سعی :
ان الصفا والمروة من شعآئر اللہ ج فمن حج البیت اوا عتمر فلا جنا ح علیہ ان
یطوف بھما ط ومن تطوع خیرًا لا
فان اللہ شاکر علیم ۔ (سورة البقرہ :158)
”یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشا نیوں میں سے ہیں لہذا جو شخص بیت اللہ کا
حج یا عمرہ کر ے ۔ا س کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہا
ڑیوں کے درمیان سعی کر لے اور جوبر ضا رغبت کوئی بھلائی کاکام کرے گا، اللہ
کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کر نے والا ہے ۔“
طواف اور آب ِزم زم پینے کے بعد حا جی صفاو مروہ کے درمیان دوڑتا ہے۔ اپنی
اطاعت کا یقین دلا تے ہوئے گنا ہوں کی معا فی ما نگتے ہوئے صفا اور مروہ کے
درمیان سعی ،سات چکر، کیا عبادت ہے ! بس اللہ کا حکم ہے اور اللہ کی عبادت
ہی یہ ہے کہ حکم بجا لا یا جائے ۔یہ سعی ایک خاتون محتر م کی سنت ،حضرت ہا
جرہ ؑ ان کادو پہاڑوں کے درمیان دوڑنا اللہ کو کتنا محبوب ہو ا! اللہ اللہ
۔قیامت تک سب کے لیے ایسا ہی لازم کر دیا ۔ایک تن تنہا عورت اور بے آب و
گیاہ وادی، نہ کھا نا نہ پانی نہ حفا ظت کا کوئی ذریعہ لیکن ”سمعنا واطعنا
“ کی مثال۔ اس لیے کہ معلوم تھا کہ یہ سب اللہ کی رضا کے لیے اس کے حکم کی
اطا عت میں کیا گیا ہے ۔معلوم تھا کہ حفا ظت اللہ کر ے گا ۔معلوم تھا کہ
رزق اللہ دے گا لیکن ہا تھ پر ہا تھ رکھ کر بیٹھی نہ رہیں نہ عورت ہو نا ان
کے راستے میں رکاوٹ بنا نہ تنہائی نے ان کو روکا ،انہوں نے سعی کی جدو جہد
کی ۔ پتھر یلی زمیںبھی ان کی سعی میں رکاوٹ نہ بنی !کتنا بڑا سبق رہتی دنیا
تک وہ دے گئیں کہ عورت ہو یا مر د زند گی سعی و جہد سے عبارت ہے ۔دنیوی
ضروریات ہو ں یا دینی ’سعی‘ سنت انبیاءہے ، سنت اولیا ئ، صدیقین، و شہداءہے
، اور توکل علی اﷲ سعی و جہد کے ساتھ۔مسلمان ہاتھ پر ہاتھ ر کھ کر اللہ کی
نصرت کا انتظار نہیں کر تا یا رزق و سر بلندی کا ملنامحض خو بصورت الفا ظ
کی ادائیگی سے نہ ہو گا ۔ اسکے لےے جد و جہد کر نا ہو گی ، محنت کر نی ہو
گی۔ پہاڑوں اور پتھروں پر بھی چلنا ہو گا، نا موافق حا لا ت کا مقا بلہ بھی
کر نا ہو گا ،بھوک پیاس بھی بر داشت کر نی ہو گی ۔اور اقامت دین کے لیے کو
شش و سعی بھی اس وقت تک جاری ر کھنی ہو گی جب تک دنیامیں دین اسلام کا زم
زم رواں نہ ہو جائے۔ اس نیت اور اس جذبے سے سعی ہو تو کیا کہنے ۔
وقوف منیٰ :۔ (ما دیت پر ستی پر ضر ب )
یہ حج بھی ایک انو کھی عبادت ہے اللہ ایک کے بعد ایک تر بیت کر تا چلا جا
تا ہے للہیت ،تقویٰ ،فقر و غنا کے ساتھ لبیک لبیک کی تذکیر و پکار کر تے
ہوئے حجاج اللہ کے گھر میں دا خل ہو تے ہیں اس کے گھر کے دیو انہ وار چکر
