ماں !تیرے جیسا کوئی نہیں

ماں جیسی ہستی دنیا میں ہے کہاں
نہیں ملے بدن ڈھونڈلے سارا جہاں
ماں لفظ اتنا گہرا ہے کہ اگر کوئی اس کی گہرائی کو سمجھ جائے تو اُسے دنیا کی ہر ایک چیز مل جاتی ہے ۔وہ کسی اور چیز کا مشتاق نہیں رہتا۔جیسے کوئی درویش خدا کو پا نے کے بعد اس دنیا کی تمام چیزوں کا مشتاق نہیں رہتا ۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے جو بچے کی زندگی کے ہر پہلو کو پر وان چڑھا تی ہے۔میں وہ الفاظ کھوج نہیں سکتا جو ماں کی ہستی کو بیان کر سکے ۔ خلیل جبران کہتے ہیں ،ـماں ایک نعمت ہے نایاب نعمت ہے ۔اس کا نعم ِ البدل ناممکن ہے ۔ زمین کی گہرائیاں اس جو ہر کو اُگلنے پہ ناقابل ہیں ۔ اور آسمان ایسا فرشتہ ِ رحمت بھیجنے سے قاصر ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جو اس بے بہا نعمت سے مالا مال ہیں جن کے سروں پر ماں کا مقدس سایہ ہے اور اس کے بیٹھے بیٹھے سانسوں میں پوشیدہ جنت بھی دیکھیں گے کہ ماں کئی کئی طرح سے قربانیاں دیتی ہے ۔اپنے آپ کو رد کر کے ،اپنے بچوں کی پرورش کر کے ،اُن کے مستقبل کودیکھتی ہے ۔ یہ ماں ہی ہے جو ہمیں دوسروں کے لیے جینا سکھاتی ہے ۔ ایسی بہت زندہ لازوال مثالیں ہیں جو ماں کی ہستی اور قربانی کو بیان کر تی ہیں ۔

