کہتے ہیں انصاف وہ جو نظر آئے۔جو محسوس ہو۔ سپریم کورٹ
میں روزانہ ہزاروں کیس ہوتے ہیں مگر میرے جیسے لوگوں کو نہ نظر آتے ہیں نہ
محسوس ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ میرے جیسے عام آدمی کا ان کیسوں سے کوئی تعلق
ہی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ جن کا تعلق ہوتاہے اور فیصلہ جن کے حق میں یا خلاف
آتا ہے۔ا نہیں نظر بھی آتا ہو گا اور محسوس بھی ہوتا ہو گا۔ مگر پانامہ کیس
کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ کمال ہے ۔ چونکہ کسی شخص کا تعلق کسی بھی
سیاسی جماعت سے ہو،یاکسی بھی مکتبہ فکر سے ہو،فیصلہ سب کو نظر آ رہا ہے، سب
کو محسوس بھی ہو رہا ہے۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی فیصلے کے اثرات
کوخوش دلی سے محسوس بھی کر رہا ہے اس لئے کہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ
سرخرو ہو گیا کہ فیصلے اس کے حق میں ہے۔اس وقت اس فیصلے کی جس طرح پذیرائی
ہو رہی ہے لگتا ہے لوگ اس فیصلے کو کئی دہائیوں تک یاد رکھنے کے لئے پوری
قوم بہت سخت محنت کر رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ کوئی بات اگر صرف سنی جائے تو تیس فیصد یاد رہتی ہے ۔ اسی بات
کو اگر خود بیان کر دیا جائے تو اسی فیصد یاد رہتی ہے اور اگر اس پر دو چار
دفعہ محققانہ اور ماہرانہ تبصرہ کر لیا جائے تو وہ بات عمر بھر بھول نہیں
سکتی۔ پانامہ کیس کے فیصلے پرجس طرح پوری قوم محققانہ اور ماہرانہ تبصرے
میں مصروف ہے۔ یقیناً کئی دہائیوں تک اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔سوشل میڈیا
اور ٹی وی کا احسان ہے کہ اس نے ہر نیم پڑھے لکھے شخص کو بھی عالم اور محقق
بنا دیا ہے اور پوری قوم ان عالمانہ تبصروں سے فائدہ اٹھا رہی ہے جو نئے
نئے چینلز کے نئے نئے وجود میں آنے والے سینئر تجزیہ کار بغیر سوچے سمجھے
کرتے ہیں یا سوشل میڈیا کے علما اپنی ذاتی ناموری کی ہوس میں بڑے اہتمام سے
رقم طراز ہوتے ہیں۔ویسے یہ واحد ملک ہے جہاں آپ کو کسی بھی موضوع پر بولنے
کے لئے اس مضمون کو جاننا ضروری نہیں۔
سوشل میڈیا تو سوشل میڈیا ہمارے ٹی وی چینل اس معاملے میں سوشل میڈیا سے
بہت آگے ہیں۔ شام ہوتے ہی ہر چینل پر وہ لوگ ڈھونڈھ کر لائے جاتے ہیں جن کا
علمیت سے تعلق ہو نہ ہو مگر مناظرہ کے ماہر اور بحث برائے بحث میں کمال
رکھتے ہوں۔ پچھلے دنوں میں ایک مذاکرہ دیکھ رہا تھا۔دو انتہائی سینئر
پروفیسر اور ایک سینئر تجزیہ کار ایک مذاکرے میں موجود تھے۔ کسی موضوع پر
پروفیسر حضرات نے اپنی رائے دی تو سینئر تجزیہ کار نے ان کا موقف رد کرتے
ہوئے بڑی احمقانہ باتیں شروع کر دیں۔ پروفیسر حضرات نے بتایا کہ اس موضوع
پر وہ چالیس سال سے تحقیق کر رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر بھی ان دونوں کو
جانتا ہوں۔ان میں سے ایک آکسفورڈ اور دوسرا ایم آئی ٹی میں کافی عرصہ
پڑھاتے رہے ہیں اور ان کی تدریس کا زیادہ عرصہ مختلف غیر ملکی یونیورسٹیوں
میں ہی گزرا ہے۔ تجزیہ کار صاحب نے ایک وقت جب بڑے تحقر سے کہا کہ ہو سکتا
ہے آپ نے اس بارے کچھ پڑھا ہو مگر جو میں کہہ رہا ہوں وہ زیادہ ٹھیک ہے۔ تو
ایک پروفیسر صاحب ناراض ہو گئے۔ اینکر کو کہا کہ بھائی جب ہمیں بلایا کرو