اور سعی و جہد کے عہد کے بعد ،چند دن مکہ میں رہ کر مسلسل نماز با جماعت
ادا کر تے ہیں ۔ ب وہ حکم آتا ہے کہ بستر با ند ھیے ،سا مان اٹھا ئیے اور
پیدل یا گا ڑیوں میں منیٰ کی جانب چل پڑیے ۔یہ سفر جو اصلا چند منٹ کا سفر
ہو تا ہے حج کے دنوں میں کئی گھنٹوں پر محیط ہو جا تا ہے گا ڑیوں کی لمبی
قطا روں میں گھنٹوں انتظار ،غصہ ،جھنجلا ہٹ ہر چیز کو بر داشت کر نا ہے۔لڑا
ئی جھگڑے سے گر یز کر نا اور کر تے چلے جا ناہے اور پھر پُر آسا ئش کمرے
چھوڑ کر اب خیموں میں رہنا ہے ۔ ضبط نفس ،تقویٰ اور غض بصر کی کس مشق سے
اللہ گزارتا ہے ۔سبحا ن اللہ و بحمد ہ سبحان اللہ العظیم ۔ لیکن منیٰ و مز
د لفہ کا قیام اس سے بھی زیادہ جس چیز پر ضر ب لگا تا ہے وہ ما دیت پر ستی
ہے جس میں آج کا انسان لت پت ہے ۔ضرور یات زند گی بہت و سیع ہو گئی ہیں
بلکہ آسا ئشوں نے ضروریا ت کی جگہ لے لی ہے مغر ب کی تقلید میں امت مسلمہ
بھی عیش کو شی کا شکار ہو گئی ہے ۔ مادیت کی دوڑنے اصل مقا صد کی جگہ لے لی
ہے۔
پیارے نبی ﷺکے فر مان کے مطا بق امت وھن کا شکار ہو چکی ہے اس کے نتیجے میں
امت پر ذلت طاری ہے اور وہ دین جو دنیا میں غا لب ہو نے کے لیے آیا تھا آج
یہود وہنود کے لیے تختہ مشق بنا ہو اہے ۔ایسے میں حج ایک ایسی عبادت ہے جو
اس مادیت پر ستی کا زور توڑتی ہے ۔مو من کو عیش کو شی سے نکال کر ایک پُر
مشقت سفر اور وقوف کا تجر بہ کرا تی ہے
وقوف عر فات :۔۔۔۔۔۔۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
ایک دن منیٰ میں قیام کے بعد اگلا سفر اگلی رات یا علی الصبح شر وع ہو جا
تا ہے ۔میدان عر فات کی طرف جو اصل میدان ’حج ‘ہے ۔جہاں گھٹر ی بھر بھی نہ
ٹھہر یں تو حج ادا نہیں ہو تا ۔ یہ میدان عر فات جس کے بارے میں مختلف
رواےات ہیں وہ میدان ہے جہاں رو ز حشر سب انسا نوں کو جمع ہو نا ہے اور
میزان لگنی ہے۔ وہ میزان تو یہاں لگے گی یا کہیں اور لیکن عملی نظارہ کچھ
ایسا ہی ہو تا ہے کہ کفن جیسے دو سفید کپڑوں میں ملبو س انسا نوں کا جم
غفیر اور سیلا ب امڈتا چلا آتا ہے اور ہر طرف لبیک اللھم لبیک کی صدائیں
بلند ہو رہی ہیں ۔جیسے اللہ نے پکارا اور انسان قبروں سے نکل کر لبیک کہتے
ہو ئے اسکی طرف چل پڑے ہیں اور ہر طرف سے نکلے چلے آرہے ہیں تاحد نگاہ یہی
منظر ہو تا ہے ۔جیسے جیسے کو چ کا وقت قر یب آتا جا تا ہے ۔فضا میں آہیں ،سسکیاں
اُبھر تی چلی جاتی ہیں ۔ہر طرف سے اللہ سے التجا ئیں کی جا رہی ہیں۔گنا ہوں
پر معافی ما نگی جا رہی ہے ۔جد ھر سے گزر یں ۔ہا تھ اس کے حضور اٹھے ہو ئے
ہیں ۔ایک عالم وارفتگی ہے ۔ایک جذبہ جنوں ہر طرف طاری ہے ۔یا رب ،یا رب ،
یا رب!