ماں بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بچے اپنے بچپن کی کہانی اپنی ڈائری میں کچھ یوں لکھتا ہے ۔کہ میری ماں کی ایک آنکھ تھی ۔میں اُس سے بہت نفرت کر تا تھا وہ بڑا پیار کر نے والی تھی۔ وہ سکول میں کھانا پکا کر ہماری دیکھ بھال کرتی تھی ۔ میں پانچویں جمات میں پڑ ھتا تھا کہ ایک دن میری ماں مجھے سکول میں ملنے آئی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس نے مجھے گلے لگایا تھا ۔ میں نے غصے سے اُسے پیچھے کو ہٹا دیا اور کہا کہ تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے گلے لگانے کی ۔ میں یوں کہہ کر اور خود کو چھڑا کر بھاگ گیا ۔ اگلے دن مجھے ایک دوست نے مذاق میں کہا اوہوتیری ماں ایک آنکھ ہے ۔تو مجھے بہت غصہ آیا ۔ دل چاہتا تھا کہ خود کو وہیں زمین میں گاڑد دوں اور اپنی ماں کو کہوں کہ یہاں سے چلی جا میں جلدی سے ماں کے پاس گیا اور کہا ۔ اگر تم مجھے یہاں میرا مذاق اور مجھے ذلیل وخوار کر نے آئی ہو تو چلی جاؤ۔ اور اگر ہو سکے تومر جاؤ تاکہ میں چین سے جی سکوں ۔ میری ماں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی ۔ میں نے ایک بار بھی نہ سوچا کہ میں نے اپنی ماں سے ایسی بات کی کیونکہ میں بہت غصے میں تھا ۔ مجھے اتنا غصہ تھا کہ میں گھر سے بھاگ جانا چاہتا تھا اور اپنی ماں کو دیکھنا تک نہ چاہتا تھا ۔ پھر میں سخت محنت سے پڑ ھنا شروع کر دیا تو مجھے بیرون ِ ملک جانے کا موقع ملا ۔پھر میں پڑھنے لکھنے کے بعد میں نے شادی کر لی ۔ میں نے اپنا نیا گھر خریدا اور میرے بچے ہوئے ۔ایک دن اچانک میری ماں مجھے ملنے آئی اُس نے مجھے کئی سالوں سے دیکھا ہی نہیں تھا اور نہ ہی وہ میرے بچوں سے اب تک ملی تھی ۔ جب وہ ہمارے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی میرے بچوں نے میری ماں پہ ہنسنا شروع کر دیا ۔اور میں نے غصے سے اپنی ماں کی طرف دیکھا کیونکہ وہ بغیر اجازت کے ملنے آئی تھی ۔ اور اُس سے کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم ہمارے گھر آکر میرے بچوں کو دیکھو۔ یہاں سے چلی جاؤ ابھی کی ابھی ۔ اس کہ بعد میری ماں نے بڑی حلیمی سے جواب دیا سوری میں غلط گھر آ گئی ہو ں ۔ وہ یہ کہہ کر چلی گئی۔ایک دن سکول سے ایک خط مجھے ملا جس پہ لکھا ہوا تھا Come for reunion جہاں پہ ہم سارے پرانے دوست اکھٹے ہونے کو تھے ۔ تو میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں کاروبار کے سلسلے میں کہیں جا رہا ہوں ۔ سکول میں ری یونین کے بعد میں نے اپنے پُرانے گھر جا نا چاہا۔بس ایسے ہی دیکھوں کہ کیسا ہے ۔ جب میں وہا ں پہنچا تو میرے میرے ایک ہمسایہ نے مجھے ایک خط دیا اور کہا کہ تمہاری ماں مر گئی ہے ۔ مجھے ذرا بھی افسوس نہ ہوا اور نہ ہی میں آنسو بہائے ۔ اُس نے مجھے بتایا کہ تمہاری ماں چاہتی تھی کہ تم یہ کط ضرور پڑھو۔جب میں نے خط پڑھا تو اُس میں لکھا تھا کہ میں ہر وقت تمہارے بارے میں سوچتی رہتی ہوں ۔ میں بڑی شرمندہ ہوں کہ میں تمہارے گھر آئی اور تیرے بچوں کو دیکھا ۔ میں بڑی خوش تھی جب مجھے پتہ چلا کہ تم اپنے سکول میں ری یونین کے لیے آرہے ہو ۔ لیکن میں اِس قابل نہیں ہوں کہ بستر سے اُٹھ کر تم کو دیکھ سکوں ۔ میں بہت شرمندہ ہو ں کہ میں بچپن سے لیکر آج تک تم کو پیار کیا ،تجھے قبول کیا اور ہمیشہ تجھے چاہا ۔ تمہیں پتہ ہے کہ جب تم چھوٹے ہو تے تھے تو تمہارا حادثہ ہو ا تھا ۔اور تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ تمہاری ماں ہو تے ہوئے میں تمہیں ایک آنکھ کے ساتھ بڑھتا ہو ا نہیں دیکھ سکتی تھی تو میں اپنی ایک آنکھ تجھے دے دی تھی ۔ مجھے تم پر بڑا فخر ہے ۔ کہ تم میرے لیے میری جگہ ساراجہاں اس آنکھ سے دیکھتے ہو۔ جو میں نے تمہیں دی تھی۔ مجھے تم پر بڑا فخر ہے۔
ماں کا پرورش کرنے کا طریقہ:

دنیا کے مشہور سائنسدان تھامس ایڈیسن اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ تو اُس کی ٹیچر نے اُس کی ما کو ایک خط لکھا۔ جب وہ گھر آتا ہے تو اُس کی ماں اُس کے بیگ میں سے ایک خط نکالتی ہے اُس خط کوپڑھ کر اُسے سناتی ہے کہـــ آ پ کا بیٹا بہت ہی ذہین ہے ہم اِسے اپنے سکول میں نہیں پڑھا سکتے ۔ مہربانی سے آپ اِسے کسی اور اسکول میں پڑھانے کا بندوبست کریں۔ آپ کا بہت شکریہ!

