انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں ترازو اور آنکھوں پر پٹی ّ
ہوتی ہے۔ ترازو عدل کی علامت اور پٹیّ غیر جانبداری کی ضمانت ہے۔ ترازو یہ
نہیں جانتا کہ اس پر رکھا جانے والا کسی عام آدمی کا ہے یا خاص آدمی کا
ہے وہ بلاتفریق و امتیاز اس کا وزن بتادیتا ہے لیکن جس شخص کے ہاتھوں میں
ترازو ہو اس کو دیکھ سکتا ہے کہ کس پلےّ میں کس کا مال ہے؟ وہ بڑی آسانی
سے ڈنڈی مارسکتا ہے اس لیے پٹی ّ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری
مختلف عدالتوں کے تین فیصلےمنظر عام پر آئے ۔ ان میں سے ایک عصمت دری کا
معاملہ تھا اور دنگا فساد کا لیکن تیسرے معاملے میں عصمت دری کا ارتکاب
فساد کے دوران ہوا تھا اس لیے اس کا موازنہ دونوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ان
فیصلوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ عدالتی نظام سے متعلق چشم کشا اسرارنہاں
کرتا ہے اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ؎
ناتواں ہو کے عدل چاہتا ہوں
واقعی قابل سزا ہوں میں
نربھیا کے مقدمہ کا فیصلہ جس دن آیا اس کے ایک روز قبل دو اور مقدمات میں
احمد آباد اور ممبئی کی عدالتوں نے مماثل قضیوں کے فیصلے سنائے۔ گجرات کے
بدنامِ زمانہ فسادات کے دوران احمد آباد سے ۲۵۰ کلومیٹر دور دیوگڑھ ۔باریا
گاؤں میں ۳ مارچ ۲۰۰۲ کو ۱۹ سالہ بلقیس بانو کی اجتماعی آبروریزی کی گئی
تھی۔ پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس اپنے اہل خانہ کے ساتھ جان بچا کر بھاگ رہی
تھی کہ ہائی وے پر اس کا قافلہ وحشی درندوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ بلقیس کی
آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کے ۱۴ افراد کو قتل کیا گیا جن میں ساڑھے
تین سال کی معصوم بچی بھی شامل تھی۔ فسادی بلقیس کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے
تھے ۔ اس بدنصیب قافلے میں بچنے والی وہ واحد خوش نصیب چشم دید گواہ تھی
جسے مشیت نے فسادیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے زندہ رکھا اوربلقیس
بانو نے بے مثال صبرو استقامت سے اپنی حیاتِ نو کا حق ادا کردیا ۔ بلقیس کی
داستانِ الم سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اگر
ایک کمزور ترین مخلوق بھی حوصلہ مندی کے ساتھ حق پر جم جائے تو خالق کائنات
اس کی غیب سے مدد فرماتا ہے اور کامیابی و کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔
اس اندوہناک سانحہ کے ایک دن بعد بلقیس ازخود لمکھیڈا پولس تھانے میں پہنچ
جاتی ہے اور اپنی ایف آئی آر میں عصمت دری کرنے والوں کا نام تک لکھوا
دیتی ہے۔ وہ ایسا وقت تھا جب فساد کے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے ۔ وقت کا
سفاک ترین حکمراں ظلم کی سرپرستی کررہا تھا اور یہ ایک ایسی عورت تھی جس نے
ایک روز قبل اپنے اہل خانہ کو دم توڑتے دیکھا تھا لیکن یہ سارے موانع بلقیس
کے راستے کا روڑہ نہ بن سکے ۔ افسوس کہ جن ظالموں کو اس نے نامزد کیا تھا
گجرات کی آدرش پولس نے ان کے نام شکایت سے ہذف کردیئے۔ اس واقعہ کے ایک
سال بعد لمکھیڈا پولس تھانے نے جوڈیشیل مجسٹریٹ کے سامنے ایک رپورٹ کا
خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا چونکہ بے ضابطگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے مقدمہ ختم
کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے قبول کرلیا اور معاملہ ختم کردیا ۔
انتظامیہ اور سیاسی قائدین نے اس روز دیوالی کا جشن منایا لیکن وہ نہیں
جانتے تھے کہ قدرت نے ان کے لیے کیا لکھ رکھا تھا؟
اس فیصلے کے ایک ماہ بعد بلقیس انسانی حقوق کے کمیشن میں پہنچ گئی ۔ اب اس
کو تیستا ستلواد جیسا ہمدرد و غمخوار مہیا ہوگیا تھا ۔ کمیشن نے ہریش سالوے
جیسے بڑے وکیل کو بلقیس کے حق میں سپریم کورٹ کے اندرمقدمہ لڑنے کی درخواست
کی ۔ سپریم کورٹ میں بلقیس کے تین مطالبات تھے ۔ اول تو پولس رپورٹ پر
مجسٹریٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، پولس اہلکاروں سزا اور اسے
معاضہ دیا جائے ۔ اس دوران پولس نے تحقیق وتفتیش کے نام پر بلقیس کے اہل
کانہ کو ڈرانہ دھمکانہ شروع کردیا تھا اس لیے ۶ ماہ بعد سپریم کورٹ نے سی
آئی ڈی کی تفتیش کو بند کرنے کا حکم دیا اور مقدمہ کی انکوائری سی بی آئی
کے حوالے کی جس نے ایک عارضی رپورٹ داخل کرکے پولس کی ہیراپھری کو اجاگر
کرتے ہوئے ۱۴ لوگوں کو گرفتار کیا جس میں دو پولس افسر بھی شامل تھے اور
جوفردِ جرم داخل کی اس میں ۶ پولس والوں کے ساتھ دو ڈاکٹر بھی ماخوذ تھے۔
یہ اس جدوجہد کا دوسرا سالتھا۔
انتظامیہ نے اب گواہوں کو ہراساں کرنا شروع کیا تو عدالت عظمیٰ کو گواہوں
کے تحفظ کی خاطر سی آئی ایس ایف کے جوانوں کو متعین کرنا پڑا۔ یہ اس مقدمہ
کا منفرد پہلو تھا۔ اگست کے اندر سی بی آئی نے جو رپورٹ داخل کی اس میں
گجرات کی حکومت کے خلاف ظابطے کی خلاف ورزی اور سازش کا پردہ فاش کیا گیا
اور اس کے بعد یہ مقدمہ گجرات سے نکال کر ممبئی کی خصوصی عدالت میں منتقل
کرنا پڑا۔ یہ ہے مودی جی کے جبر واستبداد کو وہ ماحول جس میں عدل و انصاف
کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ۲۲ فروری ۲۰۰۵ کو بلقیس نے ان ۱۲ مجرمین کی
شناخت کردی جنہوں نے اس کی اور اس کے خاندان والوں کی عصمت دری کرکے انہیں
قتل کردیا تھا۔ بلقیس کو طویل تفتیش اور ۷۳ گواہوں کو شہادت کے بعد جنوری
۲۰۰۸ میں ٹرائل کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ عدالت نے ۱۲ لوگوں کو مجرم
پایا جن میں سے ایک پولس اہلکار بھی ہے جس نے جھوٹی فرد جرم بنائی تھی لیکن
۵ دیگر پولس والوں اور دوڈاکٹروں کو بری کردیا ۔ ۱۱ مجرمین کو عمر قید کی
سزا سنائی گئی اس لیے کہ اس دوران ایک کا انتقال ہوچکا تھا۔
خصوصی عدالت کے مذکورہ فیصلے کے خلاف سی بی آئی نے درخواست داخل کی اور ۱۱
میں سے ۳ مجرمین کے خلاف سخت سزا یعنی پھانسی کی گہار لگائی نیز عدالت کے
ذریعہ بری کیے گئے پولس افسران اور ڈاکٹروں کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کیا
۔ ممبئی ہائی کورٹ نے۱۱ مجرمین کی سزا کو برقرار رکھا نیز دو ڈاکٹروں پر
اور ۵ پولس اہلکاروں کو بری کرنے کا فیصلہ منسوخ کردیا اور ان پر فی کس ۲۰
ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کیا۔ یہ رقم گوکہ معمولی ہے لیکن اہم یہ ہے کہ
انہیں مجرم قرار دیتی ہے۔ اس سے قبل عدالت کا فیصلہ جس وقت آیا تھا