اور میدان عرفات تو مکمل سپر دگی کا میدان ہے جہاں انسان تما م تر کمزوریوں
اورتمام گنا ہوں کا اعتر اف کر تا ہے اور اللہ کے حضور گر یہ و زاری میں
وقت گزارتا ہے ۔یو ں لگتا ہے کہ جیسے میزان سا منے لگی ہے اور اعمال تُل ر
ہے ہیں اور بند ے اللہ سے معا فی ما نگ ر ہے ہیں ۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ
انسان جنہیں اس دنیا میں اللہ نے مو قع عطا فر ما دیا کہ آﺅ آج اپنے گنا
ہوں کی معا فی ما نگ لو ۔آج اپنی ساری خطائیں یا د کر لو اور اللہ سے
استغفار کر لو ۔آج سچے دل سے اللہ کو لبیک کہہ لو ۔ اگلی پوری زند گی اللہ
کے احکا مات کے تا بع کر نے کا عہد کر لو ۔تو بہ تو اِسی چیز کا نام ہے نا
کہ انسان اپنی خطاﺅں پر شر مندہ ہو ،معا فی ما نگے اور آئیندہ دا نستہ غلط
کام نہ کر نے کا عہد کر ے ۔لیکن کتنے لو گ اِسی رو ح کے ساتھ میدان عر فات
میں حا ضر ہو تے ہیں ؟ کتنے اپنے گنا ہوں کا سارا کھا تہ صاف کر ا کے لو
ٹتے ہیں ؟ اس سے بھی بڑھ کر کتنے وہ ہیں جو صحیح معنوں میں پوری زند گی
اللہ کی فر مانبر داری میں گزا رنے کا عہد کر کے لو ٹتے ہیں ؟
وقوف مزدلفہ :
سورج ڈھلتے ہی میدان عر فات سے کو چ شروع ہو جا تا ہے یہ کو چ کا وقت رِقت
آمیز وقت ہو تا ہے ۔جب بندوں کی عا جزی اپنے عر وج پر ہو تی ہے ۔ایک بے
قراری اور آہ و بکاءکا عالم ہر طرف طاری ہو تا ہے ۔خو ف اور امید کی کیفیت
سارے عا لم پر طاری ہے ۔لو گ چلتے جا رہے ہیں ،دعائیں ما نگتے جا رہے ہیں ۔
اگلا پڑاﺅ مزدلفہ ہے ۔ایک کھلا میدان جو عر فات کی سر حد سے لے کر منیٰ کی
سر حد تک پھیلا ہو اہے ۔پہاڑی علا قہ،پتھر یلا میدان ،جگہ جگہ چھو ٹے پہاڑٰ
ی ٹیلے ہیں ۔اور بیچ بیچ میں میدان ہیں ۔یہاں حجاج کو رات گزارنی ہے ۔نبی
کر یم ﷺنے یہاں آکر مغر ب اور عشاءکی نما زیں ملا کر ادا کی تھیں ۔یہی عمل
دہرا یا جا تا ہے اس کے بعد حکم یہ ہے
فا ذا قضیتم منا سککم فا ذکروا اللہ کذکر کم ابا ٓءکم اواشدا ذکرا ط
”پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو ،تو جس طرح پہلے اپنے آبا ﺅ اجداد کا
ذِکر کر تے تھے ،اس طر ح اب اللہ کا ذِکر کرو،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ (سورة
البقر ہ : 200)
عر فات اور منیٰ کی طر ح کو ئی جگہ کسی کے لیے مخصوص نہیں ہے ۔معلمین کی
ذمہ داری ختم ہے ۔کو ئی خیمہ ہے نہ کو ئی اور چھت ۔یہاں را ت کھلے آسمان
تلے گزارنی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ عورتوں اور مردوں کے لیے کو ئی جگہیں مخصوص
نہیں جس کو جہاں جگہ ملے لیٹ جا ئیں ۔ عجب عبادت ہے مزد لفہ میں ۔پتھر ہیں
گند گی ہے کھلی جگہ ہے مگر یہیں سو نا ہے اور رات گزارنی ہے گو یا عبا دت
کی اصل رو ح اللہ کی اطاعت ہے اس کچی زمین پر سو نے کا بھی ویسا ثواب ہے
جیسا کہ نما زپڑ ھنے اور ذکر کر نے کا ۔حج ایک ایسی طو یل تر بیت گاہ ہے
جہاں اللہ نے خواتین کو کہیں بھی استثنا ءنہیں دیا ۔را ت مز دلفہ میں گزار
کر طلو ع فجر کے ساتھ ہی منیٰ وا پسی کا سفر شروع ہو جا تا ہے ۔
رمی جمار :
حج کا اگلا اہم ر کن رمیٰ جمار ہے یعنی شیطان کو کنکر یاں مار نا ۔کنکر یاں
مزدلفہ سے چن لی گئی ہو تی ہیں اور گرو پس کی صورت میں حجاج ایک مخصوص علا
قے کی جا نب چل پڑ تے ہیں ۔۔یہ علا متی شیطان تین جگہوں پر بنے ہیں۔اور چھو
ٹا ،درمیانہ اور بڑا شیطان کہلواتے ہیں ہر ایک کو سا ت کنکر یاں ما رنی ہو
تی ہیں۔ما رتے ہو ئے ” اللہ اکبر رغمًا للشیطان وحز بہ “ اور اللھم تصدیقًا
بکتا بک واتبا عًا لسنة نبیک۔ پڑ ھا جا تا ہے ۔یعنی سعی شیطان اور اس کے
لشکروں کے مقا بلے اللہ اور اس کے دین کی سر بلندی کا اعلان اور کتاب وسنت
کی تصدیق کا عہد کیاجا تا ہے۔ گو یا ایک نئی زند گی کے آغا ز کا اعلان ہے
حج سے سا بقہ گناہ معاف کرا کے لو ٹ ر ہے ہیں اور بقیہ زند گی اے اللہ!
