انسانوں کی فصل

ہمارے ملک کی آبادی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی کہ اس کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔ جہاں جس قدر غربت ہے وہاں اسی قدر آبادی ہے۔ نہ سر چھپانے کی جگہ، نہ کھانے کو روٹی اور نہ ہی پہننے کو کپڑا نصیب ہے مگر بچوں میں ہر سال اضافہ فرض ہے۔ کہیں بیٹا نہیں تو بیٹے کی آس میں نو بیٹیاں بھی پیدا کر لیں تو کوئ مضائقہ نہیں اور پھر اس پر یہ کہنے میں بھی کوئ عار یا شرم محسوس نہیں کی جاتی کہ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے اس لئے رزق تو وہی دے گا۔ جی ہاں رزق کا وعدہ اللہ نے ضرور کیا ہے مگر محنت سے کما کر کھانے والے اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والے کے لئے۔ باقی رزق تو بیٹھ کر کھانے والے کو بھی اللہ دیتا ہے مگر پھر اسے کھانے کو پھوڑے والا حلوہ ہی ملتا ہے۔ اس بات کی وضاحت میں آپ کو ایک چھوٹی سی سبق آموز کہانی سنا کر کرتی ہوں۔ ہمارے والد صاحب کی نانی امّاں ہمیں بچپن میں بہت سی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں جن میں سے ایک کہانی یہ بھی تھی، ایک بار ایک آرام طلب آدمی نے سوچا کہ رزق دینے کا وعدہ تو اللہ نے انسانوں سے کیا ہوا ہی ہے تو میں کاہے کو محنت کروں اور کما کر کھاؤں۔ یہی سوچ کر وہ ایک دریا کے کنارے جا کر آرام سے بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ درخت کے پتے پر گرم گرم حلوہ بہتا ہوا آیا۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور کہنے لگا دیکھا اللہ نے مجھے بغیر کسی محنت کے کھانا بھیج دیا۔ روزانہ اسی طرح ہوتا کہ ایک وقت مقررہ پر درخت کے پتے پہ گرم گرم حلوہ دریا کے دوسرے کنارے سے بہتا ہوا آجاتا۔ ایک روز اس کا دوست جب اس سے ملنے آیا تو یہ سب دیکھ کر اس کو تجسس ہوا کہ معلوم کرے کہ ماجرا کیا ہے؟ اور اس کی حقیقت جاننے کے لئے وہ دریا کے دوسرے کنارے جا پہنچا۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہے کہ اس وقت کے بادشاہ سلامت کے پیر پر حکیم صاحب گرم حلوہ باندھ رہے ہیں اور پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد انھوں نے وہ حلوہ پتے پر رکھ کر دریا میں بہا دیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کے بادشاہ سلامت کے پیر پر ناسور نکلا ہوا ہے اس لئے حکیم کے مشورے پر، علاج کی غرض سے روزانہ گرم حلوہ پھوڑے پر کچھ دیر باندھ کر دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ تو جناب بغیر محنت کے ایسا رزق ہی ملتا ہے۔ علامہ اقبال نے رزق کے بارے میں کیا خوب کہا ہے، "اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"۔

آبادی بڑھنے کی مثال بلکل اسی طرح ہے جیسے زمین میں سینکڑوں نہیں بلکہ اربوں کھربوں کی تعداد میں بیج بو دۓ جائیں، یہ سوچے سمجھے بنا کہ ان ک پروان چڑھانے کے لئے بنیادی چیزیں ہی ہمارے پاس مہیا نہیں۔ اور پھر جب ننھی ننھی کونپلیں پھوٹنے لگیں تو انھیں خوراک اور پانی بھی نہ دیا جاۓ، کیوں کہ میسر جو نہیں۔ اور انھیں اسی طرح حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاۓ۔ خوراک کی کمی سے چاہے انھیں بیماریوں کے کیڑے لگ جائیں، کوئ معذور ہوجاۓ، یا کسی کو موت گلے لگا لے، اس سے ہمیں کوئ سروکار نہیں۔ ہم اگلی فصل اگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔

لندن میں آج کل یہ رواج شروع ہوگیا ہے کہ بہت سی تعداد میں نوجوان جوڑے شادی کرنے سے پہلے یہ منصوبی بندی کر لیتے ہیں کہ انھوں نے تا زندگی کوئی بچہ نہیں پیدا کرنا۔ ان میں کافی تعداد میں نوجوان ہسپتال جا کر مستقل طور پر اپنا آپریشن کروا لیتے ہیں تا کہ وہ کبھی باپ نہ بن سکیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ بچے دو ہی اچھے پھر بات ایک بچے تک آگئ اور اب برطانیہ میں یہ رواج آگیا کہ بچے پیدا ہی نہیں کرنے۔ مگر ہمارے ملک میں تو حساب ہی الٹا ہے۔ یہاں کوئی ترقی ہو نہ ہو آبادی کا گراف کبھی نیچے نہیں آۓ گا۔ بچے پیدا کر کر کے انسانوں کا ڈھیر لگاۓ جانا، پھر انھیں بھوکا اور بیمار رکھ کے مارنا کہاں کا دین اور کہاں کی انسانیت ہے؟ آج کے دور میں بھی ہمارے ہاں آٹھ آٹھ، دس دس سال کی بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور انھیں بچپن ہی سے بچے پیدا کرنے کے کام پر لگ دیا جاتا ہے۔ جس ملک میں بچے ہی، بچے پیدا کرنے کے کام پر مامور ہوں وہاں کی جہالت اور غیرت مندی کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 33074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.