شعبان المعظم کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ اور اس ماہ میں
ایک مبارک رات آنے والی ہے۔ جس کا نام شبِ برات ہے۔ چونکہ اس رات کے بارے
میں بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ اس رات کی کوئی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت
نہیں ۔ اور اس رات میں جاگنا، اور اس رات میں عباد ت کوخصوصی طور پر باعث
اجرو ثواب سمجھنا بے بنیاد ہے ۔ بلکہ بعض نے اس رات میں عبادت کو بدعت سے
تعبیر کیا ہے اس لیے لوگوں کے ذہنوں میں ا س رات کے بارے میں مختلف سوالات
پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے اس کے بارے میں کچھ عرض کر دینامناسب معلوم ہوا۔
اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان کہلاتاہے جسے آقا کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ
وسلم کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے چونکہ شعبان وہ مبارک مہینوں رجب اور رمضان
کے درمیان واقع ہے اس لئے اس کو دو مقدس ہمسایوں کے قرب و جوار کا شرف بھی
حاصل ہے اس کی بزرگی و برتری کے متعلق یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس کے متعلق
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا، شعبان کو باقی تمام مہینوں پر
ایسی فضیلت حاصل ہے۔ جیسے مجھ کو تمام انبیاء کرام پر۔
حضرت انس بن مالک ؓ کی روایت میں مذکور ہے کہ شعبان کے کسی دن میں روزہ
رکھنے کا ثواب یہ ہے کہ آتش دوزخ اس کے بدن پر حرام ہوتی ہے اور محبت میں
سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کی رفاقت اور سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام اور
سیدنا حضرت داؤد علیہ السلام جیسا ثواب ملتا ہے۔
اس مبارک مہینے میں وہ شب بھی ہے یعنی 14شعبان کا دن گزر جائے اور پندرھویں
شب جس کو شبِ برات اور شب رحمت و نصرت کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے ، اور
بہت ہی مبارک رات ہے جس کے متعلق قرآن کریم اعلان فرما رہا ہے۔
ترجمہ: اس روشن کتاب کی قسم ! ہم نے اسکو (یعنی قرآن کو) برکت والی رات میں
اتارا ،بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں ہر حکمت والا کام تقسیم کر دیا
جاتا ہے۔(سورۃ دوخان)
بعض مفسرین کرام کے نزدیک لیلۃ مبارکہ سے شبِ برات مراد ہے جس میں اﷲ تعالیٰ
کی مخصوص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔ رحمت کے دروازے کھلتے ہیں، انعام
اور اکرام کی بارش ہوتی ہے تمام امور جو آئندہ سال میں ہونے والے ہیں ہر
محکمہ سے تعلق رکھنے والے فرشتوں کو تفویض کر دیئے جاتے ہیں اس شب کی برکات
میں سب سے نفیس ترین برکت رب العزت جل جلالہ کا جمال ہے جو عرش سے تحت
الشریٰ تک اپنے عموم فیض سے ہر زرے کو نوازتا ہے اور حدیث کی ر و سے بنی
کلاب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زائد امت کے افراد کی بخشش ہوتی
ہے۔(سنن ابنِ ماجہ)
اس شب مبارکہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے جنت میں جاتے
ہیں اور رب العزت جل شانہ کا حکم سناتے ہیں کہ جنت کو آراستہ کر دیا جائے
اور غلامانِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے اس کو خوب سجایا جائے کیونکہ اس
مقدس شب میں اﷲ تعالیٰ آسمان کے ستاروں کے شمار اور دنیا کے روزو شبِ کی
مقدار، درختوں کے پتوں کی گنتی اور پہاڑوں کے وزن کے برابر اور ریت کے زروں
کے موافق دوزخیوں کو آزاد فرما ئے گا۔
اسی شب میں گنہگار امت کی مغفرت ہوتی ہے سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ گناہ
معاف ہوتے ہیں توبہ قبول ہوتی ہے، رب العزت جل جلالہ اپنے محبوب کی مغفرت
فرماتا ہے۔ درجے بلند کرتا ہے اور سب کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے مگر
حدیث مبارکہ کی رو سے مشرک کینہ پرور والدین کا نافرمان اور ہمیشہ شراب
پینے والا اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہتا ہے اور رحمت خداوندی اس کی طرف
متوجہ نہیں ہوتی۔(سنن ابنِ ماجہ)
لہٰذا ضروری ہے کہ شعبان کی پندرہ تاریخ سے قبل بندوں کے حقوق ادا کئے
جائیں ۔کینہ ، بغض، عداوت، قطع رحمی، شراب نوشی والدین کی نافرمانی وغیرہ
تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے صدق دل سے توبہ کی جائے ماں باپ بہن بھائی رشتے
دار اگر ناراض ہوں تو ان سے معافی مانگی جائے مسلمان آپس میں دنیاوی رنجشوں
اور عداوتوں کو ختم کر دیں تاکہ اس مبارک شب کی برکات و حسنات سے مالا مال
ہوں۔
|