یہ سوال امریکہ سے مستقل طور پر پاکستان آ کر رہنے والی
ایک پاکستانی فیملی کے ایک چھوٹے سے بچے نے اس وقت اپنی بہن سے کیا جب وہ
نوکری کے لئے اپنے والد کے ساتھ کسی جگہ انٹرویو دینے جا رہی تھی۔ بچے کی
عمر تقریباً سات یا آٹھ سال تھی اور اسے اردو ابھی ٹھیک طرح بولنی بھی نہیں
آتی تھی مگر اسے اپنے دادا کے ساتھ ہر پل رہنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اردو
بولنے اور پڑھنے کا بے انتہا شوق تھا بلکہ اسے اپنے وطن پاکستان سے بھی بہت
محبت تھی۔ کیوں کہ اس کے دادا ہر وقت اسے ان جاں نثاروں کی قربانیوں کے قصے
سنایا کرتے تھے جنھوں نے مسلمانوں کے لئے نہ صرف علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا
تھا بلکہ اس کے حصول میں بے شمار جانوں کی قربانیاں بھی دی تھیں۔ وطن کی
یہی محبت دادا کے مسلسل اصرار پر پورے خاندان کو واپس پاکستان کھینچ لائ
تھی۔ اور آج جب ان کی پوتی نوکری کے لئے انٹرویو دینے جا رہی تھی تو معصوم
ذہن نے باپ کو جب بہن کی ہمت بندھاتے دیکھا تو سوال کردیا کہ بابا یہ کیسے
انٹرویو دے گی اسے تو اردو مجھ سے بھی کم بولنا آتی ہے؟ اس سے پہلے کے بچے
کے والد کچھ جواب دیتے بیٹی خود بول پڑی اور انگریزی میں کہنے لگی کہ تمہیں
کیا پتہ یہاں انگریزی بولنے اور لکھنے پڑھنے کی اہمیت امریکہ سے بھی زیادہ
ہے۔ جس کی جتنی اچھی انگریزی ہوتی ہے اس کو نوکری بھی اتنی اچھی اور جلدی
ملتی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ہر سال پاکستان آتی تھی اس لئے اسے
یہاں کے ماحول کے بارے میں کافی اندازہ تھا۔ شروع شروع میں جب اس کی ہم عمر
کزنز اسے یہ سب کچھ بتاتی تھیں تو اسے بھی اسی طرح حیرت ہوتی تھی جیسے آج
اس کے معصوم بھائ کو ہوئ۔ جیسے ہی بچے نے اپنی بہن کا جواب سنا تو حیرت سے
سوال کیا کہ بابا یہ کیا کہہ رہی ہے؟ کیا ہماری قومی زبان اردو نہیں ہے؟
کیا پاکستان آکر بھی ہماری انگریزی سے جان نہیں چھوٹے گی؟اس سے پہلے کہ وہ
کوئ اور سوال کرتا،اس کے والد نے اسے ٹالتے ہوئے کہا کہ بیٹا ابھی آپ چھوٹے
ہو، آہستہ آہستہ آپ کو سب کچھ سمجھ آجاۓ گا۔
یہ سوالات ایک معصوم ذہن میں آسکتے ہیں مگر ہمارے حکومتی اداروں میں بیٹھے
ناخداؤں کے ذہنوں میں کبھی نہیں آسکتے۔
ہم نے اردو کو قومی زبان کا درجہ تو دیا مگر اسے آج تک، نہ اپنایا اور نہ
ہی وہ عزت بخشی جو ایک قومی زبان کو ملنی چاھیئے۔ انگریز کب کے حکومت کر کے
چلے گۓ مگر ہم نے انگریزی زبان کی غلامی آج تک نہ چھوڑی۔ ہونا تو یہ چاہیئے
تھا کہ آزادی ملتے ہی جیسے ہی اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ویسے
ہی اردو کو زندگی کے ہر شعبہ میں اہمیت دی جاتی مگر ہوا یہ کے انگریزی کی
اہمیت روز بروز بڑھتی گئ۔ یقیناً ہماری لشکری زبان میں کہیں کوئ کمی ہو گی
جو یہ آج تک عملی طور پر قومی زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی۔ آج انگریزی
بولنے والے اور لکھنے پڑھنے والے، خواہ ان میں کوئ صلاحیت ہو یا نہ ہو، کو
زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں اہمیت دی جاتی ہے۔ اپنے ہی ملک میں نوکری کے
لئے کہیں جائیں تو انٹرویو انگریزی میں دیں۔ آپ کو کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو
مگر اگر انگریزی فرفر بولنا آتی ہے تو سو میں سے نوّے نمبر تو خوامخواہ ہی
مل جائیں گے۔ مگر دوسری طرف اگر آتا آپ کو سب کچھ ہے اور انگریزی بولنے میں
اٹکتے ہیں تو انٹرویو لینے والا پہلے تو ٹیڑھے میڑھے منہ بناۓ گا پھر اسی
وقت آپ سے معذرت کر لے گا۔ کسی بھی ترقی یافتہ قوم کو دیکھیں اور بتائیں کہ
کون سا ایسا ملک ہے جس نے اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو
زندگی کے ہر شعبے میں ترجیح دی ہو۔ جاپان، چین، روس، فرانس، اٹلی، امریکہ،
ترکی اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں قومی زبان ہی لکھی، پڑھی اور بولی
جاتی ہے۔ اپنی قومی زبان تک کو تو ہم ابھی تک کوئ درجہ اور عزت نہ زندگی
اور نہ اپنے دلوں میں دے سکے، اور دعوے ہم ترقیوں کے کرتے ہیں۔
اگر اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے تو اسے وہ عزت و مقام دیا جانا
چاہئے جو پوری دنیا میں قومی زبان کو حاصل ہے۔ ورنہ اسے قومی سے صوبائ زبان
بنا دیا جاۓ اور انگریزی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا جاۓ۔ تاکہ لوگوں کو
پتہ ہو کہ ہم نے انگریزی زبان ہی میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا ہے۔ تاکہ اس
بچے سمیت کسی بھی معصوم ذہن میں ایسے سوالات نہ ابھریں۔ تا کہ میرے اور آپ
جیسے چند لوگوں، جو اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ اردو کو قومی زبان، کہا
نہ جاۓ بلکہ عملی طور پر بنایا جاۓ، کا اعتراض ختم ہوجاۓ۔ ہمارے صدر،
وزیراعظم، ایم این اے، ایم پی اے اور تمام حکام بالا، سب کو انگریزی بولنا
اور لکھنا پڑھنا آنا چاہئے۔ اور یہ اس ملک کا قانون بن جاۓ کہ سیاست یا
حکومت میں آنے والے ہر امیدوار پر فرفر انگریزی بولنا اور لکھنا پڑھنا لازم
ہو۔ بلکل اسی طرح جس طرح نوکری کے لئے انٹرویو دینے جانے والے امیدوار کے
لئے فرفر انگریزی بولنا اور لکھنا پڑھنا آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ
بےچارے عوام ہی کیوں بھگتیں؟
شہلا خان |