تواس شخص کو جسے احترام اور سلیقے سے بات کرنا بھی نہیں آتا مت بلایا کرو۔
اور اگر یہ زیادہ ضروری ہے تو ہماری طرف سے معذرت۔ اس پر کچھ جھگڑا شروع ہو
گیا۔ اینکر صاحب مسکرا رہے تھے اور میرے جیسے لوگ ٹی وی سکرین پر ان کی
فضول نوک جھونک کا مزہ لے رہے تھے۔
اینکر صاحب جب صورت حال کو کنٹرول کرنے کی بجائے مسکرا کر لطف اندوز ہو رہے
تھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے اس فعل میں حق بجانب تھے۔ لڑائی جھگڑے
اور مار کٹائی سے بھر پور مقابلے ہر دور کے انسانوں کو پسند تھے ، پسند رہے
ہیں اور آج بھی پوری طرح پسند ہیں۔1000 ق م میں بیت اللحم کے میدان میں
دربار سجا ہوا تھا اور اس وقت کا ظالم سپہ سالار طالوت تلوار سونت کر میدان
میں کھڑا تھا کہ ہے کوئی جو اس کے ساتھ مقابلے کی ہمت کرے۔ وہ کئی آدمیوں
کو ہلاک کر چکا تھا۔ میدان کے ارد گرد لوگوں کا سمندر یہ تماشہ د یکھ رہا
تھا۔حضرت داؤد نے مقابلے کی دعوت قبول کیاور اس تماشہ گاہ میں طالوت کو
ہلاک کرکے لوگوں سے داد وصول کی اور فاتح کے طور پر اس وقت کی بنی اسرائیل
کی حکومت کے دوسرے بادشاہ ہوئے۔
انسانوں کے درمیاں کھیلا جانے والا کھیل ڈوئیل سترویں اور اٹھارویں صدی میں
بے حد مقبول تھا۔دو لوگ تلواریں لے کر مقابلہ کرتے اور یہ مقابلہ ہار جیت
کے فیصلے تک جاری رہتا۔ عموماً ہارنے والا زندگی ہار جاتا۔زیادہ تر جیتنے
والے بھی معذور ہو جاتے۔ انیسیویں صدی میں تلوار کی جگہ پستول نے لے لی مگر
ہلاکتوں میں کمی نہ آ سکی۔اس کھیل کے خلاف بہت سی قانون سازی ہوئی مگر یہ
ختم اس وقت ہوا جب لوگوں کو شعور آیا ۔ بٹیر بازی اودھ کی ریاست میں شاہانہ
کھیل تھا۔ شہزادے اور نواب بٹیر لڑانا باعث فخر جانتے تھے۔جس کا بٹیر جیت
جاتا وہ سینہ پھلائے پھرتا اور جس کا ہار جاتا وہ کئی دن منہ چھپائے پھرتا۔
پنجاب کے بہت سے شہروں میں کتے لڑائے جاتے ہیں اور عوام یہ لڑائی بڑے شوق
سے دیکھتے ہیں۔مرغوں کی لڑائی جاپان سے لے کر امریکہ تک آج بھی عوام میں
بہت مقبول ہے۔
ہمارے میڈیا نے عوام کی اس دلچسپی اورکمزوری کو جانتے ہوئے انسانوں کو
لڑانا شروع کر دیا ہے۔ اینکر حضرات جن کا فرض لوگوں کو تہذیب اور تعلیم
سکھانا ہوتا ہے، عوام کی لڑائی اور ما رکٹائی میں دلچسپی دیکھ کر اس طرز کو
اور ہوا دے رہے ہیں۔ چینلوں کی بھرمار نے اچھے اور برے اینکر کی تمیز ختم
کر دی ہے۔جس کے نتیجے میں چرب زبانی ہی ا کلوتا معیار رہ گیا ہے۔وہ لوگوں
کو بلاتے اور ان کے درمیان ڈوئیل کراتے ہیں جس ڈوئیل میں لفظوں کا ہتھیار
استعمال کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا ہے۔ٹی وی چینلز کی انتظامیہ کی
طرف سے اپنے ہاں کام کرنے والے اینکر صحافیوں پر کوئی پابندی نہیں۔ کوئی
ضابطہ اخلاق نہیں۔حالانکہ ا نتظامیہ کو ا نہیں پابند کرنا چاہئیے کہ کسی
بھی موضوع کا انتخاب کرنے کے بعد مرغ بازی کی بجائے سب سے پہلے خود بھی جس
حد تک ممکن ہو اس موضوع کا مطالعہ کریں۔ مہمانوں کا انتخاب ان لوگوں میں سے
کریں جو اس موضوع پر حاوی ہوں۔ خود کو ارسطو سمجھ کر ہر موضوع پر بے تھکان
بولنے والے تجزیہ کار، لوگوں کے ذہنوں میں بگاڑ تو پیدا کر سکتے ہیں انہیں
صحیح تعلیم نہیں دے سکتے جبکہ مرغ بازی نہیں تعلیم ان مذاکروں کا اصل مقصد
ہوتا ہے۔
|