دروازے کو ٹھوکر مارنے والے نے پورا زور لگا کر ٹھوکر مار
ی اور پھر اِس سے بھی زیادہ زور سے دروازہ بند کیا۔اندر روم میں ٹی وی
دیکھتی ہوئی ماں سہم بھی گئی اور سمجھ بھی گئی کہ گھر کون آیا ہے۔عدیل کو
لیکر اُس کے امّی ابو بہت زیادہ پریشان تھے ،کہ ابھی اتنی چھوٹی سی عمر میں
اس کا اتنا غصہ کرنا ،چڑ چڑا پن ،عدم برداشت آگے چل کر ان کیلئے اور خود
اُس کیلئے کتنے زیادہ مسائل پیدا کر سکتا ہے ،وہ پریشان تھے۔بچہ سکول میں
کیا سیکھ رہا ہے؟ اُس کا رویہ کیسا ہوتا جا رہا ہے؟عدیل ابھی صرف ششم کلاس
کا طالبعلم ہے ۔ لیکن اس کا رویہ انتہائی غیر مناسب ہے۔ ماں باپ نے شہر کے
بہترین سکولوں میں سے ایک سکول میں اس کا داخلہ کروایا اور مطمئن ہو کے
بیٹھ گئے،کہ یہاں سے ہمارا بیٹا بہترین اور کامیاب انسان بن کر نکلے
گا۔عدیل کے والدین اس کو دی جانے والی سہولیات کے متعلق بھی مطمئن تھے۔کسی
قسم کی کوئی کمی نہیں تھی۔لیکن بھر بھی اس کا رویہ اور کردار کیسا بنتا جا
رہا تھا۔اگر یہ غصہ ،چڑچڑاپن اور عدم برداشت مستقل اس کے مزاج کا حصہ بن
گیا تو پھر ؟ یہ وہ سوال تھا جس نے عدیل کے والدین کی نیندیں حرام کر دی
تھیں۔عدیل جس سکول میں پڑھتا تھا وہ شہر کے بہترین سکولوں میں سے تھا ،اور
سکول والے ہرکسی کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیتے تھے کہ جی ہمارے پاس ہائی
کوالیفائیڈ سٹاف ہے ۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہائی کوالیفائیڈ سٹاف بچوں کی
کردار سازی کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہا تھا ۔اور کرے بھی تو کیسے ؟ آج کل تو
سال کے پہلے دن سے پڑھائی کی دوڑ شروع ہوئی ہے اور سال کے آخری دن کے آخری
لمحوں تک ختم نہیں ہوتی۔ہائی کوالیفائیڈ سٹاف کو پڑھائی کروانے کا ٹارگٹ
دیا جاتا ہے۔سلیبس مکمل کروانے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔اچھی Percentageکا
ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔لیکن اُن کو کردار سازی کا ٹارگٹ نہیں دیا جاتا۔کیونکہ
اِس کام کیلئے آج کل کے سکولوں کے پاس ٹائم نہیں ہی نہیں ہے۔بچہ کیا سیکھ
رہا ہے؟بچہ کس طرح پاس ہورہا ہے؟ محنت کر کے یا چیٹنگ کر کے اس سے فرق نہیں
پڑتا مقصد صرف پاس ہونا ہے اور کچھ نہیں۔والدین اور اساتذہ کو اندازہ بھی
نہیں کہ بچے کس طرح کی غیر اخلاقی اور مجرمانہ کاروائیوں میں مبتلا ہوتے
جار ہے ہیں۔اُن کا مستقبل داؤ پہ لگ چکا ہے۔والدین دن رات پیسہ کمانے کے
چکروں میں ہیں۔اور سکولز دن رات اسی پلاننگ میں گم ہیں کہ کس طرح مزید پیسے
بٹورے جا سکتے ہیں۔لیکن وہ ننھا سادل چھوٹا سا دماغ کن سوچوں میں گُم اور
پریشان رہتا ہے۔اُس کا دل کیا چاہتا ہے کسی کو اس میں زرا سی بھی دلچسپی
نہیں ۔ہم لوگ بے حسی اور سفاک پن میں جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
آج کے بچے نہ والدین کی عزت کرتے ہیں اور نہ اساتذہ کی۔اور اس کی وجہ بچے
نہیں بلکہ خود والدین اور اساتذہ اس کے ذمہ دار ہیں۔بچے کسی بھی قوم کا
قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔اور سب سے زیادہ توجہ اور محبت کے طلبگار بھی ،جس
طرح کے بیج ہم لوگ بورہے ہیں۔کل اس فصل کو کاشت کرتے ہوئے ہمیں دکھ یا
تکلیف نہیں ہونی چاہیئے ۔پھر والدین کو بھی اپنی اولاد کے اور اساتذہ کو
اپنے شاگردوں کی بدتمیزی کی رونے نہیں رونے چاہئیں اورملک کی عوام کو بھی
نہیں رونا چاہئے کہ کیسے لیڈ ر ہم پر حکمرانی کرنے آگئے۔سب کچھ ہمارا اپنا
کیا دھرا ہے۔جھوٹ ،بے ایمانی ،دغا بازی،چیٹنگ کرنے کے نت نئے طریقے یہ سب
کچھ ہم سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیزمیں بچوں کو سکھا کر بھیجتے ہیں اور
ایسی تربیت کے بچے جب عملی زندگی میں داخل ہوں گے تو یہ استحصال بھی کریں
گے ۔کرپشن بھی کریں گے ،جھوٹے وعدے بھی کریں گے۔اور ایسے ہی معاشروں میں
اولڈ ہومز بنتے ہیں ۔ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو کیا سکھا رہے ہیں ؟؟؟
سوچئے گا ضرور |