مہاراشٹر اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اس لیے یہ الزام لگایا جاتا
تھا کہ مسلمانوں کی خوشامد کے لیے اور مودی جی کو پریشان کرنے کے لیے یہ سب
کیا جاتا ہے لیکن فی الحال تو مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت ہے اور
مرکزمیں خود مودی وزیراعظم ہیں اس کے باوجود ممبئی کی عدالت کا یہ فیصلہ
یقیناً عظیم جرأتمندی کا مظاہرہ ہے لیکن جب اگلے دن نربھیا کے مقدمہ میں ۴
لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تویہ سوال پیدا ہوگیا کہ کیا بلقیس کا
معاملہ نربھیا سے کم سنگین تھا؟ بلقیس کی عصمت دری ہوئی اور اس کے خاندان
کے ۱۴ لوگ قتل بھی کئے گئے پھر بھی سزائے موت کے بجائے عمرقید کے لیے عدلیہ
کو کس نےمجبور کیا؟
عدل کے لئے ملزم کب سے راہ تکتا ہے
کون سی ہے مجبوری منصفی کے دامن میں
نربھیا کے معاملے میں تو۵ سال کے اندر فیصلہ آگیا لیکن بلقیس بانو کو ۱۵
سال انتظار کرنا پڑا۔ اس طویل عرصے میں اگر کوئی کمزور عورت حوصلہ ہار جاتی
تو کسی کو سزا نہیں ہوتی ۔ اس حوصلہ مندی کے لیے بلقیس اور اس کے افرادِ
خانہ خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس لیے بھی کہ اس عرصے میں آدرش گجرات
کے کسی وزیرنے اس کی کوئی خبر گیری نہیں کی۔ مودی جی گجرات فساد کے سہارے
ملک کےوزیر اعظم بن گئے۔ ان کے بعد ایک خاتون آنندی بین وزیراعلیٰ بنیلیکن
کسی کو اس ابلہ ناری پر رحم نہیں آیا ۔ اس مقدمہ میں گرفتار مجرم وقتاً
فوقتاً پیرول پر باہر آکر ڈراتے اور دھمکاتےرہے۔
خوف وہراس کے اس عالم میں بلقیس بانو اور ان کے خاندان کو نہ صرف اپنا
آبائی گاوں چھوڑنا پڑا بلکہ مختلف مقامات پر گھر بدلنے پر مجبور ہونا پڑا
مگر ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی ۔ اس قضیہ میں تیستا ستلواد اور
ان کے ساتھی بھی خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں جو حکومت کے عتاب کا شکار
ہونے کے باوجود بلقیس کی پشت پناہی کرتے رہے اور بالآخر مجرمین کو سزا
دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی تعریف کرتے ہوئے
بلقیس بانو نے کہا ہے کہ اس سے ان کا نظام عدل پر اعتمادبڑھا ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مقدمہ ممبئی منتقل نہ ہوتا تو احمد
آباد کی عدالت عالیہ یہ فیصلہ سنا پاتی؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے اسی
دن سامنے آنے والت وِس نگر فساد مقدمہ کے فیصلے پر ایک نظر ڈال لینا کافی
ہے۔ یہ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ کی واردات ہے جب فسادیوں کے ایک بڑے مجمع نے گھانچی
واڑہ گاوں میں مسلم ٹرسٹ کے زیراہتمام چلائے جانے والے ہاسٹل پر حملہ کردیا
جس میں نگراں اشرف بلوچ زخمی ہوگئے۔ انہیں سرکاری اسپتال پہنچایا گیا تو
۴۵۰ لوگوں کے جم غفیرنے اسپتال پر ہلہّ بول دیااور اشرف بلوچ سمیت وہاں
زیرعلاج زینب بین اور حنیف سید کو قتل کردیا۔ اس معاملے میں مقامی پولس نے
کملیش پٹیل عرف میکملن ، سیلیش پٹیل ، پرکاش پٹیل، سیلیش پی پٹیل اور راجیش
رامی کو قتل اور فساد کے الزام میں گرفتار کرلیا لیکن آدرش گجرات کی پولس
نے تفتیش میں کوتاہی کی اور ٹرائل کورٹ کے سامنے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے ۔
