اگلے وقتوں میں لکھا ہوا مٹانا بڑا آسان تھا۔ کاغذ پانی
میں بہا دو یا جلا کر راکھ کر دو قصہ تمام۔ کچھ دن تک چہ مگوئیاں پھر سب
شانت۔ حکم نامے ہوں یا محبت نامے سب کے پیچھے خاصی محنت اور دلی کیفیات
کھڑی ہوتی تھیں لیکن وقت کے کسی پھیرے میں سب ہوا ہو جاتا تھا جیسے کہ کبھی
کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اب وقت کافی آگے بڑھ گیا ہے۔ برقی مواصلات کا دور ہے۔
دفتر کے کاغذات بعد میں سفر کرتے ہیں پیغام پہلے متعلقہ شخص تک پہنچ جاتا
ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا نے کچھ اور بھی آسانیاں کر دی ہیں۔ اب احکامات
اور پیغامات کے لیے سوشل میڈیا کو سب سے تیز اور کارآمد ذریعہ سمجھا جاتا
ہے اور ایسا ہے بھی۔ آپ کا غصہ، محبت، حکم، درخواست، غرضیکہ دل و دماغ کا
ہر عمل اور ردِ عمل انگلیوں کی پوروں کے اختیار میں ہے۔ سو اس سہولت سے سب
بلا تخصیص عمر و شعبہ استفادہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس نئے نظام میں جو سب سے
بڑی کمی ہے یا کجی ہے وہ لکھے ہوئے کا دائمی رہنا ہے۔ بھلے آپ اسے مٹا دیں،
غائب کر دیں یا اس پہ تردیدی یا ترمیمی ردِ عمل کا مظاہرہ کر دیں۔ آپ نے جو
کہا جو لکھا وہ ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔ ہو بہو انہی لفظوں میں جو آپ نے
استعمال کیے ہیں۔ اسنیپ شاٹ اور اسکرین شاٹ ایسے عوامل ہیں جو آپ کا نامۂ
اعمال صد فیصدلوگ اطمینان سے محفوظ رکھتے ہیں تا کہ بوقتِ ضرورت کام میں
آوے۔
کچھ دن قبل جنرل صاحب نے اتنا زور دار ٹویٹ کیا تھا کہ کیا میڈیا اور کیا
اپوزیشن سب کو کہنے دکھانے کے لیے بہت کچھ مل گیا۔ ایک لفظ rejected نے
حکومت کو بھی دن میں تارے دکھا دئیے تھے۔ یہ میاں صاحب کی پرانی عادت ہے کہ
وہ اسٹیبلشمنٹ سے پنگالیتے رہتے ہیں جبکہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں پی پی
پی کی نسبت نرم ماحول دیا ہے۔ خیر ایک ٹویٹ کے بعد بہت شور شرابا ہوا جو
فطری تھا۔ کچھ لوگوں کے نام بھی میڈیا پہ اچھلتے رہے جن میں مریم نواز کا
نام سرِ فہرست تھا۔ آخرش حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت کے درمیان مذاکرات نے
ایک اور راستہ نکالا اور رپورٹ کے نئے ورژن کی جانب پیش قدمی ہوئی اور جنرل
صاحب کا ٹویٹ بھی واپس ہو گیا۔ اب اس ٹویٹ کی واپسی نے مزید سوال کھڑے کر
دئیے ہیں۔ کئی اینکرز حضرات مایوس بھی نظر آئے اور مایوسی بنتی بھی ہے کہ
جو مال ہاتھ میں تھا بیچنے کے لیے وہ ہی چھوٹ گیا۔
اس سارے معاملے میں بنیادی مسئلہ کہیں بھی زیرِ بحث نہیں رہا۔ بنیادی مسئلہ
یہ بنا رہا کہ خبر باہر کیسے آئی اور شائع کیسے ہوئی…… جبکہ بحث تو اس پہلو
پہ ہونی چاہیے تھی کہ چھ اکتوبر کو سرل المیڈا نے اپنے کالم میں ریاست کے
اداروں کے باہمی تعلق اور پالیسیوں میں عدم اتفاق (یا عدم اعتماد بھی کہہ
لیں) کا جو منظرنامہ پیش کیا تھا اس منظرنامہ سے ملک و قوم کا کتنا نقصان
ہو رہا ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا ہے اور خبر اسی عمل یا واقع کی بنتی ہے
جو وقوع پذیر ہوا ہو۔ اب سارا قصہ پسِ پشت ڈال کر پیامبروں کو پکڑ لینا
کیسا انصاف ہے جس پہ ریاست کے سب ادارے ہی بغلیں بجا رہے ہیں۔ خبر کس نے
بھیجی، کس نے روکنی تھی اور کس نے نہ روکی یہ سب ثانوی چیزیں ہیں جن کا
ملکی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ملکی مفاد کسی شے سے متاثر ہوتا ہے تو اس
مواد سے ہوتا ہے جو اس خبر نے پیش کیا۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ ہمارے اداروں
میں ایسی کوئی متفقہ پالیسی ہے ہی نہیں جس کے تحت کسی کو دہشت گرد اور کسی
کو مجاہد قرار دیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کا قلع
قمع کیا جائے۔ اور اسی سوچ نے ملک کی ساری آبادی کو بھی تقسیم کر رکھا ہے۔
ملک میں موجود غیر سرکاری عسکری گروہوں سے کون نہیں واقف۔ ہر پاکستانی واقف
ہے۔ کسی کے لیے وہ ہیرو ہیں اور کسی کے لیے ملک کی بدنامی کا سبب۔ یہ تفریق
قوم میں کیوں پیدا ہوئی؟ جب یہ فکر پڑوان چڑھائی جا رہی تھی تو کیا کسی نے
سوچا تھا کہ مستقبل میں کیسے ثمرات سے نبردآزما ہونا پڑے گا؟ سوچا ہوتا تو
