پرائیویٹ کمپنی میں بطور کلرک نوکری کرنے والا امجد
تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا۔امجد کے تمام دوست مختلف
کمپنیاں تبدیل کرتے کرتے اچھی پوسٹوں پر پہنچ چکے تھے اور معقول تنخواہ
وصول کر کے ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے جبکہ امجد پچھلے پندرہ سال سے ایک
ہی کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔زندگی کے پندرہ سال ایک ہی کمپنی میں گزارنے
اور بھر پور محنت و لگن سے کام کرنے کے باوجودامجد کو اس کی محنت کا پورا
پورا صلہ نہیں ملتا تھا۔مالک امجد کے کام کی تعریفیں تو کرتے تھے مگر
تنخواہ بڑھانے کی بات کو ہمیشہ اَن سُنی کردیتے تھے۔دیگر کمپنیوں میں نوکری
کے حصول کے لیے امجد نے کئی مرتبہ بذریعہ ڈاک اپنے کاغذات تو بھیجے تھے مگر
دفتر میں کام کی بھاری ذمہ داری کے باعث بہتر نوکری کے حصول کے لیے کوشش
کرنا اور انٹرویو دینے کے لیے جانا امجد کے لیے بہت مشکل تھاجس کی وجہ سے
امجد کو اچھی نوکری نہ مل سکی۔مہنگائی کے دور میں صرف دس ہزار روپے ماہانہ
میں گزارہ کرنا اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنااب ناممکن ہو چکا تھا
مگر امجد کی بیوی ساجدہ اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہ کر صبر و شکر کا
مظاہرہ کرتے ہوئے محلے کی عورتوں کے کپڑے سلائی کرکے گھر کا چولہا جلانے
میں اپنے میاں کا ہاتھ بٹاتی تھی اور اچھی بیوی گھر کو جنت بنا دیتی ہے کی
مسلّمہ حقیقت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھی۔امجد کی تنخواہ اور ساجدہ کی دن
رات کی محنت سے ان کا اچھا گزر بسر ہورہا تھا ۔دونوں میاں بیوی مل کر اپنا
اور بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ ان کو اچھے سکول میں تعلیم دلوا رہے
تھے۔ عائشہ جو سب بہن بھائیوں میں بڑی تھی آٹھویں کلاس کے بورڈ کے امتحان
میں نمایاں پوزیشن لے کر پاس ہو چکی تھی اور اب نوویں کلاس میں داخلہ لینے
کے لیے بیتاب تھی۔عائشہ کے چھوٹے بھائی ساجد اور ماجد بالترتیب چوتھی اور
چھٹی کلاس میں تھے۔ ماجدپنجم کلاس کے بورڈ کے امتحان میں نمایاں کامیابی
حاصل کر کے اپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کر چکا تھا۔تینوں بہن بھائی
پڑھائی میں بہت ذہین تھے اور ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تھے۔ ۔۔امجد کی
ساری تنخواہ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے پر خرچ ہو جاتی تھی اور
ساجدہ کے کپڑے سلائی کرنے سے گھر کا راشن چلتا تھا۔۔۔ عائشہ کی آٹھویں کلاس
میں نمایاں کامیابی پر اس کے والدین خوش تو تھے مگر اس کی بڑی کلاس کی فیس
اور دیگر اخراجات کو لے کر دونوں بہت پریشان بھی تھے ۔۔۔بڑی کلاس میں داخلے
کے اخراجات اور فیس میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے عائشہ کے ابو جان نے
دفتر میں اضافی وقت میں کام شروع کردیا تو اس کی اماں نے سلائی مشین کا
دورانیہ بڑھا دیاتھا۔۔۔ساجدہ اپنی پڑوسن کو سلائی کیے ہوئے کپڑے دینے گئی
تو اس سے مشورہ مانگا۔۔۔
بہن ۔۔۔میری بیٹی آٹھویں کلاس میں پاس ہوگئی ہے اب اس کو نوویں کلاس میں
داخل کروانا ہے ۔۔۔کچھ اندازہ بتائیں کتنا خرچہ ہوگا۔۔۔عائشہ کو کسی اچھے
