۱۔ معاشرے کی بنیاد قانون پر نہیں ، اخلاق پر ہے۔
۲۔ یا یوں کہہ لیں کہ معاشرے کی بنیاد قانون پر اور قانون کی بنیاد اخلاق
پر ہے۔
۳۔ قانون، اخلاق کی مضبوط ترین شکل ہے۔
۴۔ قانون، اخلاق کا محافظ ہے۔
۵۔ قانون، اخلاق کی طاقت ہے۔
۶۔ قانون کی فصیل اخلاق کے گلستاں کے لئے ضروری ہے۔
۷۔ اگر انسان اخلاق سے سدھر نے والے ہوتے تو قانون نہ بنایا جاتا۔
۸۔ جہاں اخلاق کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے قانون کی حد شروع ہوتی ہے۔
۹۔ بعض صورتوں میں قانون ناکام اور اخلاق کامیاب ہو جاتا ہے۔
۱۰۔ جہاں قانون کا عمل دخل نہیں ہوتا ، اخلاق وہاں بھی مضبوط رسوں میں جکڑ
سکتا ہے۔
۱۱۔ جنہیں قانون نہیں پکڑ سکتا، انہیں اخلاق اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔
۱۲۔ اکثر اچھے اخلاق والے قانون سے دور ہی رہتے ہیں۔
۱۳۔ بعض صورتوں میں قانون برے لوگوں کی پناہ بن جاتا ہے، لیکن اخلاق ایسا
نہیں کرتا۔
۱۴۔ قانون ، طاقتور کا جتنی جلدی ساتھ دیتا ہے، کمزور کا اتنی ہی تاخیر سے۔
۱۵۔ دنیا میں ہمیشہ جنگل کا قانون یعنی جس کی لاٹھی، اس کی بھیس ہی رہا ۔
اب بھی یہی ہے۔
۱۶۔ قانون ، طاقتور کا ساتھی اور کمزور کا سہارا، بلکہ لارا ہے۔
۱۷۔ قانون بدلنے یا توڑنے کے لئے اس سے بڑی طاقت چاہئے لیکن اخلاق کو بدلنا
نہیں پڑتا۔
۱۸۔ جس معاشرے میں اخلاق ، قانون جیسا ہو وہاں بہترین امن اور ترقی ہو گی۔
۱۹۔ قانون کی قَسم ، اخلاق کے وعدے سے زیادہ سچی نہیں ہوتی۔
۲۰۔ جن لوگوں کے گرد اخلاق کا دائرہ مضبوط ہوتا ہے وہ قانون کی زد سے محفوظ
رہتے ہیں۔
۲۱۔ قانون اور اخلاق دونوں کا تعلق انسانوں سے ہے ،حیوانوں سے نہیں۔۔ |