آج یہ نوبت نہ آتی کہ ایک جانب ہمارے اپنے اداروں کے درمیان ایک متفقہ رائے
نہیں پائی جاتی اور دوسری جانب عالمی سطح پہ ملک کی الگ سے جگ ہنسائی ہو
رہی ہے۔ شاید ہم سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہم ہی عقلِ کل ہیں اور ہمارا
بیانیہ ہی سب سے مضبوط بیانیہ ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیانیہ
کی ہی کمی ہے اور دانائی کی حالت یہ ہے کہ ہماری ستر برس کی تاریخ میں
ہمیشہ صاحبانِ اختیار و اقتدار نے اپنی خواہشات اور انا کو سامنے رکھتے
ہوئے فیصلے لیے جن میں جنون ہی غالب رہا۔ جذبات کے ہنگام میں ہم لوگ عقل و
دانائی سے دور نکلتے گئے اور جب کبھی کسی نے دانائی کی بات کی بھی تو اسے
خاموش کرانے کے لیے ہر راستہ اپنایا گیا۔ کبھی سیاست کا تو کبھی طاقت کا۔
آج جبکہ ہمارا ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملک بھر میں وحشت اور
بربریت کے پیامبر پھیل چکے ہیں۔ تین ہمسائیوں کے ساتھ ہماری سرحدی کشیدگی
ہے۔ چوتھا ویسے ہی غیر محسوس انداز میں ہماری معیشت کو اپنے ہاتھ میں لے
رہا ہے تو ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ،کن مباحث میں الجھے ہیں اور آئندہ کے
لیے کیا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں؟؟؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ایسے
عالم میں بھی اگر ریاستی اداروں میں اتفاقات سے زیادہ اختلافات ہوں تو
مستقبل کی پیشین گوئی کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔
جس ریاست کا کوئی بھی ادارہ ٹھیک سے کام نہ کر پا رہا ہو اس سے کوئی بھی
بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ یہاں انصاف کا نظام ایسا ہے کہ ایک جانب
اسلام آباد کی سڑکوں پہ کھلے عام اسکندری کرنے والے کو سب ثبوت اور گواہان
ہوتے ہوئے سزا ملنے میں چار برس لگ جاتے ہیں اور دوسری جانب عدالت عرصہ سے
قید مظلوم و بے گناہ کو بری کرتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ انھیں تو عرصہ پہلے
پھانسی ہو چکی۔ جہاں عدالتیں بک جاتی ہوں، گواہ خرید لیے جاتے ہوں اور ثبوت
بنانے مٹانے کے کارخانے لگے ہوں وہاں ہو بھی کیا سکتا ہے۔ عام آدمی کی پہنچ
میں انصاف نہ ہو تو بڑے مگرمچھوں کو کون لگام ڈالے؟؟ تعلیمی نظام کی حالت
ایسی ہے کہ ایک عمارت میں بیٹھے لوگ دوسری عمارت کے نصاب سے مکمل ناواقف
ہیں اور دوسری عمارت والے تیسری عمارت کے لوگوں کو دئیے جانے والا سبق نہیں
جانتے۔ تعلیم ہوتی تو طلبا کا لفظ ہی استعمال کرتا لیکن ان چاردیواریوں میں
تعلیم کے سوا سب کچھ ہے۔ اگر تعلیم ہوتی تو قوم میں شعور موجود ہوتا جو
ناپید ہو چکا ہے۔ ہمارا عہد شعور کش عہد کے نام سے جانا جائے گا کیونکہ
ہماری اسی محرومی نے ہم سے اچھے، برے، سچ، جھوٹ میں تمیز کرنے کی حس چھین
لی ہے۔ اگر ہم لوگ بحیثیت قوم اس حس کے حامل ہوتے تو آج صاحبانِ اقتدار و
اختیار اپنے فیصلوں سے قبل اتنا ضرور سوچتے کہ اس کا اثر عوام پہ کیا پڑے
گا۔ عوامی ردِ عمل کیا ہو گا اور اس ردِ عمل کے نتیجے میں ہم کہاں کھڑے ہوں
گے لیکن چونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کا شعور مر چکا ہے سو وہ آپس میں
الجھتے بھی ہیں۔ بھاؤ بھی کرتے ہیں اور معافی تلافی بھی کر لیتے ہیں کہ یہ
اب ان کا باہمی معاملہ ہے۔ سو اب وہ ٹویٹیں یا پوسٹیں۔ اس سے عوام پہ ہونے
والا اثر کم از کم انھیں کچھ فرق نہیں ڈالتا۔ اور اگر شاہجہاں سالف سا کوئی
سر پھرا ان بڑوں کی پالیسیوں پہ کوئی بات کرتا ہے یا عوام کے حق میں آواز
اٹھاتا ہے تو اس کا بندوبست ان کے پاس موجود ہے۔ اسے منظر سے ہی غائب کر
دیں گے تا کہ جہاں ایک زبان خاموش ہو وہیں دوسری زبانوں پہ بھی تالے لگ
جائیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی طاقت اور قوت کے نشے میں جس مقام پہ بھی پہنچ
جائیں جو بھی کر لیں انھیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میں ان
کے، حکم نامے، اعلانات، ٹویٹس اور پوسٹس محفوظ ہوتی جا رہی ہیں اور آنے
والے زمانے میں انہیں گزرے وقت کی عجیب و غریب کہانیوں کے عنوان سے پڑھا
جائے گا جس پہ کوئی روئے گا تو کوئی ہنسے گا۔ |