خواب ہر شخص دیکھتا ہے زندگی میں آگے بڑھنے ،ترقی کرنے
اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھنے کے خواب ۔ اس نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں
تو غربت کے سوا کچھ تھا ہی نہیں بھوک اور افلاس کا ناچ تھا ، محرومیوں کے
بھنگڑے تھے خواہشات کی سسکیاں تھیں وہ صرف کچی مٹی اور پرانے بالوں کا
بوسیدہ سامکان نہیں بلکہ ارمانوں کا ایک قبرستان تھا ۔ ایسے گھر کہ جہاں
زندگی کی سب سے بڑی عیاشی ہفتوں بعد کسی روز پیٹ بھر کر کھانا مل جانا ہو
اس کے مکین بھی خواب دیکھتے ہیں مگر اان کے حالات کی طرح ان کے خواب بھی
بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ۔
اس کا باپ دیہاڑی دار مزدور تھا ۔ اپنا کام بہت ایمانداری سے کرتا تھا شاید
یہ ہی وجہ تھی کہ اس کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا تھا اور دیگر مزدوروں کی
طرح صبح سویرے اسے گاؤں کے چوک میں بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا پڑھتا تھا کہ
کوئی آئے اور اسے مزدوری کیلئے لے جائے لیکن اس کی مسلسل محنت کے باوجود اس
کے گھر یلو حالات تنگدستی کے پنجے سے نہیں نکل پائے تھے۔ وہ اس کی ساتویں
اولاد تھا اس سے پہلے پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ اسے تو خبر تک نہ ہوئی
کہ کب کچے آنگن میں ننگ دھڑنگ مٹی میں لوٹتے پوٹتے اس کا بچپن گزر گیا ۔دیگر
بچوں کی طرح وہ گاؤں کے واحد پرائمری سکول میں بھی باقاعدگی سے گیا ۔چونکہ
گاؤں شہر سے بہت دور تھا اس لیئے اس سکول میں جس استاد کی بھی ٹرانسفر ہوتی
یا تو وہ جلدہی کوئی سفارش لگا کر تبادلہ منسوخ کروالیتا یا ہفتے میں ایک
آدھ دن صرف خانہ پری کیلئے سکول آجاتا تھا ۔ان حالات میں پڑھائی تو خاک
ہونا تھی باقاعدگی سے سکول جانے کا واحد مقصد یہ تھا کہ حکومت کی طرف سے
مفت کاپیاں کتابیں مل جاتی تھیں جن کے اوراق گاؤں کے گندے نالے میں کشتی
بنا کر بہانے اور کاغذی جہاز بنا کر ہوا میں اڑانے کے کام آتے تھے۔ اس گاؤں
کے بچوں کا ایک دوسرے کو پیٹنے گندے نالے میں چھلانگیں لگانے کے علاوہ یہ
واحد کھیل تھا۔
گاؤں میں بچوں کی جلدی شادی کارواج تھا اور اس کی شادی بھی بہت کم عمری میں
ہوگئی ۔باپ نے اس کو بھی اپنے ساتھ مزدوری پر لگالیا مگر پہلے بچے کی
پیدائش پر کم بخت خوابوں نے اس کی آنکھوں میں آبسیرا کیا ۔ اس نے سوچا کہ
وہ اپنے بچے کو بہتر زندگی دے گا اس کو پڑھائے لکھائے گا محرومی اور افلاس
کا سایہ بھی اس پر نہیں پڑھنے دے گا ۔ بہت سوچ و بچار کے بعد اس نے گاؤں سے
کوچ کرکے شہر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
جب وہ پہلی بار لاہور آیا تو انسانوں کا سمندر دیکھ کر سچ میں گھبراگیا
لیکن وہاں پہلے سے موجود اس کے گاؤں کے ایک شخص نے اس کی بہت مدد کی ہمت
بندھائی راستہ دکھایا اور یوں جلد ہی وہ بھی اس بھیڑ بھاڑ کا حصہ بن گیا ۔
اس نے مزدوری کی ٹھیلہ لگایا رکشہ چلایا بہتر سے بہتر کی تلاش میں کوشاں
رہا ۔ محنت رنگ لاتی ہے اور اس کی بے پناہ محنت نے بھی ثمرات دینا شروع
کردیے تھے اس نے بیوی بچے کو بھی لاہور بلالیا اس کی زندگی کا سب سے
خوبصورت دن وہ تھا جب پہلی بار وہ اپنے بچے کو سکول چھوڑنے گیا دوستوں کے
مشورے سے اس نے اپنے بچے کیلئے ایک اچھے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا انتخاب
کیا تھا ۔ اس نے اپنے بچے کو زندگی کی ہر آسائش دی وہ اپنی ساری تشنگیاں
دور کرکے اپنے بچے میں اپنا بچپن جینا چاہتا تھا۔
اس کی چھوٹی سی دنیا تھی خواہشات محدود تھیں سب ٹھیک جارہا تھا کہ اچانک نہ
جانے اس کی خواہشوں کو کسی کی نظر لگ گئی ۔وہ ان دنوں ایک گاڑی چلارہا تھا
۔آمد ن اچھی تھی گاڑی کے مالک کو آدھی بچت دے کر بھی اچھی خاصی رقم بچ جاتی
تھی ۔لیکن اس دن ایک ایسا حادثہ ہوا کہ اس نے اس کی چھوٹی سی دنیا کو تہہ
وبالا کردیا ۔وہ گاڑی کو ایک سٹور کے سامنے پارک کرکے کچھ سامان لینے سٹور
میں گیا اور جب واپس لوٹا تو گاڑی نہیں تھی اس کے سر تو جیسے آسمان ہی ٹوٹ
