مومن اور مسلمان

کچھ ھفتے پہلے کی بات ھے ایک نقاب پوش خاتون فرانس کے کسی سوپر مارکیٹ میں خریداری کے لیۓ آیئ
مطلوبہ اشیاء ٹوکری میں ڈالنے کے بعد جب کاؤنٹر پر گیی تو ایک سیلز گرل جو صورت سے عرب لگ رھی تھی ،اس باحجاب خاتون کو تنقیدی نظروں سے دیکھ کر بهڑبھڑایئ مگر جواب نہ ملنے پر وہ سیلز گرل مزید تاولی ھوگیی اور خاتون سے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ پہلے کیا مسلمانون کے یہاں کم مسائل ہیں کہ آپ جیسے عورتیں ان میں اور اضافہ کر دیتی ہیں ، ھم کیوں نہیں سمجھتے کہ ھم یہاں محض سیاحت اور کاروبار کے لیے آتے ہیں اور اگر تم اتنی بھی کامل مسلمان هو تو جاؤ اپنے ملک اور جو کرنا ھے خوشی سے کرو مگر ھمیں یہاں سکون سے رہنے دو!

خاتون نے سب گفتگو آرام سے سن کر اپنا سامان کاؤنٹر پر رکھ دیا اور چہرے سے نقاب ہٹا کر یورپی نقش نما چہرہ آشکارہ کر کہ سیلز گرل کو مخاطب ہویئ کہ میں ایک فرانسیسی مسلمان عورت ھوں اور یہ میرا اپنا ملک ھے..میں یہاں مختلف مشکلات برداشت کر کے اپنے دین اقدس پر مکمّل عمل پیراہ ھونے کی کوشش کررھی ھوں ،آپ بجایے مغرب کی ظاہری رونقوں سے متاثر هو کے اپنے دین اسلام پر چلنے کی کوشش کرتی جبکہ آپ جیسے مسلمانوں نے دین اسلام کو چند مراعات کی خاطر فروخت کر لیا ھے جبکہ میں نے اسلام کو خرید لیا ھے اور میں اچھی طرح جانتی ھوں کہ اچھا اور برا راستہ کونسا ھے اور اسلام کی حقیقت تم کیا جانو اصل حقیقت تو مجھے پتہ ھے جو آدھی زندگی میں نے عیش و عشرت اور گناھوں کے بھنور میں گزاری ھے مگر کوئی حقیقی خوشی نہ ملی.

اگر آپ حجاب نہیں کرتی تو کم از کم اور لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ کرو ...

قاریین ایک وہ عورت جو نسب سے مسلمان اور ایک مسلمان عرب ملک سے تعلق ھے اسکو اسلامی قوانین و اصول کی قدر نہیں جبکہ دوسری نو مسلم خاتون ایک مغربی ملک میں رہ کر بھی اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیراہ ھوتی ھے ، مختلف مشکلات اور طعنے برداشت کر کے اپنے منتخب کردہ اصولوں سے ہٹنے کو تیار نہیں ...یہی فرق ھوتا ھے مسلمان اور مومن میں
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رھا ھے کہ آج ھم اپنی ضروریات کی خاطر اپنے اسلام پر کومپرومائز کرنے کو تیار ہیں مگر اپنے اسلام کے لیۓ اپنی ضروریات اور خواھشات پر کومپرومائز کرنے کو تیار نہیں

جبکہ اس سے بھی افسوس کا مقام یہ ھے کہ ھم اسلامی قوانین کو تھوڑ کر اس پر بجایے اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرنے فخر محسوس کرنے اور بحث کرنے لگ جاتے ہیں

ھمیں چاہیے کہ ھم مغرب کی کھوکھلی ترقی و خوشحالی کو نظر انداز کر کے اپنے اسلاف کے سنہری روایات پر چل پڑیں تب کوئی طاقت اسلام اور مسلمانوں کا راستہ نہیں روک سکتی اور درحقیقت ہماری زوال کا اولین مسلہ بھی اسلام و قرآن سے دوری ھے جس فاصلے کو مٹانے سے ھی اصل ترقی و کامرانی ملے گی
اقبال نے کیا خوب فرمایا ھے کہ اس قرآن کی وجہ سے مسلمان آسمان کی بلندیوں کو چوگیۓ ہیں اور اس قرآن کی وجہ سےھی مسلمان زوال کی پستیوں میں گرے ہیں جبکہ آسمان کی بلندی کو چھونا قرآن پر عمل پیراہ ھونے میں جبکہ زوال کی پستی میں گرنا قرآن سے دوری ھے

Javed Hussain Afridi
About the Author: Javed Hussain Afridi Read More Articles by Javed Hussain Afridi: 15 Articles with 11594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.