تھامس بہت خوش ہوتا ہے اور دوسرے اسکول میں پڑھناشروع کر دیتا ہے۔ اور ایک دن اُس کا دنیا کے مشہور سائنسدانوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔ پھر جب وہ بہت بڑا سائنسدان بن جاتا ہے تو ایک دن اپنے کمرے مین بیٹھ کر اپنے بچپن کا صندوق کھولتا ہے جس میں اُسے یہ خط ملتا ہے جس میں لکھا تھا۔کہ آپکا بیٹا دماغی طور پر مہت کمزور ہے ہم اِسے نہیں پڑھا سکتے۔ مہربانی سے آپ اِسے کسی اور اسکول میں پڑھانے کا بندوبست کریں۔ آپ کا بہت شکریہ!

یہ ہے ماں کے پرورش کرنے کا طریقہ۔ ماں ہر لحا ظ سے اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھتی ہے۔ وہ ہمیشہ بچے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ اُس کا بچہ کامیاب ہو۔ کیونکہ وہ مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے اور اِس مستقبل کو اپنے بچوں میں جنم دیتی ہے۔

ماں کا خدا سے جھگڑا :
والدین اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔اور ماں تو اپنے بچوں کے لیے خدا سے بھی لڑ پڑتی ہے ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑ کی سکول سے آرہی تھی تو بارش شروع ہو جاتی ہے ۔ تو بجائے کسی جگہ رکنے کے اپنی سہیلیوں کے ساتھ بھیگتی ہو ئی گھر آجاتی ہے ۔ جو نہی وہ گھر کے دروازے میں داخل ہو تی ہے تو اُس کا بھا ئی ملتا ہے اور اُسے کہتا ہے کہ تھوڑی دیر رُک نہیں سکتی تھی ۔ لڑکی چپ کر کے آگے چلی جاتی ہے ۔ تو باپ اُسے ملتا ہے اور کہتا ہے اُدھر سکول میں ہی رک جاتی یا کو ئی چیز اوپر لے لیتی آگئی ہے بھیگ کر ۔ اگر بیمار ہو ئی نہ ؟لڑکی سسکیاں لیتی ہو ئی آگے بڑھتی ہے کہ اسی اثنا میں ماں کمرے سے بھاگتی ہوئی آتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ ہی (خدا)رک جا تا ۔تھوڑی دیر کے لیے بارش نہ بھیجتا ۔اگر میری بیٹی چل ہی پڑی تھی تو وہ ہی(خدا)صبر کر لیتا ۔

ماں کا پیار:
ماں ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے اپنی روح تک دے دیتی ہے ۔ ایک شام ایک بیٹا اپنی ماں کے پاس کچن میں آیا جب وہ کھانا پکا رہی تھی ۔ بچے کے ہاتھ میں ایک کا غذ کا ٹکڑا تھا ۔جس پر وہ کچھ لکھ رہا تھا ۔ جب اُسکی ماں نے وہ پیپر پڑھا تو اُس پہ یہ لکھا تھا ۔
٭دھنیا کا ٹنے کے ۲۰روپے
٭آپ کے لیے بازار جا نے کے ۵۰روپے
٭اپنا کمرہ صاف کر نے کے لیے۵۰روپے
٭ اپنے چھوٹے بھا ئی کو اُٹھا نے کے ۳۰ روپے
٭کو ڑا باہر پھینکنے کے ۱۰۰ روپے
٭اچھا رزلٹ دینے کے ۲۰۰ روپے
٭ آپ کا کہنا ماننے کے ۵۰روپے
٭کل ۵۰۰روپے