پرائیویٹ سکول میں داخل کروانا ہے تاکہ اس بار بھی نمایاں کامیابی حاصل کرے
۔۔۔آپ کی بیٹی شمع نوویں کلاس میں تھی ناں۔۔۔۔ساجدہ بہن عائشہ کو کسی سستے
ترین پرائیویٹ سکول میں نوویں کلاس میں داخل کروانے کے لیے بھی آپ کوسلائی
کاکام دوگنا تک بڑھانا ہوگااور ٹیوشن سنٹر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے مزید
محنت کی ضرورت ہوگی ۔۔۔بہتر ہے کسی سرکاری سکول میں داخل کروا دو۔۔۔ پڑوس
میں رہنے والی صغریٰ نے نوویں کلاس کے اخراجات کے بارے میں بتایا توساجدہ
کو چپ لگ گئی تھی۔۔۔اب ساجدہ دن رات محنت کرکے پیسے جمع کرنے میں لگ گئی
تھی تاکہ اپنی بیٹی کو اچھے سکول میں داخل کروا سکے۔۔۔ساجدہ کی سلائی مشین
کا دورانیہ دن بدن بڑھتا ہی جاتا تھااور ہر وقت اسے عائشہ کے تعلیمی
اخراجات کی فکر لگی رہتی تھی۔۔۔ہنسی خوشی گزارہ کرنے والے گھرانے کو شاید
نظر لگ گئی تھی۔۔۔ساجدہ ہر وقت سلائی مشین سے چمٹی رہتی تھی اور امجد دفتر
میں اضافی کام کرنے کی وجہ سے اکثر آدھی آدھی رات کو گھر لوٹتا تھاتاکہ
اضافی وقت میں کام کرکے حاصل ہونے والے پیسے عائشہ کے داخلے اور دیگر
تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں معاون بن سکیں۔۔۔ ادھر عائشہ کی خواہشات تھیں
کہ بڑھتی ہی جارہی تھیں۔۔۔ پسندیدہ سکول میں داخلے کے حوالے سے خواہش کا
اظہار کر کے عائشہ نے اماں کے دل پر جیسے بجلی ہی گرادی تھی۔۔۔
اماں۔۔۔ میری ساری سہیلیاں کیڈٹ کالج میں داخلہ لینے لگی ہیں ۔۔۔مجھے بھی
وہاں ہی داخل کروادینا ۔۔۔سنا ہے وہاں پڑھائی بہت اچھی ہوتی ہے۔۔۔اگلے
مہینے داخلے کھلیں گے ۔۔۔عائشہ کی بات سن کر ماں کے پیروں تلے سے زمین کھسک
گئی۔۔۔صرف ایک مہینے میں داخلے کے لیے پچیس ہزار کہاں سے آئیں گے ؟؟؟۔۔۔
اگر پچیس ہزار روپے کسی سے ادھار لے کر داخلہ ممکن ہو بھی جائے تو ہر مہینے
کی بھاری فیس کے ساتھ ساتھ دیگر اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟؟؟۔۔۔ امجد کی
تنخواہ اور دن رات کپڑے سلائی کرنے سے تو بمشکل گھر کا چولہا چلتا ہے تو
آخر اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟؟؟۔۔۔ کپڑے سلائی کا کام تو پہلے ہی کافی
بڑھا چکی ہوں اب مزید بڑھانا تو ناممکن ہے ۔۔۔ساجدہ کے ذہن میں ایک ہی پل
میں سینکڑوں سوالات جنم لے چکے تھے۔۔۔وہ انہی سوچوں میں گم تھی اور اپنی
بیٹی عائشہ کو ابھی کوئی جواب نہیں دے پائی تھی کہ عائشہ پھر سے بول
اٹھی۔۔۔اماں ساری سہیلیاں ایک کیری ڈبے میں جایا کریں گی مجھے بھی ان کے
ساتھ ہی ایڈجسٹ کروادینا۔۔۔سنا ہے بسوں میں آنا جانا بہت مشکل ہوتا ہے
،دھکے کھا کھا کر بھی وقت پر نہیں پہنچا جاتا۔۔۔ذِلت الگ اور سکول دیر سے
پہنچنے پر سزا الگ سے ملا کرے گی۔۔۔اسی لیے بہتر ہے کہ میں بھی اپنی سب
سہیلیوں کے ساتھ کیری ڈبے میں ہی چلی جایا کروں گی۔۔۔عائشہ کا ایک ایک بول
ماں کے سینے پر تیر کی طرح برس رہا تھا۔۔۔ماں کی جیسے ہچکی بندھ گئی تھی
۔۔۔کوئی بھی جواب نہ ملنے پر عائشہ نے ایک بار پھر کہا کہ اماں آپ کچھ
بولتی کیوں نہیں۔۔۔مجھے جواب دیں۔۔۔
ماں نے لرزتی ہوئی آواز سے چپ کا روزہ توڑ ہی دیا۔۔۔۔ب۔۔۔ب۔۔۔بیٹا۔۔۔سرکاری