جس کے نتیجے میں ٹرائل کورٹ نے۲۰۰۵ نے سارے ملزمین کو بری کردیا۔
صوبائی حکومت اور مہلوکین کے پسماندگان نےمذکورہ فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ
کے دروازے پر دستک دی۔ اس دوران ملک الموت نےمیکملن کو خدا کی عدالت میں
پہنچا دیا مگر چار لوگوں پر مقدمہ جاری رہا۔ ۱۲ سال کے اس طویل عرصے میں
چشم دید شاہدمحمد یونس سمیت سارے گواہوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کردیا گیا۔
عدالت نے تسلیم کیا کہ تفتیش میں سنگین کوتاہیاں ہیں یہاں تک کہ بہت سارے
مواقع پر پنچنامہ تک نہیں کیا گیا۔ اس لئے ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے
فیصلے کو قائم رکھتے ہوئے ملزمین کی رہائی پر اپنی مہر ثبت کردی ۔ جسٹس ایس
آر برہما بھٹ اور جسٹس اے جے شاستری نے نے برملااعتراف کیا کہ تفتیش شروع
ہی سے ناقص تھیاور ٹرائل کورٹ کے بار بار موقع دینے کے باوجود انتظامیہ نے
اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ مہلوکین کے پسماندگان نے مطالبہ کیا چونکہ
تفتیش ناقص ہے اس لیے ہائی کورٹ میں ازسرِ نو مقدمہ چلایا جائے لیکن عدالت
نے اس مطالبے کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ یہ معاملہ ۲۰۰۲ کا ہے اور ۱۵
سال کے بعد کوئی ایسا شاہد سامنے نہیں آئیگا جو مدعی کی مدد کرسکے ۔ عدالت
کا یہ انکشاف حیرت انگیز ہے ۔ اس کو کیسے پتہ چل گیا کہ یہ نقص دور نہیں
ہوسکتا؟ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں کوتاہی کرنے والوں کو سزا کون دے گا؟
اور اگر انہیں سزا نہیں ملے گی تو فسادات کا سلسلہ کیسے رکے گا؟احمدآباد
عدالت کا یہ فیصلہ اس شعر کی یاد دلاتا ہے؎
خامۂ عدل بک گیا تو بکے،وقت خود فیصلہ سنا دے گا
میرے گھر کو اجاڑنے والے،جا تجھے آسماں سزا دے گا
عدالت کے اس فیصلے سے بلقیس بانو کیس کے ممبئی ہائی کورٹ میں منتقلی کی
اہمیت و ضرورت سامنے آجاتی ہے۔ ممکن ہے اگر وہ معاملہ بھی احمدآباد کی
عدالت میں ہوتا تو مجرمین کو عمر قید کی سزا بھی نہیں ہوتی۔ ممبئی عدالت
عالیہ کے جسٹس وی کے تاہلرمانی اور مردولا بھاٹکر نے اپنے دستاویزی فیصلے
میں لکھا کہ اس طرح کے معاملات میں ہمیں شواہد کی بڑی توجہ اور باریکی سے
دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ حقیقت کوہیرا پھری ، تضادات،بددیانتی اورسخت گیر
تحقیقات کے پردوں میں چھپادیاجاتاہے۔ ان گمراہ کن پردوں کواگر تارتار نہیں
کیا جاتاتوسارے مجرم بری ہوجاتے۔ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں حقائق کو
دبا کر مجرمین کو بچانے کی کوششوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عدالت نے وضاحت
کی کہ پولس والے قضیہ کو تباہ کرنے کی خاطر گواہ بن کر پیش ہوگئے۔عدالت نے
جن واقعات کا اندراج کیا وہ قابلِ توجہ ہیں مثلاً ابلقیس کی طبی جانچ میں
تاخیر، جائے حادثہ پر لے کر نہیں جانا، اس سے مقتولین کی لاشوں کی شناخت
نہیں کرانا اور ان لاشوں کی حفاظت نہ کرنا۔ ٹھوس شواہد کو نظر انداز کرکے
پولس والوں کا اپنے افسران اور مجرمین کو بچانے کے لیےجھوٹا ریکارڈ بنانا۔
استغاثہ کی مخالفت کرنے والے جعلی گواہوں کی پشت پناہی کرنا ۔ ایف آئی
آرمیں ۵۰۰ لوگوں کے تعاقب کی فرضی کہانی ڈال دینا تاکہ بلقیس مجرمین کی