ماں نے بچے کی طرف دیکھا اور قلم اُٹھا یا اور پیپر کی دوسری طرف لکھا کہ پورے نو (۹)ماہ تجھے اپنی کوک میں رکھنے کے کوئی پیسے نہیں ۔ اُن تمام راتوں کے جب میں تمہارے پا س بیٹھی رہتی تھی اور دعا کر تی رہتی تھی ، جب تم بیمار ہو تے تو اس طرح سنبھالنے کے کوئی پیسے نہیں ۔اُن تمام مشکلوں اور پریشانیوں کے لیے جو اتنے سالو ں میں تمہاری وجہ سے اُٹھائے کو پیسے نہیں ،اُن تمام کھلونوں ،کھانے ، کپڑوں یہاں تک کہ تمہارا ناک صاف کر نے کے بھی کو ئی پیسے نہیں ۔ بیٹا جب تم میرے پیار کی قیمت لگاؤ گے تو پھر بھی کو ئی پیسے نہیں ۔ کیونکہ تم میرے بیٹے ہو اور یہ میرا پیار ہے ۔ جب بچے نے یہ سب پڑھ لیا جو اُسکی ماں نے لکھا تھا تو بچے کی آنکھوں آنسو آگئے ۔ پھر اُ س نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ماں میں تمہیں پیار کر تا ہوں ۔ پھر بچے نے قلم اُٹھا اور بڑے الفاظ میں لکھا Paid in fullیعنی ساری قیمت ادا ہو گئی ۔

ماں ہر لحاظ سے اپنے خاندان کی پر ورش کر تی ہے ۔ چاہے کچھ بھی ہو وہ تمام حالات میں خاندان کا پیٹ پالنا جا نتی ہے ۔ زندگی کی تما م مشکلات جیسے اُسی کے لیے بنی ہوں۔

ایک دفعہ ایک خاندان میں ماں سب سے آخر میں کھانا کھاتی تھی۔ اکثر اوقات وہ اپنے بچوں کے بچے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھر لیتی تھی۔ ایک دن ایسا ہو ا کہ گھر کے تمام لوگ ا کٹھے بیٹھے تھے ۔ تو کہا گیا کہ سب کے لیے کھا نا بنتا ہے لحاظ سب لوگ اپنے اپنے حصے کا کھانا کھائے گے۔ ما ں کو بھی یہ ہی کہاگیا۔ کہ اِس گھر میں کوئی کسی کا غلام یا نوکر نہیں ہے۔ اگلے دِن سے ماں نے بھی بجائے اُن کے ٹکڑوں کے اپنے حصے کی روٹی کھانا شروع کر دی اور ٹھیک ایک ہفتے کے اندر اندر روٹی کے ٹکڑوں کے بارہ ٹوکرے بھر گئے۔ یہ ہے ماں کی قربانی ، یہ ہے ماں کا پیار ۔ اس طرح ایک ماں اپنے خاندان ، اپنے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس طرح ماں سب کچھ ڈھانپ دیتی ہے تاکہ اُس کے خاندان کو کوئی بات تک نہ کر سکے۔

تو آئیں! اِس مدر ڈے پہ ہم دنیا کی تمام ما ؤں کو اور خا ص کر اپنی اپنی ما ں کو اُن کی تمام لازوال کو یا د کریں جو وہ ہر روز طرح طرح سے اپنے بچوں کو پالنے کے لیے دیتی ہیں ۔ اُنہیں احساس دلائیں اور اُنہیں خراجِ تحسین پیش کریں۔ اُنہیں عزت دیں اور اُنہیں احساس دلائیں کہ ہم اُنہیں بڑا پیار کرتے ہیں ۔ آ ئیں مل کر اپنی اپنی ماں سے ایک بار پورے دل و جان سے کہیں I LOVE YOU MOM کیونکہ ماں ! تیرے جیسا کوئی نہیں۔
 

Istfan Alwan
About the Author: Istfan Alwan Read More Articles by Istfan Alwan: 10 Articles with 7031 views

"JUST REMEMBER ME"
.. View More