پاکستان کی تاریخ کا انوکھا مقدمہ،
26جنوری 1976میں لاہور کے ایک پلاٹ کے عوض لیا گیا 50ہزار کا قرضہ سود در
سود کی وجہ سے اب 2017میں بڑھ کر لاکھوں روپے سے تجاوز کر چکا ہے،تاہم اس
مقدمے کی 28سال بعد وفاقی شرعی عدالت 13فروری 2017سے روزانہ کی بنیاد پر
ایک بار پھر شروع سے سماعت کرے گی۔
سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا پس منظر یوں ہے کہ لاہور کے ایک
شہری میسرز فاروق برادرز کے مالک ظفر عالم کی جانب سے 26جنوری 1976کو
الائیڈ بنک میں اک پلاٹ کو رہن رکھ کر 50ہزار روپے قرض لیا گیا تھا، جس کی
ادائیگی کے دوران چار قسطوں میں ظفر عالم نے 1976سے 1985تک 33ہزار روپے ادا
کر دیے تھے۔تاہم بنک کی جانب سے ان کو نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ
انہوں نے اب یہ رقم 1لاکھ 58ہزار 906روپے ادا کرنا ہے،جو کہ ادائیگی نہ
کرنے پر بڑھ کر 1لاکھ74ہزار 977روپے ہو گیا، بعد ازاں اس میں مزید اضافہ ہو
گیا اور چودہ فیصد سود کے ساتھ یہ رقم تین گنا سے بھی تجاوز کر گئی اور بنک
نو ٹس میں میسرز فاروق برادرز سے ایک لاکھ 83ہزار اور 67روپے کی ادائیگی کا
تقاضا کیا گیا تھا۔
اسی دوران سود مزید بڑھتا گیا اور بنکنگ کورٹ نے بھی الائیڈ بنک کی جانب سے
میسرز فاروق برادرز کے خلاف دیا۔ جس پر فاروق برادرز نے 1991میں وفاقی شرعی
عدالت سے رجوع کیا جس پر وفاقی شرعی عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔جس پر
اس فیصلے کو بنک کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا،سپریم کورٹ نے
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تاہم اس دوران سپریم کورٹ کے شریعت
ایپلٹ بنچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست وفاقی حکومت نے دائر کی جس
کی سماعت سپریم کورٹ کے شریعت رویو بنچ نے کی اور فیصلہ معطل کرتے ہوئے
معاملہ دوبارہ سے وفاقی شرعی عدالت کو ارسال کر دیا تھا جو کہ پچھلے کئی
سالوں سے زیر التوا تھا تاہم موجودہ چیف جسٹس نے اس مقدمے کو دوبارہ سماعت
کے لیے مقرر کر دیا ہے۔تاہم ان کی ریٹائرمنٹ میں بھی چند ماہ رہ گئے ہیں اس
لیے شاید وہ بھی اس مقدمے کا فیصلہ نہ کر سکیں کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کی
جانب سے351افراد اور فریقین کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔
ان فریقین کو سنتے سنتے کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔اس لیے امکان یہ ہے کہ اس
مقدمے کا فیصلہ نئے چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت ہی کریں گے۔متعلقہ وکلاء کے
مطابق سپریم کورٹ شریعت رویو بنچ نے سود کے حوالے سے جوفیصلہ دیا تھا وہ طے
شدہ نظر ثانی درخواست کے قوائد و ضوابط سے بہت زیادہ تجاوز تھا ممکن ہے کہ
سپریم کورٹ اس فیصلے پر بھی کسی وقت کوئی نظر ثانی کرے۔وفاقی شرعی عدالت
13فروری کو سود کے بارے میں دائر نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کرے
گی۔یونایئٹڈ بنک کے وکیل اس کے حق میں اور دیگر اس کی مخالفت میں دلائل دیں
گے۔نظر ثانی کی اپیل کی سماعت سے قبل وفاقی شرعی عدالت نے مذہبی سکالرز کو
موضوع کے حق یا مخالفت میں دلائل دینے کی دعوت دی ہے۔متعدد مذہبی سکالرز
بھی نظر ثانی کی اپیل کی سماعت میں اپنے اپنے دلائل دیں گے تاہم اسٹیٹ بنک
کے ڈپٹی گورنر برائے اسلامی بنکاری سعید احمد نظر ثانی کی اپیل میں سود کے
بارے میں پہلے فیصلہ کو ماننے اور اسٹیٹ بنک کے وکیل کو پیش نہ ہونے کا
عندیہ دے چکے ہیں۔
1991میں وفاقی شرعی عدالت سود کو حرام قرار دے چکی ہے اس فیصلہ میں
150ادارے اور افراد شریک تھے اس فیصلہ کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ
میں اپیل دائر کی جس کی سماعت چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں بننے
والے بنچ نے کی اور 2000 میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے وکیل کے دلائل
مسترد کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا اور فیصلہ میں سود
کے متبادل نظام تیار کرنے کیلئے 2سال کی مدت دی۔یہ رعائتی مدت ختم ہونے سے
قبل ہی 2002میں یانائیٹڈ بنک نے سود کو حرام قرار دیے جانے کے سپریم کورٹ
کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی۔جون2002میں سپریم کورٹ کے
شریعت ایپلٹ بنچ نے چیف جسٹس ریاض احمد کی سربراہی میں نظر ثانی کی اپیل کی
سماعت کرتے ہوئے اس کو دوبارہ وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا یہ کیس عرصہ 15سال
سے زیر سماعت ہے۔
بلا سود بنکاری اور سودی بنکاری دونوں نظام ہی موجود ہیں تاہم وفاقی حکومت
اسلامی بنکاری کیلئے اسٹیٹ بنک کے ذریعہ مالیاتی اداروں کو رہنمائی فراہم
کر رہی ہے اس بارے میں صارفین کو بھی مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے۔قانونی
ماہریں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ بحال رہنے کی صورت میں
وفاقی حکومت کو سود کے متبادل نظام کیلئے اس بار زیادہ مدت نہیں دی جائے
گی۔
|