سکول میں پڑھائی سب سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ سرکاری سکولوں میں سٹاف میرٹ پر
بھرتی ہوتا ہے اور ہمیشہ سب سے قابل امیدوار کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جبکہ
پرائیویٹ سکولوں میں میرٹ کو کوئی نہیں دیکھتا۔۔۔عائشہ پر ماں کی باتوں کا
کچھ اثر نہیں ہوا اور وہ بضد تھی کہ پرائیویٹ کیڈٹ کالج میں ہی داخلہ لے گی
۔۔۔
اماں۔۔۔میری ساری سہیلیاں کیڈٹ کالج میں داخلہ لے رہی ہیں تو میں کیوں
سرکاری سکول میں داخلہ لوں؟۔۔۔
میں نے سنا ہے کیڈٹ کالج میں صاف ستھرے کلاس رومز اور اے سی کی سہولت کے
ساتھ ساتھ لائبریری ، کمپیوٹر و سائنس لیبارٹری، یو پی ایس ، جنریٹر اور
وائی فائی انٹرنیٹ جیسی جدید ترین سہولیات موجود ہیں مگر سرکاری سکولوں میں
تو ایک پنکھا تک نصیب نہیں ہوتا۔۔۔
جہاں مکمل سہولیات موجود ہوں گی وہاں تعلیمی معیار بھی اعلیٰ ہی ہوگا۔۔۔میں
تو کیڈٹ کالج میں ہی داخلہ لوں گی۔۔۔
عائشہ کی اماں اس کی باتیں سُن سُن کر لاجواب ہوچکی تھی ۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا
تمہیں کیڈٹ کالج میں ہی داخل کروادیں گے۔۔۔ عائشہ کی ضد کے سامنے ساجدہ نے
لاچار ہو کر حامی تو بھر لی تھی مگراس کو یہ وعدہ وفا ہوتا ہوا کسی صورت
دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ نئی کلاس میں داخلہ کروانے اور اس کے اخراجات کی
فکر میں امجدپہلے ہی دفتر میں رات گئے تک کام کرنے لگ گیا تھا اور ساجدہ نے
بھی سلائی مشین کا دورانیہ دوگناسے زیادہ کررکھا تھامگر کیڈٹ کالج کے
اخراجات نے ان کی نیند حرام کر رکھی تھی ۔۔۔دن ہو یا رات ، ساجدہ کی سلائی
مشین رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔۔۔ امجد اور ساجدہ کی دن رات کی محنت سے
عائشہ کے کیڈٹ کالج کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔۔۔ دن
رات کی محنت اور سلائی کی باریکیوں کے باعث ساجدہ کی صحت پر کافی اثر پڑا
تھا اور اس کی نظر کافی حدتک کمزور ہو چکی تھی یہاں تک کہ اکثر رات کے
اوقات میں سوئی میں دھاگہ ڈالنے میں کافی دِقت ہوتی تھی ، ایسی ہی صورت ِ
حال اس رات بھی بنی ہوئی تھی ۔۔۔رات کے ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔۔۔ساجدہ سوئی
میں دھاگہ ڈالنے کی بار بار کوشش کر رہی تھی مگر اس کی ہر کوشش ناکام ہو تی
جا رہی تھی۔۔۔تھوڑی دیر بعد موٹے شیشے والی عینک اتار کر آنسو صاف کرتی اور
دوبارہ دھاگہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگ جاتی۔۔۔عائشہ جو پانی پینے کی غرض سے
اٹھ کر کچن میں فریج کی طرف جانے لگی تھی، مشین لیے بیٹھی اور آنسو بہاتی
ماں کو دیکھ کراس طرف مڑتے ہوئے بولی۔
اماں۔۔۔۔ اماں کیا کر رہی ہیں آپ ابھی تک سوئی نہیں ہیں؟۔۔۔ آپ رو کیوں رہی
ہیں اماں؟۔۔۔۔عائشہ نے ماں سے سوالیہ انداز میں پوچھا توساجدہ جو بیٹی کے
جاگنے سے بالکل بے خبر تھی اچانک آواز سن کر لرزگئی اور گھبراتے ہوئے
بولی۔۔۔
ن۔۔۔ن۔۔۔نہیں تو۔۔۔میں کب رو رہی ہوں ۔۔۔۔بیٹاوہ تو آنکھ میں مچھر چلا گیا
تھا جس کو نکالنے کے لیے آنکھ ملنے سے پانی نکل آیاہے اور اسی مچھر کی وجہ
سے ہی مشین کی سوئی میں دھاگہ نہیں ڈالا جارہا۔۔۔۔ہماری پڑوسن نعیمہ کا سوٹ