شناخت نہ کرسکے نیز پولس کے ذریعہ ضلعی مجسٹریٹ کے گرفتاری والے احکامات کو
چھپانا وغیرہ ۔ ممبئی ہائی کورٹ نے جو مشاہدات پریہ شعر صادق آتاہے ؎
اپنے سارے جھوٹ کھلے
کس کے آگے پیش ہوئے
وطنِ عزیز میں پولس کا محکمہ تو کب کا اپنا اعتماد کھو چکا لیکن طب کے شعبے
کا وقار قائم تھا لیکن مودی جی کی قیادت میں تعمیر ہونے والے آدرش گجرات
میں وہ تقدس بھی پامال ہوگیا ۔ عدالتی فیصلے میں درج ہے کہ ۵ مارچ ۲۰۰۲ کو
ڈاکٹر ارون کمار پرساد اور سنگیتا پرساد نے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد عدالت
کےاس خیال کی تردید کردی کہ معالج تحقیقات کا حصہ نہیں ہونے کے سبب معصوم
ہوتے ہیں۔ یہ لوگ توقع کے مطابق تمام لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ناکام
رہے۔ نہ تو عصمت دری کا شکارہونے والوں کا کما حقہُ معائنہ کیا گیا اور
شواہدکو محفوظ کیا گیا ۔ ان لوگوں نے پنچنامہ میں پوشیدہ اعضاء کے زخمی
ہونے کا ذکرتو کیا مگر آبروریزی کو گول کرگئے۔ عدالت کے خیال میں یہ ایک
نہیں بلکہ ۳ یا ۴خواتین کی عصمت دری کا معاملہ تھا ۔ڈاکٹروں کا کام موت کی
وجہ بتانے کا ہے لیکن اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا گیا۔ یہ لاپرواہی شواہد
کو چھپانے کے لیے کی گئی تھی۔ احمد آباد کی عدالت بھی اگر اسی طرح کا
جرأتمندانہ موقف اختیار کرتی تو اس کا فیصلہ مختلف ہوسکتا تھا لیکن مودی
جی کے دہلی جانے بعداب بھی وہاں جبرواستبداد کی فضا قائم ہے اس لیے۔
نہ کسی سے عدل کی بات کر نہ کسی سے خیر کی رکھ طلب
کہ متاع نور سحر یہاں شب تیرۂ تر پہ نثار ہے
عدالت کی علامت میں انصاف کی دیوی کے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے تاکہ وہ
تفریق امتیاز نہ کرسکے لیکن شاید اس پٹی میں سوراخ ہوگیا ہے جس سے اس کو
ظالم ومظلوم کا سبز اور زعفرانی رنگ نظر آجاتا ہے یا اس دیوی کو اقتدارِ
وقت اپنی پٹی پڑھا دیتا ہے جس سے یکساں مقدمات میں دہلی کا فیصلہ ممبئی سے
مختلف اوراحمدآباد کا فیصلہ ممبئی سے الگ نکل آتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ انصاف کی علامت کے آنکھوں کے علاوہ کان بھی ڈھانپ دیئے جائیں تاکہ ملک
کے عوام کو بے لاگ انصاف مل سکے۔نربھیا پر ظلم وزیادتی میں کل ۶ افراد شریک
تھے جن میں سے چار کو سزائے موت سنائی گئی اور ایک نے خودکشی کرلی مگر سب
سے زیادہ سفاکی کا مظاہرہ کرنے والا درندہ چھوٹ گیا اور کسی نامعلوم مقام
پر باورچی بنا ہوا ہے۔ دستورہند ۱۸ سال سے کم عمر کو نابالغ قرار دے کر
بچوں کے گھر میں ۳سال کے لیے اصلاح کی خاطر روانہ کردیتا ہے۔ لیکن کیا کوئی
نابالغ قتل اورعصمت دری کرسکتاہے؟ یہ فیصلہ اگر انسانی قوانین کے بجائے
الٰہی قوانین کے مطابق ہوتا تو نربھیا کی والدہ کو اس خوشی کےموقع پر اظہار
افسوس نہیں کرنا پڑتا۔ اس معاملے میں عدالتِ عظمیٰ نے شریعت ِ اسلامی کے
مطابق فیصلہ سنا کر ان لوگوں کو بھی خوش کردیا جو اس کے مخالف ہیں ۔ نربھیا
کا فیصلہ آجانے کے بعد بلقیس کوامید ہے کہ سپریم کورٹ میں اس کے خاندان کے
قاتلوں اور اس کے ساتھ دست درازی کرنے والوں کو بھی پھانسی کی سزا ملے گی۔
امید ہے عدالت عظمیٰ بلقیس کی توقعات پر پورا اتر کر اپنے وقار و اعتبار
میں اضافہ کرے گی۔
|