پڑا ۔گاڑی کے مالک کو گاڑی چوری ہونے کی اطلاع دی مگر وہ تو الٹا اسی پر
برس پڑا۔گاڑی کے مالک کی اچھی خاصی جان پہچان تھی اسے پولیس سے اٹھوالیا
اور چوری کا الزام بھی اسی پر لگادیا ۔وہ کئی روز تک پولیس کے بہیمانہ تشدد
کا شکار رہا آخر کار کچھ لوگ درمیان میں پڑگئے فیصلہ ہوا کہ وہ مالک کو
گاڑی کی رقم جو تقریباً آٹھ لاکھ روپے تھی ایک سال کی اقساط میں ادا کرے گا
جبکہ پندرہ یوم کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ ادا کرے گا۔ مرتا کیا نہ کرتا
اس نے معاہدے پر دستخط کیئے اور یوں جان خلاصی ہوئی ۔
تھانے سے تو جان چھوٹ گئی مگر اب قرض کا ایک پہاڑ سر پر تھا اور سب سے بڑا
مسئلہ پندرہ یوم کے اندر ایک لاکھ کی ادائیگی تھی اور اس سے بھی سنگین صورت
حال یہ تھی کہ اس پر چوری کا دھبا لگ گیا تھا اب کوئی اس کو گاڑی دینے
کیلئے تیار نہیں تھا۔
دن گزرتے گئے اور پریشانی بڑھتی گئی گھر میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی ۔اس
روز بھی سارا دن کسی کام کی تلاش میں ناکامی کے بعد وہ تھک ہار کر ایک سڑک
کے کنارے بیٹھا ۔ تیزی سے گزرتی گاڑیوں اور آتے جاتے لوگوں کو خالی خالی
نظروں سے دیکھ رہاتھا۔ جس طرح خوشی اور آسودگی چھپائے نہیں چھپتی اسی طرح
پریشانی بھی چہرے سے چمٹ کر بیٹھ جاتی ہے اور دیکھنے والے کو پورا قصہ
سنادیتی ہے ۔ وہ تو دنیا مافیہا سے بے خبر بیٹھا تھا کہ کندھے پر کسی ہاتھ
کے دباؤ نے اس چونکا دیا ۔نظریں اٹھائیں تو ایک شخص گہری نظروں سے اسے دیکھ
رہا تھا ۔ وہ شخص اسے زبردستی اُٹھا کر سامنے چائے کے ٹھیلے پر لے گیا ۔ اس
کیلئے چائے اور کیک منگوالیا ۔اس شخص کا لہجہ اس قدر ہمدردانہ تھا کہ اس نے
لمحوں میں آنسوؤں میں ڈوبے لہجے سے ساری کہانی سنا ڈالی ۔
وہ شخص کھلاڑی تھا لمحے میں اس کو اپنی لچھے دار باتوں میں پھنسالیا ۔ ایک
لاکھ روپے کی ادائیگی میں صرف ایک دن باقی بچا تھا ۔اس شخص نے اسے گردہ
بیچنے پر راضی کرلیا ۔ اس نے بتایا کہ اس سے اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں
پڑے گا ۔اور اسے ایک لاکھ تیس ہزار روپے بھی مل جائیں گے ۔ وہ گاڑی مالک کی
دھمکی آمیز کالوں سے خوفزدہ تھا تھانے میں گزارے ہوئے دنوں کی یاد بھی ایک
آسیب کی طرح اس کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اور یہ خیال ہی لرزہ خیز تھا کہ اسے
دوبارہ اسی عمل سے نہ گزرنا پڑجائے ۔
سب کچھ بہت جلدی جلدی ہوگیا اسے ٹیسٹ کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا اگلے دن اس
کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیا جب آنکھوں سے پٹی اتاری گئی تو اس
نے خود کو ایک کوٹھی میں پایا اس کے ایک کمرے کو عارضی آپریشن تھیٹر
بنایاگیا تھا ۔ اس کا گردہ نکال لیا گیا ۔وہ گردے کے چھن جانے یا آپریشن کی
تکلیف سے بے نیاز تھا خوشی تھی تو صرف اتنی رقم مل جائے گی اس کی زندگی میں
جو خوفناک ٹھہراؤ آیا تھا وہ ختم ہوجائے گا پھر محنت کرے گا اور اپنی چھوٹی
چھوٹی خواہشات میں حقیقت کے رنگ بھرے گا۔
لیکن پھر اچانک وہ ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ایک سیکورٹی
ادارے نے وہاں چھاپہ مارا اور اس سمیت جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے سب پکڑے
گئے ۔افسران کی تفتیش شروع ہوئی تند و تیز سوالات کے نشتر چلنے لگے وہ گم
صم بیٹھا تھا اپنے نصیب کا ماتم کرتا رہاسے کیا خبر کہ یہ گھناؤ نا کاروبار
کب سے جاری ہے اس کے مراکز کہاں کہاں ہیں ؟اس مکروہ کھیل کے در پردہ کون
کون سی شخصیات ملوث ہیں ؟کس کو کیا ملتا ہے اور حصے بخرے کہاں تک جاتے ہیں
؟
اسے اس سے کیا مطلب کہ یہ مسیحا ہیں یا قصائی؟ان کو یہ فرسودہ نظام انصاف
نشانہ عبرت بنا بھی پائے گا یا چند ہی روز میں وہ قانون کی کمزوریوں سے
کھیل کر باعزت بری ہوجائیں گے ۔ اس کا مسئلہ یہ بھی نہیں کہ یہ چند لوگوں
کا دھندا ہے یا کوئی پورا نیٹ ورک ہے اس کا مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ اس کا
گردہ بھی گیا اور رقم بھی ڈوب گئی ۔ |