تیری کبر یائی کے اظہاراور اعتراف میں گزرے گی اور شیطان مردود پر سنگ زنی
کر تے ہو ئے گزرے گی ۔گو یا ایک اےک حا جی زبان حال سے کہہ رہا ہو تا ہے کہ
ا ے شیطان تو اب میری زند گی سے نکل جا ۔
نہ معلوم کتنے لو گ ر می جمار کر تے ہو ئے جا ئزہ لیتے ہیں کہ زند گی کے کس
کس حصے پر طا غوت کا قبضہ ہے ۔کس کس مو قع پر ہم شیطان سے ہا ر ما ن لیتے
ہیں ۔یہاں جس جو ش اور جذبے سے ہم رمی کر رہے ہیں کیا عملی زند گی میں بھی
وہ جو ش با قی رہتا ہے ؟ کتنی مر تبہ ہم اپنے نفس کے با طل مطا لبے مان
لیتے ہیں ؟ کتنی مر تبہ خا ندان سے ہا رجا تے ہیں خصوصا ً رسومات کے مو قع
پر، سسرال والوں کی نا را ضگی کی وجہ سے شادی میں کتنی خرا فات میں شا مل
ہو جا تی ہیں ۔برا دریوں کی نا را ضگی کے ڈر سے ہم کہاں کہاں شیطان کی
بجائے اپنے دین اسلام پر ہی پتھر بر سا رہے ہو تے ہیں ! رزق کماتے ہو ئے ،رزق
خر چ کر تے ہوئے ۔اگر حلال و حرام کی فکر نہیں ہو تی تو پتھر کس پر بر ستے
ہیں ۔جب ہماری نسلیں مغر ب کی رو میںبہتی چلی جا تی ہیں ،بیٹیوں کا حجاب
اتر کر پتلو نیںاور کیپر یز پہنی جا تی ہیں اور ان کے لباس لو نڈیوں کو بھی
مات کر تے ہیں اس وقت کس کے قوانین کی ر می ہو رہی ہو تی ہے ۔کاش ہر حا جی
اپنی اپنی زند گی کا جائزہ لے۔
حا جی جس طا غوت کو کنکر یاں مارنے کے لیے اس میدان میں جمع ہو تے ہیں اور
تین دن اسکی مشق کر تے ہیں اس کے حواری جمع ہو کر امت مسلمہ پر یو ں ٹو ٹ
پڑے ہیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ۔ا ن کے پاس ڈالروں کی چمک ہے جس سے انہوں
نے امت کے حکمرا نوںکو خر ید لیا ہے ۔!اے حا جی ! کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ
اللہ کیوں پلٹ پلٹ کے ’رمی جمار ‘ کے لیے لے جا تا ہے ! ایک بار ،دو بار
،سہ بار ۔ذرا اس کلمے پر دوبارہ غور کر یں جو رمی کر تے ہوئے پڑ ھنا ہے ۔
اللہ اکبر رغمًا للشیطان وحز بہ “ اور اللھم تصدیقًا بکتا بک واتبا عًا
لسنة نبیک۔بقول مو لا نا مو دودی ؒ ” کنکر یوں کی اس جان ماری کا مطلب یہ
ہے کہ جو تیرے دین کو مٹا نے اور تیرا بول نیچا کر نے اٹھے گا میں اس کے
مقا بلے میں تیرا بو ل بالا کر نے کے لیے یو ں لڑو ں گا ! “اگر 40-35 لا کھ
میں سے دس بیس لا کھ ہی اس جذ بے کے ساتھ یہ عبادت کر یں اور یہ عہد جو وہ
کنکر یاں مارتے ہوئے ہیں اس کو وفا کر دکھا ئیں ۔تو دین اسلام چند سالوں
میں غا لب ہو جائے ۔امت پر طاری ذلت و نکبت ،عزت و سر بلندی میں بد ل جائے
۔ ۔کاش حجاج، حج کے ان منا سک کی رو ح کو پا جا ئیں ۔
(جاری ہے) |