کل صبح ہر حال میں دینا ہے اس کے بھائی کی شادی ہے ۔ اسی وجہ سے اس کو مکمل
کرنے کے لیے بیٹھی تھی مگر کمبخت سوئی میں دھاگہ نہیں ڈلے گا تو میں یہ سوٹ
کیسے مکمل کروں گی؟۔۔۔تم دیکھو اگر تم سے ہو جائے تودھاگہ ڈال دو سوئی
میں۔۔۔ماں نے عائشہ کو اس کے سوال کا گول مول جواب دیا اور دھاگہ ڈالنے کا
کہہ دیا تو عائشہ نے دھاگہ سوئی میں ڈال دیا۔۔۔ شکریہ بیٹا۔۔۔اور یہ بتاؤ
تم ابھی تک کیوں نہیں سوئی۔۔۔ ماں نے عائشہ سے پوچھاتو عائشہ نے جواب دیا۔
اماں میں تو کتاب پڑھتے پڑھتے اچانک سو گئی تھی اور سونے سے پہلے پانی نہیں
پی سکی تھی اور اب پیاس کے ستانے پر پانی پینے کے لیے اٹھی ہوں۔
اچھا ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔تم پانی پی کر سو جاؤ ۔۔۔صبح جلدی اٹھنے کی عادت
بنالو۔۔۔کیڈٹ کالج میں تمہارا داخلہ کروانا ہے جو کافی دور بھی ہے ۔۔۔ہر
روز تیاری کرکے سات بجے سے پہلے سٹاپ پر پہنچنا پڑے گا۔۔۔سات بجے والی گاڑی
نکل گئی تو تم کبھی وقت پر سکول نہیں پہنچ پاؤ گی اور دیر سے سکول پہنچنا
اچھے طلباء کا شیوا نہیں ہوتا۔۔۔کیڈٹ کالج کو لیکر عائشہ اس قدر پرجوش تھی
کہ ماں کے رونے کی وجہ دوبارہ پوچھنا بھول ہی گئی تھی ۔۔۔عائشہ پانی پی کر
اپنے کمرے میں جاکر لیٹ تو گئی تھی مگر اسے نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔ایک طرف
رات کے ڈیڑھ بجے ماں کا سلائی مشین کے ساتھ چمٹے ہونااور دوسری طرف کیڈٹ
کالج میں داخلے کی خواہش عائشہ کو سونے نہیں دے رہی تھی۔۔۔ماں کے موٹے شیشے
والی عینک اور رخسار پرٹِپ ٹِپ گرتے آنسوؤں کا منظر بار بار عائشہ کی
آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔۔۔ عائشہ اپنی اماں کے رات گئے تک کپڑے سلائی
کرنا اور سوئی میں دھاگہ نہ ڈلنے کی وجہ سے گرنے والے آنسوؤں کے ساتھ ساتھ
ابو کے رات کو دیر سے گھر آنے کی وجہ بھی جان چکی تھی۔۔۔عائشہ چار پائی سے
اٹھی اور سیدھی جاکر ماں کے سینے سے لِپٹ کر رونے لگی تھی۔۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔۔ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔کوئی بُرا سپنا دیکھا ہے کیا۔۔۔ کیا
ہوا کچھ بتاؤ تو سہی ۔۔۔اماں نے عائشہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے
ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر دیئے تھے ۔۔۔
اماں ۔۔۔۔م ۔۔۔۔م۔۔۔۔میں کیڈٹ کالج میں داخلہ نہیں لوں گی۔۔۔سرکاری سکولوں
میں ہی اچھی پڑھائی ہوتی ہے ۔۔۔عدم سہولیات کی دستیابی والے سرکاری سکول
میں داخلہ لیناماں باپ کو تکلیف دے کر جدید ترین سہولیات کے حامل مہنگے
سکول میں داخلہ لینے سے ہزار درجے بہتر ہے۔۔۔میں سرکاری سکول میں داخلہ لے
کر ہی دن رات محنت کرکے اچھی پوزیشن حاصل کروں گی۔۔۔عائشہ اماں کو تکلیفوں
کے بارے میں سوچ سوچ کر روتی جارہی تھی کہ اماں کی آنکھوں میں بھی سمندر
امڈ آیا۔۔۔ انتہائی مہنگے کیڈٹ کالج میں داخلے کی خواہش نہ جانے کب کی ختم
ہو چکی تھی۔۔۔عائشہ’’ ماں اِک انمول تحفہ ِ خداوندی ‘‘ کی حقیقت کو پہچان
چکی تھی۔۔۔سرکاری سکول میں داخلے کی رضا مندی کے ساتھ ساتھ سکول سے واپسی
پر گھر کے کاموں میں اماں کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ بھی کر چکی تھی۔۔۔ |