گھر والوں کے دل میں اپنی محبت راسخ کر کے
جائے گا ۔ تا کہ وہ اس کو بعد میں محبت سے یاد کریں۔ اس نے اپنی ڈائری میں
لکھا ۔ آج سے میں صبح اُٹھ کر اپنے گھر والوں کو صبح بخیر کہوں گا۔ بلکہ
اپنے آفس کے لوگوں سے بھی بات جیت میں خوش اخلاقی برتوں گا۔ دوسروں کی مدد
میں کنجوسی نہیں کروں گا۔ اپنی زندگی کے باقی دن بہت کسی کو کوئی تکلیف
نہیں دوں گا۔
جب وہ صبح اُٹھا تو اپنی شادی شدہ زندگی کے پندرہ سالوں میں جو اس نے کبھی
نہیں کیا تھا وہ کیا۔ اپنی بیوی کے پیچھے کچن میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اور
اس کے کندھے کو ہلکے سے چھو کر صبح بخیر کہا وہ پوری اچھل گئی ۔ اس نے
پریشانی سے کہا ۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔آپ ٹھیک ہیں نا کچھ چاہیے۔ اسے
دل میں ندامت محسوس ہوئی ۔ اس نے بچوں کو بھی صبح بخیر کہا ۔ ان کے چہرے
بھی حیرت ذدہ تھے۔ ایک ماہ گزر چکا تھا ۔اب سب کو اس کے خوش مزاج ہو جانے
کا یقین ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ اپنی زندگی میں جس قدر
خوشی مجھے اس گزشتہ ماہ میں محسوس ہوئی ہے کبھی محسوس نہیں ہوئی ۔ میرا دل
مجھے سکون سے بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ جب وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ
کے لیے گیا تو اس کے تمام ٹیسٹ ٹھیک تھے ۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ یہ
میری زندگی کا سب سے خوشگوار نا خوشگوار واقعہ تھا ۔ جس نے میری زندگی کو
خوبصورت ترین بنا دیا ۔ مجھے پندرہ سال بعد پتہ چلا کہ میری بیوی اس قدر
مزاحیہ باتیں بھی کرتی ہے ۔ میرے بچے میرے دوست بننا چاہتے تھے۔
خوش اخلاق اور محبت کرنے والے انسان کا ہر کوئی متوالا ہوتا ہے۔ اگر دس
لوگوں میں سےسات آپ سے دور بھاگتے ہوں تو اپنے کردار کا جائزہ لیجئے ۔ آپ
ذات کو آپ جو خوراک دے رہے ہیں وہ آپ کی بے سکونی کا باعث بن سکتی ہے۔
اپنے جسم اور روح کو پاکیزہ خوراک کا عادی بنائیں کیونکہ ہر انسان کی سرشت
میں اچھائی اور بُرائی موجود ہوتی ہے۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے اندر کی
اچھائی کو اچھے کام کر کے خوراک دیتے ہیں یا پھر اپنے اندر کی بُرائی کو
ذیادہ خوراک دیتے ہیں ۔ا پنے رشتوں کو اعتبار ، محبت ، خلوص اور احساس سے
پائیدار بناتے ہیں یا پھر شک ،بے رخی ، بے پروائی اور خودغرضی سے کمزور بنا
دیتے ہیں ۔ |